شیطان کے دوستوں کی نشانیاں قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ تحریر ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی کی کتاب اولیاء اللہ کی پہچان سے ماخوذ ہے۔

کتاب اللہ سے غفلت اور منہ موڑنا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
‎ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ ‎ ﴿٦٠﴾ ‏ أُولَٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ ‎ ﴿٦١﴾ ‏ وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ‎ ﴿٦٢﴾ ‏ بَلْ قُلُوبُهُمْ فِي غَمْرَةٍ مِّنْ هَٰذَا وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِّن دُونِ ذَٰلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ ‎ ﴿٦٣﴾ ‏ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِم بِالْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ ‎ ﴿٦٤﴾ ‏ لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّكُم مِّنَّا لَا تُنصَرُونَ ‎ ﴿٦٥﴾ ‏ قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَكُنتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ تَنكِصُونَ ‎ ﴿٦٦﴾ ‏ مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ ‎ ﴿٦٧﴾
(23-المؤمنون: 60تا67)
”ہم کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ کام نہیں دیتے ، ہمارے پاس ایسی کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے، ان کے اوپر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ بلکہ ان کے دل اس طرف سے غفلت میں ہیں، اور ان کے لیے اس کے سوا بھی بہت سے اعمال ہیں جنہیں وہ کرنے والے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ہم ان کے آسودہ حال لوگوں کو عذاب میں پکڑیں گے، اچانک وہ بلبلا رہے ہوں گے ۔ آج مت بلبلا ؤ ، بے شک تمھیں ہماری طرف سے مدد نہ دی جائے گی۔ میری آیتیں تو تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں، پھر بھی تم اپنی ایڑیوں کے بل الٹے بھاگتے تھے، اکڑتے ، اینٹھتے ، افسانہ گوئی کرتے اسے چھوڑ دیتے تھے۔“

ان کے برعکس مؤمنوں کا طرز عمل

«أن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم قالت: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن هذه ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ﴾ (المؤمنون: 60) قَالَتْ عَائِشَةُ: أهم الذين يشربون الخمر ويسرقون؟ قال: لا يا بنت الصديق ، ولكنهم الذين يصومون ويصلون ويتصدقون، وهم يخافون أن لا يقبل منهم»
سنن ترمذى، كتاب تفسير القرآن، رقم: 3175۔ مسند احمد: 160، 195/6 ۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح“ کیا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: ڈرنے والے کون ہیں، وہ جو شراب پیتے ، بدکاریاں کرتے اور چوریاں کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جونماز پڑھتے ، روزہ رکھتے صدقہ وخیرات کرتے ہیں لیکن ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ نا مقبول نہ ٹھہر ہیں۔

سنی سنائی باتوں کو ہوا دینا ۔ جھوٹ بولنا ۔ قول فعل میں تضاد

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
‎﴿هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَىٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ ‎﴿٢٢١﴾‏ تَنَزَّلُ عَلَىٰ كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ‎﴿٢٢٢﴾‏ يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ ‎﴿٢٢٣﴾‏ وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ‎﴿٢٢٤﴾‏ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ ‎﴿٢٢٥﴾‏ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ ‎﴿٢٢٦﴾‏ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ ‎﴿٢٢٧﴾‏
(26-الشعراء: 221تا227)
”کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اتر تے ہیں؟ وہ ہر ایک جھوٹے گناہگار پر اترتے ہیں، اچٹتی ہوئی سنی سنائی پہنچا دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں۔ شاعروں کی پیروی وہ کرتے ہیں جو بھٹکے ہوئے ہوں۔ کیا آپ نے انہیں دیکھا کہ شاعر ہر ایک وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور انتقام لیا اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا جنہوں نے ظلم کیا، وہ بھی پر یا عنقریب جان لیں گے کہ لوٹنے کی کون سی جگہ لوٹ کر جائیں گے۔“

اللہ کے سیدھے راستے سے روکنا

‎﴿وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ‎﴿٣٦﴾‏ وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ ‎﴿٣٨﴾‏ وَلَن يَنفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذ ظَّلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ ‎﴿٣٩﴾
(43-الزخرف: 36تا39)
”اور جو شخص رحمن کی یاد سے غفلت کرے، ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے۔ اور وہ انہیں اصل راہ سے روکتے ہیں، اور اس خیال میں رہتے ہیں کہ یہ سیدھی راہ پر ہیں ، یہاں تک کہ جب ہمارے پاس آئے گا کہے گا: (اپنے ساتھی یعنی شیطان سے کہے گا) کاش ! میرے اور تیرے درمیان دومشرقوں کا فاصلہ ہوتا، تو بڑا برا ساتھی ہے۔ ان سے کہا جائے گا جب کہ تم ظالم ٹھہر چکے ہو تو آج تمہیں (ایسی گفتگو) کچھ نفع نہیں دے سکتی تم سب عذاب میں برابر کے شریک ہو۔“

خالی خولی دعوے کرنا

‎﴿وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَ ‎﴿١٦٦﴾‏ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ ‎﴿١٦٧﴾‏
(3-آل عمران: 166، 167)
”اور تمہیں جو کچھ اس دن پہنچا جس دن دو جماعتوں میں مڈ بھیٹر ہوئی تھی وہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو جان لے اور منافقوں کو بھی جان لے۔ جن سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، کافروں کو ہٹاؤ ، تو وہ کہنے لگے: اگر ہم لڑائی جانتے ہوتے تو ضرور ساتھ دیتے، وہ اس دن بہ نسبت ایمان کے کفر سے بہت قریب تھے، اپنے منہ سے وہ باتیں بناتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ، اور اللہ خوب جانتا ہے جسے وہ چھپاتے ہیں۔“

آزمائش اور تنبیہ کے بعد بھی عبرت حاصل نہ کرنا اور وحی کو ہلکا سمجھنا

﴿وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ‎﴿١٢٤﴾‏ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ ‎﴿١٢٥﴾‏ أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ ‎﴿١٢٦﴾‏ وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُوا ۚ صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُم بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ‎﴿١٢٧﴾‏ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ‎﴿١٢٨﴾‏ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ‎﴿١٢٩﴾‏
(9-التوبة: 124تا129)
”اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو منافقین کہتے ہیں کہ اس سورۃ نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے؟ سو جو لوگ ایمان دار ہیں، اس سورۃ نے ان کے ایمان میں اضافہ کیا ہے اور خوش ہورہے ہیں، اور جن کے دلوں میں بیماری ہے، اس سورۃ نے ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی ، اور وہ حالت کفر میں ہی مر گئے ، اور کیا ان کو نہیں دکھائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال میں ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں، پھر بھی نہ تو وہ تو بہ کرتے ہیں، اور نہ وہ نصیحت قبول کرتے ہیں۔ اور جب کوئی سورۃ نازل کی جاتی ہے تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں کہ تم کو کوئی دیکھتا تو نہیں، پھر منہ پھیر لیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا دل پھیر دیا ہے، اس وجہ سے وہ شخص بے سمجھ لوگ ہیں ۔ تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جس پر تمہارا مشقت میں پڑنا نہایت ان کو تکلیف دیتا ہے۔ جو تمہاری بھلائی کا بڑا خواہش مند رہتا ہے، ایمان داروں پر بہت شفقت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ میرے لیے اللہ کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ میں نے اس پر بھروسہ کیا ہے اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔“

مؤمن جہاد کے لیے فوراً تیار ہو جاتے ہیں

ایک جگہ فرمایا:
‎﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ ‎﴿٣٨﴾‏ إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎﴿٣٩﴾‏ إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ‎﴿٤٠﴾‏ انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٤١﴾‏
(9-التوبة: 38تا41)
”اے ایمان والو تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستہ میں نکلو تو تم زمین کی طرف بوجھل ہو جاتے ہو، کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے ہو؟ سنو دنیا کی زندگی کا سامان تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑا ہے۔ اگر تم نہ نکلے تو تمہیں اللہ تعالیٰ دردناک سزا دے گا اور تمہارے علاوہ اور لوگوں کو لے آئے گا تم اللہ تعالیٰ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر تم اس کی مدد نہ کرو، تو اللہ ہی نے اس کی مدد کی اس وقت جب کہ کافروں نے نکال دیا۔ دو میں سے دوسرا تھا جب کہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس جناب باری نے اپنی طرف کی تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا بھی نہیں، اس نے کافروں کی بات پست کردی، اور بلند وعزیز تو للہ کا کلمہ ہی ہے، اللہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔ نکل کھڑے ہو جاؤ ہلکے اور بوجھل اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو، یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔“
علامہ شوکانی رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”روم کے عیسائی بادشاہ ہر قل کے بارے اطلاع ملی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف لڑائی کی تیاری کر رہا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے لیے تیاری کا حکم دے دیا، یہ شوال سن 9 ہجری کا واقعہ ہے۔ موسم سخت گرمی کا تھا، اور سفر بہت لمبا تھا، بعض مسلمانوں اور منافقین پر یہ حکم گراں گزرا جس کا اظہار اس آیت میں کیا گیا ہے اور انہیں زجر و توبیخ کی گئی ہے۔ یہ جنگ تبوک کہلاتی ہے جو حقیقت میں ہوئی نہیں ، دو روز مسلمان ملک شام کے قریب تبوک میں رہ کر واپس آگئے ، اس کو ”جيش العسره“ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس لمبے سفر میں اس لشکر کو کافی وقتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ”اثا قلتم“ یعنی سستی کرتے ہو، اور پیچھے رہنا چاہتے ہو اس کا مظاہرہ بعض لوگوں کی طرف سے ہوا لیکن اس کو منسوب سب کی طرف کر دیا گیا۔ (فتح القدير للشوکانی)
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر کی مدد اس وقت بھی کی جب اس نے غار میں پناہ لی تھی، اور اپنے ساتھی (ابوبکر ) سے کہا تھا: غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے، اس کی تفصیل حدیث میں آتی ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب ہم غار میں تھے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اگر ان مشرکین نے (جو ہمارے تعاقب میں ہیں ) اپنے قدموں پر نظر ڈالی تو وہ ہمیں دیکھ لیں گے ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«يا أبا بكر ما ظنك باثنين الله ثالثهما»
صحیح بخاری، کتاب التفسير باب 9، رقم: 4663 .
”اے ابوبکر ! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے، یعنی اللہ کی مدد اور اس کی نصرت جن کے شامل حال ہے ۔“

دھوکہ دینا، ایمان والوں کا مذاق اڑانا اور باطل کو حق پر ترجیح دینا

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ شیطان کے دوستوں کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
‎﴿خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ‎﴿٧﴾‏ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ ‎﴿٨﴾‏ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ‎﴿٩﴾‏ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ‎﴿١٠﴾‏ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ‎﴿١١﴾‏ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ ‎﴿١٢﴾‏ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ‎﴿١٣﴾‏ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ‎﴿١٤﴾‏ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ‎﴿١٥﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ‎﴿١٦﴾‏ مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ ‎﴿١٧﴾‏ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ‎﴿١٨﴾‏ أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ ‎﴿١٩﴾‏ يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎﴿٢٠﴾‏
(2-البقرة: 7تا20)
”اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں، مگر سمجھتے نہیں۔ ان کے دلوں میں بیماری تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں مزید بڑھا دیا، اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار رہو! یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں، لیکن شعور (سمجھ ) نہیں رکھتے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اور لوگوں (صحابہ رضی اللہ عنہم ) کی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو جواب دیتے ہیں کہ ہم ایسا ایمان لائیں جیسا بے وقوف لائے ہیں، خبر دار ہو جاؤ! یہی بے وقوف ہیں لیکن جانتے نہیں۔ اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں، اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خرید لیا پس نہ تو ان کی تجارت نے ان کو فائدہ پہنچایا، اور نہ ہدایت والے ہوئے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ، پس آس پاس کی چیز میں روشنی میں آئی ہی تھیں کہ اللہ ان کے نور کو لے گیا، اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا، جو نہیں دیکھتے۔ بہرے، گونگے ، اندھے ہیں، پس وہ نہیں لوٹتے۔ یا آسمانی بجلی والی موسلا دھار بارش کی طرح جس میں اندھیرے، بجلی اور چمک۔ اور گر جنے والی بجلیوں کی وجہ سے موت کے ڈر سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا فروں کو گھیرنے والا ہے۔ قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اُچک لے جائے ، جب ان کے لیے روشنی کرتی ہے تو اس میں چلتے پھرتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا کرتی ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کے کانوں اور آنکھوں کو بے کار کر دے۔ یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔“
علامہ شوکانی رحمہ اللہ ان آیات کی روشنی میں رقمطراز ہیں:
”سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو کچھ لوگ مسلمان ہو گئے لیکن جلد ہی منافق ہو گئے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا، اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہو گیا ۔ بے مقصد اور نقصان دہ چیزیں واضح ہو گئیں، دفعتہ وہ روشنی بجھ گئی اور وہ حسب سابق تاریکیوں میں گھر گیا ، یہی حال منافقین کا تھا۔ پہلے وہ شرک کی تاریکی میں تھے، مسلمان ہوئے تو روشنی میں آگئے ، حلال وحرام اور خیر و شر کو پہچان گئے، پھر وہ دوبارہ کفر و نفاق کی طرف لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی ۔
(فتح القدیر: 42/1)

عبادت میں خلل ڈالنا

«عن ابي سعيد، قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: إذا صلى احد شى يستره من الناس فاراد احد أن يجتاز بين يديه، فليدفعه فإن أبى فليقاتله فإنما هو شيطان»
صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم: 509 ـ صحيح مسلم، کتاب الصلاة، باب منع الماربين يدى المصلى، رقم: 505 .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز ادا کر رہا ہو تو کسی کو سامنے سے نہ گزرنے دے جس حد تک ہو سکتا ہو گزرنے والے کو روکے، اور اگر وہ زبردستی کرے تو اس کے ساتھ جھگڑا کرے کیونکہ گزرنے والے کے ساتھ شیطان ہے۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے