شرعی خلع کے اصول اور بدنیتی سے اجتناب کی اہمیت
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

بغیر شوہر کو بتائے خلع لینے کا حکم

خلع ایک اسلامی حق ہے جو عورت کو دیا گیا ہے، لیکن اس کا صحیح اور شرعی طریقہ یہ ہے کہ یہ قاضی (جج) یا شرعی عدالت کے ذریعے حاصل کیا جائے، اور شوہر کو بھی اس بارے میں مطلع کیا جائے۔ اگر کوئی عورت چھپ کر خلع لیتی ہے اور شوہر کو بالکل بے خبر رکھا جاتا ہے، تو یہ عمل شریعت کے اصولوں کے خلاف ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر اس میں بدنیتی شامل ہو۔

 خلع کے متعلق قرآن و حدیث

1. قرآن مجید میں خلع کا ذکر

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ (عورت) اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکے گی تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ (عورت) فدیہ دے کر علیحدگی اختیار کر لے۔”
(سورۃ البقرہ: 229)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلع جائز ہے، لیکن نیت صاف ہونی چاہیے اور تمام معاملات شریعت کے مطابق ہونے چاہئیں۔

2. حدیث شریف میں خلع کا ثبوت

حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا:
"مجھے ان کے اخلاق یا دین پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔”

تو نبی کریم ﷺ نے ان سے ان کا مہر واپس لینے کو کہا اور ان کا خلع کروا دیا۔
(صحیح بخاری: 5273)

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو وہ خلع لے سکتی ہے، لیکن اس میں شریعت کے اصولوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

 بغیر شوہر کو بتائے خلع لینے کا حکم

◈ اگر خلع شرعی اصولوں کے مطابق لیا گیا ہو، اور قاضی کے سامنے کیس پیش کیا گیا ہو، تو یہ درست ہوگا، لیکن شوہر کو کم از کم اطلاع ضرور دی جانی چاہیے۔
◈ اگر عورت بدنیتی کے تحت یا دھوکہ دے کر خلع لیتی ہے، تو یہ ایک غیر اخلاقی اور ناجائز عمل ہوگا، جس پر قیامت کے دن حساب لیا جائے گا۔

 ایسی عورت کے لیے وعید

1. بغیر کسی شرعی وجہ کے طلاق مانگنے پر وعید

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"جو عورت بغیر کسی شرعی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق مانگتی ہے، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔”
(سنن ابی داؤد: 2226، ترمذی: 1187)

یہ حدیث اس بات کی سختی سے ممانعت کرتی ہے کہ کوئی عورت بلا کسی معقول وجہ کے شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرے۔

2. دھوکہ دینے کی ممانعت

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جس نے دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔”
(صحیح مسلم: 101)

یہ حدیث دھوکہ دہی کی سخت ممانعت کرتی ہے، اور اگر عورت بدنیتی کے ساتھ شوہر کو لاعلم رکھ کر خلع لے، تو یہ بھی دھوکہ دہی میں شمار ہو سکتا ہے۔

 نتیجہ

خلع لینا عورت کا شرعی حق ہے، لیکن اس کا طریقہ شریعت اور انصاف کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
خلع لیتے وقت نیت صاف ہونی چاہیے، اور شوہر کو اس فیصلے سے لاعلم رکھنا بدنیتی یا دھوکہ دہی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
اگر عورت بدنیتی سے خلع لے اور شوہر کو پریشان کرے، تو یہ غیر شرعی اور گناہ کا باعث ہو سکتا ہے۔

لہٰذا، شریعت کی روشنی میں انصاف اور دیانتداری کے ساتھ معاملات کو طے کرنا ضروری ہے تاکہ کسی فریق کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1