شرک کیا ہے اور شرک کی قباحتیں کونسی ہیں؟
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

شرک کیا ہے؟

شرک توحید کی ضد ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور عبادت میں کسی غیر کو حصہ دار سمجھنا شرک کہلاتا ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ شرک کی حقیقت بیان کرتے ہیں کہ :
«والشرك فاحذره فشرك ظاهر ذالقسم ليس بقابل الغفران وهو اتخاذ الند للرحمن ايا كان من حجر ومن إنسان يدعوه أو يرجوه ثم يخافه ويحبه كمحبه الديان»
[القصيدة النونية، ص: 70 ا طبع هندسنة 1356ه]
”شرک سے بچو، شرک کی ایک قسم ظاہر و باہر ہے، اور وہ بخشے جانے کے قابل نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرایا جائے خواہ پتھر ہو یا انسان ۔ اسی طرح کہ مصیبت کے وقت اس کو مدد کے لیے پکارا جائے یا اس سے نفع پہنچانے کی امید کی جائے، یا غیبی طور پر ضرر پہنچانے کا خوف کیا جائے یا اس کے ساتھ اللہ کی طرح محبت کی جائے۔“
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الشرك هو أن تجعل لله ندا ، أو تعبد معه غيره من حجر أو بشس أو شمس، أوقمر، أوجني، أو نجم أوملك، أوشيخ او غير ذلك »
[تذكرة أولى الأبصار فى معرفة الكبائر، ص: 19]
”شرک یہ ہے کہ تو کسی کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے، یا اس کے عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ تو کسی غیر مثلاً پتھر ، انسان ،سورج، چاند، نبی ، جن، ستارے، فرشتے یا کسی شیخ کی عبادت کرنا شروع کر دے۔ “
مفسر قرآن ، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
«المشرك الذى عبد مع الله الها غيره »
[ صحيح بخاري، كتاب تفسير القرآن، سورة الرعد]
”مشرک وہ ہے جو اللہ کے ساتھ دوسرے کسی معبود کی عبادت کرے۔“

شرک کے ثمرات

(1) شرک سب سے بڑا ظلم ہے:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
[لقمان:13]
”بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔ “
صحیح بخاری میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آیت الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ ”جنھوں نے ایمان کو ظلم سے نہیں ملایا ، وہی احسن اور راہِ راست پر ہیں ۔ “ اتری تو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی مشکل آن پڑی اور انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم میں سے وہ کون ہے جس نے ایمان کو ظلم سے نہیں ملایا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ظلم سے مراد عام گناہ نہیں، بلکہ ظلم سے مراد وہ ہے جو جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹے ! إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
[لقمان:13]
”شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“
[ صحيح بخاري، كتاب التفسير، رقم: 4776]

(2) میدانِ جنگ میں مشرک کا خون اور مال حلال ہے:

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ
[التوبة:5]
”پس جب ان کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کرو، اور انھیں گرفتار کر لو اور انھیں گھیر لو، اور ہر گھات میں لگنے کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
«أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله ، فإذا قالوها عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها»
[صحيح بخاري، كتاب الايمان ، رقم: 25]
”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑتا ہوں جب تک وہ «لا اله إلا الله» کا اقرار نہ کرلیں ، اور جب وہ اس کا اقرار کر لیں تو مجھ سے اپنے خون اور مال محفوظ کر لیں گے، مگر اس کے حق کے ساتھ ۔ “

(3) مشرک کے تمام اعمال اور بھلائیاں اکارت ہو جاتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاء کرام علیہ السلام کا ذکر خیر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:
وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
[الأنعام:88]
”اور اگر وہ شرک کرتے تو ان کے اعمال ضائع ہو جاتے ۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں شرک کی ہیبت ناکی اور اس کی خطرناکی کو بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ زمر آیت (65) میں فرمایا ہے:
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ
” آپ کو اور آپ سے پہلے تمام انبیاء کو بذریعہ وحی بتایا گیا ہے کہ آپ نے شرک کیا تو آپ کا عمل ضائع ہو جائے گا۔ “
[تفسير ابن كثير : 260/2]
اللہ تعالیٰ نے مشرک کی ایک انتہائی عجیب مثال بیان کی جس کے ذریعہ اس کی ضلالت و گمراہی ، ہلاکت و بربادی اور راہ حق سے انتہائی دوری کی عکاسی کی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ
[الحج:31]
”اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناتا ہے وہ گویا آسمان سے گرتا ہے تو چڑیاں اسے فضا میں ہی اُچک لیتی ہیں یا تیز ہوا اسے کسی دور دراز جگہ پر پھینک دیتی ہے۔“

(4) شرک کی مغفرت نہیں ہوگی:

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا
[النساء:48]
”بے شک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے اور اُس کے علاوہ گناہوں کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ “
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
[النساء:116]
”بے شک اللہ اپنے ساتھ شرک کیے جانے کو معاف نہیں کرتا ، اور اس کے علاوہ گناہوں کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے، اور جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے، وہ گمراہی میں بہت دور تک چلا جاتا ہے۔ “

(5) مشرک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں پڑا رہے گا:

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
[المائدة:72]
”بے شک جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرائے گا تو اللہ نے اُس پر جنت حرام کر دی ہے، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔“
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من مات وهو يدعوا لله نذا دخل النار»
[صحيح بخاري، كتاب التفسير، رقم: 4497]
” جو شخص اس حالت ميں مرا كہ وه الله كے ساتھ كسی دوسرے كو شريک ٹهہراتا تها، تو وه جہنم كی آگ ميں داخل ہوگا ۔“

(6) مشرک کے لیے سفارش نہیں ہوگی:

اگر بغرض محال کوئی نبی یا فرشتہ اُس دن ان کے لیے سفارش بھی کرے گا تو وہ ان کے کام نہیں آئے گی۔ دوسرے لفظوں میں، وہ شفاعت کے اہل نہیں ہوں گے، اس لیے اللہ تعالیٰ کسی نبی یا فرشتہ کو ان کے لیے سفارش کرنے کی اجازت ہی نہیں دے گا، اس لیے کوئی ایسی سفارش نہیں پائی جائے گی جو انھیں نفع پہنچائے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ
[المدثر:48]
”پس (اس وقت) شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ان کے کام نہیں آئے گی ۔ “
سیدنا نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے لیے سفارش کی ، تو یہ سفارش نہ صرف نا مقبول ٹھہری، بلکہ خود سفارش سے ہی منع کر دیا گیا، کیونکہ وہ مشرک تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
[هود:46]
”پس آپ ایسا سوال نہ کیجیے جس کا آپ کو کوئی علم نہ ہو، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ نادانوں میں سے نہ ہو جائیے۔ “
یہی حال اپنے مشرک باپ کے لیے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی شفاعت کا ہوگا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”ابراہیم کہیں گے: اے رب ! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مجھے قیامت کے روز رسوا نہیں کرے گا، لیکن اس رسوائی سے بڑھ کر اور کیا رسوائی ہو سکتی ہے کہ میرا باپ تیری رحمت سے دور ہے؟ “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”میں نے جنت کو کافروں پر حرام کر دیا ہے ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے؟ وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانورخون میں لتھڑا وہاں پڑا ہو گا، چنانچہ اسے پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“
[صحيح بخاري، كتب احاديث الانبياء رقم: 3350]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے