اعتراض کا خلاصہ
سیکولر طبقہ یہ اعتراض کرتا ہے کہ "شریعت” ایک غیر واضح تصور ہے اور ہر ایک اپنی الگ شریعت پیش کرتا ہے۔ ان کے نزدیک، خمینی کی شریعت الگ ہے، نمیری کی شریعت مختلف ہے، سعودیہ کی شریعت اور طالبان کی شریعت ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ "پہلے شریعت کے حامی یہ طے کریں کہ کونسی شریعت مطلوب ہے؟”
جواب: شریعت کا ماخذ اور اس کی وضاحت
1. شریعت کی بنیاد:
➊ اللہ تعالیٰ کی شریعت کوئی مبہم یا غیر واضح چیز نہیں ہے۔ اللہ نے اپنی کتاب، قرآن مجید کو محفوظ کیا ہے، جو رہتی دنیا تک کے لیے ہدایت ہے۔ پچھلے 14 صدیوں سے امت مسلمہ اس کتاب کو سینے سے لگائے بیٹھی ہے۔ جب بھی کوئی شخص مخلصانہ طور پر شریعت کو سمجھنا چاہے، وہ قرآن کھولے اور اس سے رہنمائی حاصل کرے۔
➋ نبی اکرم ﷺ کی سنت محفوظ ہے، جسے امت کے محدثین نے چھان پھٹک کر جمع کیا۔ فقہائے امت نے اپنی زندگیاں صرف کرکے شریعت کے اصول وضع کیے اور اختلافات کو علمی بنیادوں پر منضبط کیا۔
2. شریعت کے احکام کی اقسام:
محکم احکام: یہ وہ احکام ہیں جو واضح اور قطعی دلائل پر مبنی ہیں، جیسے قرآن کی نصوص یا امت کا اجماع۔ اس حصے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، اور یہاں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔
متشابہات (ظنیات): یہ وہ احکام ہیں جن میں اجتہادی اختلاف پایا جا سکتا ہے۔ مختلف فقہی مذاہب (مثلاً حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) انہی اجتہادی امور میں مختلف آراء رکھتے ہیں۔
3. اختلافات رحمت ہیں:
شریعت کے اجتہادی مسائل میں اختلاف کوئی کمزوری نہیں بلکہ امت کے لیے ایک رحمت ہے۔ اس گنجائش کی بدولت شریعت ہر زمانے اور علاقے کی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔ فقہاء نے دلیل کی روشنی میں مختلف علاقوں کے لیے حالات کے مطابق اجتہاد کیا ہے، جو امت کے لیے آسانی اور سہولت کا ذریعہ ہے۔
سیکولرزم کا دوہرا معیار
1. جمہوریت پر سوال:
جب "شریعت” پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ "کونسی شریعت؟” تو جمہوریت کے بارے میں بھی یہی سوال کیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ امریکی جمہوریت ہے، برطانوی جمہوریت، فرانس کی جمہوریت، یا کسی اور ملک کا نظام؟
➊ فرانس کی جمہوریت ایک مسلم خاتون کے اسکارف کو برداشت نہیں کرتی، تو کیا یہی جمہوریت ہے؟
➋ حسنی مبارک اور پرویز مشرف نے بھی اپنے ممالک میں جمہوریت کا دعویٰ کیا تھا، تو کیا وہ حقیقی جمہوریت تھی؟
2. جمہوریت کی مثالیں:
➊ حسنی مبارک نے ہر بار "99% اکثریت” سے الیکشن جیتے، لیکن اس کی بدعنوانیوں کو کبھی جمہوریت کے خلاف دلیل نہیں بنایا گیا۔
➋ پرویز مشرف نے پارلیمنٹ بٹھائی اور الیکشن کرائے، لیکن یہ سب جمہوریت کا محض ڈھونگ تھا۔
3. ایمان کا معیار:
جمہوریت پر ایمان رکھنے والے اس کے غلط استعمال کی ذمہ داری جمہوریت پر نہیں ڈالتے، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اگر یہی اخلاص شریعت کے ساتھ ہوتا تو کسی کی بداعمالی کو شریعت کے خلاف دلیل نہ بنایا جاتا۔
سیکولرزم اور اس کے مختلف ورژن
1. سیکولرزم کے تضادات:
سیکولر ازم کے بھی کئی ماڈل موجود ہیں۔ مثلاً:
➊ برطانیہ میں سیکولرزم ایک ماڈل ہے، جبکہ فرانس میں اس کی صورت بالکل مختلف ہے۔
➋ مارکسزم، لبرلزم، اور چینی ماڈلز کے درمیان بھی تضاد پایا جاتا ہے۔
یہ سب اپنے اپنے طریقے سے "انسانیت کی خدمت” کے دعویدار ہیں، لیکن حقیقت میں یہ نظام انسانیت کو مزید الجھنوں میں مبتلا کرتے رہے ہیں۔
2. مارکسزم کی مثال:
مارکسزم کے بھی کئی ورژن ہیں۔ یہاں تک کہ مارکسزم کے ماننے والے خود اس پر متفق نہیں۔ ایک فرانسیسی مارکسسٹ، میکسم روڈنسن لکھتا ہے:
"مارکسزم کوئی ایک چیز نہیں بلکہ درجنوں صورتوں میں پایا جاتا ہے۔ مارکس کی کتاب کو بنیاد بنا کر کوئی بھی اپنے نظریے کو مارکسزم ثابت کر سکتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے بائبل کی نصوص کو کوئی اپنے مقصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔”
(بحوالہ: الاسلام والعلمانیۃ وجہا لوجہ، یوسف القرضاوی، ص 185)
شریعت بمقابلہ جمہوریت
1. شریعت کی مضبوط بنیاد:
شریعت اللہ کی کتاب، نبی اکرم ﷺ کی سنت، اور امت کے اجماع پر مبنی ہے، جو قیامت تک کے لیے محفوظ ہیں۔ شریعت کے اصول واضح ہیں اور ہر مخلص شخص کے لیے قابل فہم ہیں۔
2. جمہوریت اور سیکولرزم کی کمزوریاں:
➊ جمہوریت اور سیکولرزم کے ماڈلز میں نہ کوئی یکسانیت ہے اور نہ ہی مضبوط بنیاد۔
➋ یہ نظام ہر چند دہائیوں میں بدل جاتے ہیں اور انسانیت کو مزید مشکلات میں ڈال دیتے ہیں۔
3. سیکولر طبقے کا تضاد:
یہی لوگ، جو خود ہزاروں نظریات کے حامل ہیں، شریعت پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں اختلافات کیوں ہیں۔ حالانکہ ان اختلافات کی بدولت ہی شریعت ہر دور اور جگہ کے لیے موزوں رہتی ہے۔