شراب کا بطور علاج استعمال: شرعی اور طبی نقطہ نظر
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال:

بلاشبہ ایک شخص کو کوئی بیماری لاحق ہو گئی ، وہ علاج کے لیے ہسپتال گیا ، وہاں ہسپتال میں اس کو ایک شخص نے کہا: شراب پیو اس سے تمھاری بیماری دور ہو جائے گی ، سوال یہ ہے کہ کیا دوائی کے طور پر شراب کا استعمال جائز ہے؟ ہمیں فائدہ پہنچایئے گا ، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرماے ۔

جواب:

یہ باطل ہے ، شراب کبھی دوائی نہیں بن سکتی ہے ، کیونکہ حدیث میں موجود ہے کہ طارق بن سوید رضی اللہ عنہ نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے شراب کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے استعمال سے منع فرمایا یا شراب بنانے کو ناپسند کہا: ، انہوں نے عرض کیا: میں تو اس کو صرف دوائی کے لیے بناتا ہوں تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنہ لیس بدواء ولکنہ داء [صحیح: مسلم ، رقم الحديث 1984]
بلاشبہ وہ (شراب ) دوائی نہیں ہے ، یقیناًً وہ تو خود بیماری ہے ۔“
پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ شراب بیماری سے علاج نہیں ہے ۔ اور اس صلى اللہ علیہ وسلم حقیقت کو انگریز اور دیگر ڈاکٹروں نے ثابت بھی کیا ہے ۔ ان سب محقق ڈاکٹروں نے تحقیق کر کے وضاحت کی ہے کہ بلاشبہ شراب دوائی اور علاج نہیں ہے ، حتی کہ جرمنی کے بعض ڈاکٹروں نے کہا ہے: بلاشبہ شراب پینے والے اور اس کے نشے میں دھت رہنے والے کی عقل کمزور ہو جاتی ہے اور شراب پینے سے ضعف عقل اور پراگندہ خیال کی بیماری اس کی نسل میں بھی منتقل ہوتی ہے ، لہٰذا ہر شخص کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ صحت کی حفاظت کرتے ہوئے شراب پینے سے گریز کرے ۔ ایسے ہی بعض فرانسیسی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بلاشبہ ہمیشہ شراب پینے والے کے جسم کی ہیئت اور کیفیت اس طرح کی ہو جاتی ہے کہ وہ چالیس سال کی عمر میں ساٹھ سالہ دکھائی دیتا ہے ، اس لیے کہ شراب اعصاب اور سوچ و فکر کو کمزور کرتی ہے اور جسم کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ شراب کے عادی لوگ ساٹھ سال کی عمر سے کم ہی آگے بڑھتے ہیں ، تو اس سب کے باوجود شراب دوائی کیسے قرار دی جا سکتی ہے؟ !
جان لیجیے کہ اہل علم نے دوائی کے طور پر کسی حالت میں شراب پینا کبھی جائز نہیں قرار دیا ۔ سوائے ایک مسئلہ کے اور وہ ہے جب گلے میں لقمہ پھنس جائے اور بندے کو ڈر ہو کہ وہ اس سے مر جائے گا اور اس کے پاس شراب کے علاوہ پینے کی کوئی اور چیز بھی نہ ہو تو وہ پھنسے ہوئے اس لقمے کو حلق سے نیچے اتارنے کے لیے صرف ایک گھونٹ شراب پی سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎ ● ‏ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ[5-المائدة: 90]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں ، شیطان کے کام سے ہیں ، سو اس سے بچو ، تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے ، تو کیا تم باز آنے والے ہو؟ “
پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے کسی حالت میں بھی شراب پینا جائز اور مباح قرار نہیں دیا ہے ، نہ جسم میں خون پیدا کرنے کے لیے اور نہ کسی اور غرض کے لیے ، بلکہ شراب تو بذات خود ایک بیماری ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق خبر دی ہے اور طب جدید نے بھی اس حقیقت کو ثابت کر دیا ہے ۔
لہٰذا یہ مریض جس کے متعلق میں بات کر رہا تھا اس کے لیے بطور علاج شراب پینا جائز نہیں ہے ۔

(عبداللہ بن حمید رحمہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے