شرعی عذر کی وجہ سے اعتکاف ٹوٹ جانے کی صورت میں کیا کریں؟
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

اعتکاف لغوی طور پر کسی جگہ ٹِکے رہنے کو کہتے ہیں، اور شریعتِ اسلامیہ میں اس سے مراد: “مسلمان کا عبادت کی نیّت سے مسجد میں قیام کرنا، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں یکسو ہوجائے اور دُنیاوی مشاغل سے وقتی طور پر کنارہ کش ہوکر ذکر و اذکار، تلاوتِ قرآن اور دُعاؤں میں وقت گزارے۔”

اعتکاف کی مشروعیّت قرآن، حدیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف بالخصوص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے۔

پہلی بحث: اعتکاف کے دوران عذرِ شرعی (شدید بیماری وغیرہ) سے اعتکاف کا ٹوٹ جانا

سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کے آخری دس دنوں کے اعتکاف میں بیٹھا ہو یا کسی بھی واجب/سنت/نفل اعتکاف میں ہو اور دورانِ اعتکاف اسے شدید بیماری یا کوئی دیگر شرعی عذر لاحق ہوجائے، جس کی وجہ سے وہ مسجد سے نکلنے پر مجبور ہوجائے اور اعتکاف ٹوٹ جائے، تو کیا صحت‌یاب ہونے یا عذر دور ہونے کے بعد وہ اعتکاف کو دوبارہ شروع کرسکتا ہے؟ یا قضا دینی ہوگی؟ یا پھر اس سے یہ عبادت ساقط ہوجاتی ہے؟

1. احادیث کے اہم دلائل

(الف) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:

«كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ كُلَّ رَمَضَانٍ عَشْرَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَانَ العَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا»

(صحیح البخاری: 2044)

ترجمہ:

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے ہر مہینے میں (آخری) دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے، لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔“

اہم نکتہ یہ ہے کہ نبی کریمؐ کی معمولی سی عذر کے بغیر بھی اعتکاف میں اضافہ اور توسیع فرما دینا اس بات کی علامت ہے کہ آپؐ کو اس عبادت پر نہایت اہتمام اور خاص توجّہ تھی۔

(ب) ایک سال اعتکاف چھوڑنے کا واقعہ اور اس کی قضا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ رمضان میں اعتکاف کا ارادہ فرمایا لیکن کسی عارض کی وجہ سے اسے ملتوی کیا، پھر اس کی قضا اگلے مہینے (شوال) کے ابتدائی دس دنوں میں فرمائی:

«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ، فَإِذَا خِبَاءُ عَائِشَةَ وَخِبَاءُ حَفْصَةَ وَخِبَاءُ زَيْنَبَ… فَتَرَكَهُ، ثُمَّ اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ»

(صحیح بخاری: 2033، صحیح مسلم: 1172)

ترجمہ:

”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں بیٹھنے لگے تو دیکھا کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے بھی (مسجد میں) خیمے نصب کرلیے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اس میں اخلاص کا پہلو کم نظر آتا ہے، چنانچہ آپؐ اعتکاف کیے بغیر واپس تشریف لے گئے۔ پھر شوال کے مہینے میں دس دن تک اعتکاف کیا۔”

اس روایت سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ اگر مسنون اعتکاف کسی صحیح عذر سے چھوٹ جائے یا ٹوٹ جائے تو اسے بعد میں پورا یا قضا کرنا جائز ہے۔ رمضان کے قید ہونے کی وجہ سے اگر تو رمضان کے اندر ہی وقت میسر ہوتو رمضان کے باقی دنوں میں یا پھر کسی بھی مناسب وقت میں اس کی قضا دی جاسکتی ہے۔ چنانچہ حدیث کی رُو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر یہ بتایا کہ جس نفل یا مسنون عمل کو بوجوہ نہ کیا جاسکے تو صاحبِ استطاعت کو چاہیے کہ وہ اس کی قضا کرلے تاکہ نیکی کا اجر و ثواب ضائع نہ ہو۔

2. فقہاء کے اقوال اور خلاصۂ حکم

  1. جمہور فقہاء کے نزدیک اگر یہ رمضان کے آخری دس دنوں کا سنتِ مؤکدہ اعتکاف ہے، تو اس کو جاری رکھنا مسنون طریقہ ہے۔ اگر شرعی عذر (مثلاً شدید بیماری، یا کسی ایمرجنسی) کی وجہ سے اعتکاف ٹوٹ جائے، تو

    • رمضان ہی کے دن باقی ہوں اور صحت بحال ہوجائے، تو بہتر ہے کہ فوراً دوبارہ اعتکاف شروع کردیا جائے، تاکہ تسلسل بھی باقی رہے اور مسنون اعتکاف کی فضیلت بھی حاصل ہو۔

    • اگر رمضان کے دن باقی نہ رہے یا وہ عذر لمبا ہوگیا، تو جمہور کا میلان یہ ہے کہ شوال یا بعد کے دنوں میں اتنے ہی دنوں کی قضا دے دی جائے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔

  2. اگر نفل اعتکاف ہے تو اس کی قضا کا وجوب نہیں، البتہ نفل عبادت کے اجر کو مکمل حاصل کرنے کے لیے اگر کوئی ازخود اس کی تکمیل کرلے تو یہ بھی باعثِ ثواب ہے۔

  3. اگر اعتکاف واجب (مثلاً نذر مان لی تھی) ہو اور وہ ٹوٹ گیا، تو اس کی قضا واجب ہوگی، کیونکہ یہ قرض ہے جو بندے کے ذمے لازم ہوچکا ہے۔

3. اس موضوع سے متعلق فتاویٰ اور ان کا خلاصہ

(الف) اسلام سؤال وجواب (IslamQA.info – عربی)

  • فتویٰ نمبر: 49095 وغیرہ میں رمضان کے اعتکاف کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ وہاں یہ تصریح ہے کہ:

    “إذا انقطع الاعتكاف لعذرٍ شرعيٍّ قويٍّ، فإنه يجوز قضاؤه، وخاصةً إذا كان اعتكاف رمضان في العشر الأواخر، لأن النبي صلى الله عليه وسلم قضاه في شوال…”
    یعنی "اگر اعتکاف کسی مضبوط شرعی عذر کی بنا پر منقطع ہوگیا تو اس کی قضا دینا جائز ہے، بالخصوص جب یہ رمضان کا آخری عشرے کا مسنون اعتکاف ہو، اس لیے کہ نبی کریمؐ نے بھی شوال میں قضا فرمائی۔”

  • مزید یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کے آخری عشرے میں مسنون اعتکاف بیٹھے اور کسی وجہ سے درمیان میں نکلنا پڑے تو باقی دنوں کے لیے دوبارہ داخل ہوسکتا ہے، تاہم افضل صورت یہ ہے کہ ایک مسلسل اعتکاف رہے۔

(ب) اسلام ویب (IslamWeb.net – عربی)

  • فتویٰ نمبر: 167712 وغیرہ میں شوال میں اعتکاف کی قضا کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:

    “من لم يتمكّن من الاعتكاف لعذرٍ أو فاتته أيامٌ منه لعُذر، فلا حرج عليه في قضائها، إن شاء، وله في ذلك أجرٌ…”

    یعنی "جو شخص کسی عذر کی وجہ سے اعتکاف مکمل نہ کرسکا، یا کچھ دن ضائع ہوگئے، تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بعد میں قضا کرلے۔ اس کو اس پر اجر ملے گا۔”

  • اسی طرح وہاں اس مسئلے پر ائمہ اربعہ کے اقوال بھی ملتے ہیں کہ اگر اعتکاف ٹوٹ جائے یا نہ ہوسکے تو قضا مستحب یا واجب کی صورت میں کی جاتی ہے (یہ اس کی نوعیت پر منحصر ہے کہ مسنون ہے یا نذر والا اعتکاف)۔

ماخذ و مراجع (عربی ویب سائٹس کے ساتھ)

  1. صحیح البخاری: کتاب الاعتکاف، حدیث نمبر: 2033، 2041، 2044 وغیرہ۔

  2. صحیح مسلم: کتاب الاعتکاف، حدیث نمبر: 1172، وغیرہ۔

  3. موقع الإسلام سؤال وجواب (عربی): https://islamqa.info/ar/answers/49095

  4. موقع إسلام ویب (عربی): https://www.islamweb.net/ar/fatwa/167712

ان دونوں فتاویٰ میں اسی مضمون کا تفصیلی بیان، ائمہ اربعہ کے اقوال اور احادیث کی روشنی میں تشریح موجود ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1