تبرکات و آثار سلف
آثار سلف اور تبرکات سے شغف بعض دفعہ انسان کو شرک تک پہنچا دیتا ہے ، اسی لیے شریعت اسلامیہ نے ان سے بے اعتنائی فرمائی ہے ، اس بیان سے قبل کچھ چیزیں بطور تمہید کے پیش خدمت ہیں، جن کا جاننا انتہائی لازمی ہے۔ یادر ہے کہ ’’تبرک‘‘ کا مادہ ’’ب رک‘‘ ہے، اور اسی سے برکت ہے۔
برکت:
نیکی اور ثواب کثیر مانگنے کو کہا جاتا ہے ۔ امام راغب فرماتے ہیں:
’’برکت کسی چیز میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کے ثابت ہونے کو کہتے ہیں ۔‘‘
معنى المريد : ۹۷۱/۳۔
در حقیقت اللہ تعالی ہی برکت کا منبع ہے ، اور وہی برکت عطا کرنے والی ذات ہے ۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
((تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ٘))
(الملك : ١)
’’بے حساب برکتوں والا ہے وہ ( اللہ ) جس کے ہاتھ میں ( سارے جہان کی ) بادشاہی ہے۔“
اور یا وہ چیز با برکت ہو سکتی ہے جس پر اللہ تعالی برکت کرے ، جیسا کہ قرآن پاک فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ)
(الأنعام: ٩٢)
’’اور یہ کتاب جسے ہم نے اتارا بڑی بابرکت ہے ۔‘‘
اور انبیاء علیہم السلام بھی مبارک ہیں، چنانچہ عیسیٰؑ کا مقولہ قرآن مجید میں ہے:
((وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا))
(مریم: ۳۱)
’’اور اس (اللہ ) نے مجھے با برکت بنایا ہے۔‘‘
اور بعض مقامات بھی مبارک ہیں ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَبَرَكنَا فِيهَا)
(الأعراف : ۱۳۷ – الأنبياء: ۷۱)
’’اور (علاقہ شام میں) ہم نے برکت رکھ دی ہے ۔‘‘
برکت کی بنیاد؟
برکت کی بنیاد کیا ہے؟ اس معاملہ میں کم از کم تین باتوں کا جانا انتہائی ضروری ہے:
➊ یقیناً برکت کا منبع اللہ تعالیٰ ہے، لہذا اس کے علاوہ کسی اور سے برکت مانگنا شرک ہے۔ سیدنا علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا ( افتتاح کے طور پر ) پڑھا کرتے تھے:
((وَجْهَتُ وَجْهِيَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اللَّهُمَّ أَنتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ أنتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ. ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفُتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنتَ. وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ ، لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِي سَيِّئَهَا ، لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنتَ. لَيِّيكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّلَيسَ إِلَيْكَ، أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأتُوبُ إِلَيْكَ .))
سنن النسائي، كتاب الإفتتاح ، رقم الحديث : ۸۹۸- صحيح الكلم الطيب، رقم: ۸۷۔
’’میں نے اپنا رُخ اس ذات کی طرف پھیر لیا جس نے سارے آسمان و زمین پیدا فرمائے ہیں، اس حال میں کہ میں نے اللہ کے سوا سب سے منہ موڑ لیا ، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ یقیناً میری نماز ، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے ، جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، اور اس کا کوئی شریک نہیں ، مجھے اس بات کا حکم ہے اور میں اطاعت گزار ہوں ۔ اے اللہ! تو ہی بادشاہ ہے ، معبود برحق تو ہے ، تو میرا رب ہے ، اور میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنی جان پر زیادتیاں کی ہیں، میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتا ہوں ، پس میرے سارے گناہ معاف فرما دے ۔ تیرے علاوہ اور کون ہے جو گناہ معاف کرے؟ اور مجھے اچھے اخلاق کی توفیق عنایت فرما، کیونکہ یہ ہدایت و توفیق تیری ہی طرف سے مل سکتی ہے ، اور بُری عادات سے مجھ کو بچالے ، اور ان عادات سدیہ کو تو ہی دور کر سکتا ہے، اے اللہ ! میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں۔
خیر و برکت ساری کی ساری تیرے ہاتھوں میں ہے ، اور شر تیری طرف سے نہیں ہے۔ میں تیرے ہی بل بوتے پر زندہ ہوں اور ( مرنے کے بعد ) تیری ہی طرف ( لوٹنے والا) ہوں ۔ تو بابرکت اور عالی مرتبت ہے، میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور تیری طرف تو بہ کرتا ہوں ۔
➋ شریعت فراجن اشیاء، باتوں اور اعمال سے برکت حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے اور انہیں متبرک ٹھہراتی ہے ، وہ برکت کا سبب اور ذریعہ ہیں نہ کہ خود برکت کا منبع یعنی خود برکت نہیں دیتی ہیں۔ مثلاً علاج کے لیے ادویہ کا استعمال یا دم یہ شفاء کا سبب تو ہیں نہ کہ شفاء دینے والی ، شافی تو اللہ تعالیٰ ہی ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری ( ۵/۱۰، مع الفتح ) میں سیدنا انسؓ کی حدیث موجود ہے ۔ انہوں نے ایک مرتبہ کہا:
’’کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد کردہ دم نہ کروں ؟“ (صحابہؓ) کہنے لگے: کیوں نہیں؟ تو سیدنا انسؓ نے ( درج ذیل الفاظ میں ) دم کیا:
(( اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ ، مُذْهِبَ الْبَأْسِ ، إِشْفِ أَنتَ الشَّافِي لَا شَافِيَ إِلَّا أَنتَ شِفَاءٌ لَّا يُغَادِرُ سَقَمًا.))
’’اے اللہ ! لوگوں کے رب! بیماری کو دور کرنے والے ! شفاء عطا فرما۔ تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے علاوہ اور کوئی شفا دینے والا نہیں، ایسی شفاء عطا فرما جو بیماری باقی نہ چھوڑے۔“
اور ایسےہی صحیح بخاری (۳۸/۱۰ مع الفتح) میں ہے کہ ’’کھنبی‘‘ ’’من‘‘ کی تم سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفاء ہے ۔ یعنی شفاء کا سبب ہے۔
مزید برآں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’کلونجی موت کے علاوہ ہر مرض کی دواء ہے۔‘‘
صحیح بخاری مع الفتح: ۱۲۱/۱۰.
اور جیسا کہ سیدہ عائشہؓ نے سیدہ جویریہؓ کے متعلق فرمایا تھا:
” میں کسی خاتون کو نہیں جانتی جو ان (جویریہ) سے بڑھ کر اپنی قوم کے لیے بابرکت ثابت ہوئی ہو ۔ ‘‘
بخاری مع الفتح: ۱۲/۱۰.
یعنی یہ باعث برکت ثابت ہوئیں نہ کہ برکت دینے والی ۔ یعنی منبع برکت ، اس قصہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ صحابہ کرامؓ کو جب معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے شادی کر لی ہے تو ان کی قوم قبیلہ بنی مصطلق کے جتنے بھی قیدی ان کے پاس تھے ان سب کو انہوں نے آزاد کر دیا ۔ کیوں کہ یہ لوگ اب رسول اللہ ﷺ کے سسرالی رشتہ دار بن گئے تھے۔ چنانچہ ان کے سو قیدی رہا کیے گئے تھے اور یہ اللہ تعالی کی طرف سے عظیم برکت تھی۔ اور اس کا باعث سیدہ جویریہؓ بنی تھیں ۔ اور ایسے ہی ان مبارک اشیاء کا حکم ہے جو خیر ، نشو ونما اور زیادتی و اضافہ کا باعث ہوتی ہیں۔ پس ان سب میں برکت ڈالنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے۔
➌ حصول برکت کے لیے دلیل کتاب و سنت ہے۔ بطور معجزہ جب رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں سے پانی نکلا تو آپ نے ارشاد فرمایا :
مبارک پانی لے لو ، اور برکت اللہ کی جانب سے ہے۔
برکت حاصل کرنے کا حکم :
جو شخص قبروں کے پجاری کی طرح کسی درخت ، پتھر ، خطہ کر مین ، غار ، کنواں اور قبر سے برکت حاصل کرے تو یہ حرام اور وہ مشرک ہوگا۔ کیونکہ جاہلیت کے کاموں میں سے یہ تھا کہ وہ درختوں ، پتھروں، قبروں اور بعض خطہ کہ مین سے برکت حاصل کیا کرتے تھے اور پھر اس میں غلو سے کام لیتے تھے۔
ایک اشکال اور اس کا ازالہ:
اشکال :
بعض افراد نا مجھی کی بناء پر کہتے ہیں کہ ” حجر اسود کو بوسہ دینا ، اور ’’رکن یمانی‘‘ کو چھونا جب باعث برکت ہے تو پھر قبروں اور درختوں سے برکت حاصل کیوں نہیں کی جاسکتی؟
ازاله :
’’حجر اسود‘‘ کو بوسہ دینا اور ’’رکن یمانی‘‘ کو چھونا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی بندگی اور تعظیم ہے اور اس کا شرعی طور پر حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ سیدنا عمر فاروقؓ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے اسے مخاطب ہو کر فرمایا:
((إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ))
صحیح بخاری، کتاب الحج ، رقم : ١٥٩٧ – صحیح مسلم ، کتاب الحج، رقم: ٣٠٦٧.
یقینا میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ فائدہ دے سکتا ہے ، اگر میں رسول اللہ ﷺ کو مجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘“
آثار سلف کے ذریعے سے تبرک:
آثار سلف سے تبرک ، مثلاً ان کے جھوٹے (باقی ماندہ) کو پینا، انہیں اور ان کے لباس کو برکت کے لیے چھوٹا ، اور ان کے پسینہ کو ملنا وغیرہ ۔ سب کئی وجوہ کے باعث ناجائز اور غلط ہے :
بزرگ اور اولیاء فضل و برکت میں نبی ﷺ کے قریب بھی نہیں ہو سکتے چہ جائیکہ نبی ﷺ کے برابر ہوں۔:
بزرگوں کے اندر نیکی و تقویٰ پائے ثبوت کو نہ پہنچنے کی وجہ سے ان سے برکت حاصل کرنا جائز نہیں، کیونکہ نیکی و تقویٰ کا تعلق دل سے ہے اور یہ غیبی معاملہ ہے، یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ نہ بتائیں۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ کے تقویٰ کے بارے میں دلیل موجود ہے:
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
((وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ))
(الحجرات : ٧)
’’اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارا محبوب بنا دیا ہے ، اور اسے تمہارے دلوں میں سجا دیا ہے اور کفر ، گناہ اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں نا پسند بنا دیا ہے۔ یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں ۔“
علاوہ ازیں بہت سی آیات قرآنی و احادیث نبویہ ﷺ صحابہؓ کے ایمان و تقومی پر دلالت کرتی ہیں:
باقی لوگوں کے لیے ہم صرف یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ نیک لوگ ہیں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید کرتے ہیں۔
اگر ہم کسی کے متعلق یہ گمان کر لیں کہ وہ نیک و پرہیز گار ہے لیکن اس کے بُرے خاتمے سے متعلق ہم یقینا بے خبر ہیں اور اعمال کا دارو مدار خاتمہ پر ہے:
(( إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتیم . ))
مسند احمد، رقم: ۲۲۸۳۵ صحیح بخاری ، الرقاق، رقم: ٦٤٩٣۔
’’یقیناً اعمال کی جزا اور سزا کا تعلق خاتمہ سے ہے۔‘‘
لہٰذا نشان (باقیات) سے برکت حاصل کرنے کے وہ قابل نہیں ۔
نبی ﷺ کے علاوہ کسی دوسرے سے برکت حاصل کرنا اس کو خود فریبی اور تکبر و غرور میں مبتلا کر دے گا ، بلکہ یہ اس کے سامنے اس کی بے جا تعریف سے زیادہ ہو گا جو اس کے لیے مضر ہے۔
پھر صحابہ کرامؓ نے نبی ﷺ کے علاوہ کسی سے برکت حاصل نہیں کی ، نہ آپ کی زندگی میں اور نہ بعد میں ۔ اگر کسی اور سے برکت حاصل کرنا نیکی ہوتا تو یہ لوگ ہم سے پہلے برکت حاصل کرتے۔ پھر انہوں نے سیدنا ابو بکر، عمر، عثمان اور علیؓ سے کیوں برکت حاصل نہ کی؟ جن کے حق میں نبی ﷺ نے اسی دنیا میں جنت کی خوش خبری دے دی تھی ، اسی طرح تابعین نے بھی کسی سے برکت حاصل نہ کی ، پھر دوسرے تابعین نے کیوں نہ ان بزرگان دین سے برکت حاصل کی ، جو نیکی و تقویٰ میں مسلم تھے ؟ اور خاص کر سعید بن المسیب ، علی بن الحسین، اویس قرنی اور خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ علیہم ، پس معلوم ہوا کہ برکت حاصل کرنا صرف نبی ﷺ کے ساتھ خاص ہے۔
شرک کی شہ رگ کاٹ کر رکھ دی:
اسلاف کے آثار سے تبرک اور انہاک چونکہ شرک کا ذریعہ ہے ، اس لیے سید نا عمرؓ نے کئی مواقع پر شرک کی شہ رگ کاٹ کر رکھ دی ،آپ کی اسی سیرت کا شاہکار ملاحظہ ہو۔ سیدنا نافعؒ بیان کرتے ہیں:
((كَانَ النَّاسُ يَأْتُونَ الشَّجَرَةَ الَّتِي يُقَالُ لَهَا شَجَرَةَ الرّضْوَانِ فيُصَلُّونَ عِندَهَا ، فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ ابْن الْخَطَّابِ فَأَوْعَدَهُمْ فِيهَا وَأَمَرَبهَا فَقُطِعَتُ . ))
طبقات ابن سعد: ۱۰۰/۲۔
’’لوگ ’’شجرة الرضوان‘‘ کے پاس (یعنی اس درخت کے پاس جس کے نیچے صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی ﷺ نے صحابہؓ سے بیعت الرضوان لی تھی) آکر نمازیں پڑھتے تھے ، سیدنا عمرؓ کو اس کی خبر پہنچی تو انہوں نے لوگوں کو ڈانٹا اور اس درخت کو کاٹنے کا حکم دیا ، پس اُسے کاٹ دیا گیا ۔‘‘
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ ’’اس درخت کو کاٹنے میں حکمت یہ تھی کہ لوگ فتنہ سے محفوظ رہ سکیں ،جہاں اس کی تعظیم میں حد سے بڑھ کر اسے نفع و نقصان کا مالک نہ سمجھنے لگیں۔‘‘
فتح الباري: ٧٣/٦۔