سوال:
اگر کوئی لڑکا کسی عیسائی عورت سے شادی کرنا چاہے اور اس مقصد کے لیے پہلے عیسائیت قبول کرے اور پھر شادی کے بعد دوبارہ اسلام لے آئے، کیا شریعت میں ایسا کرنا درست ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اسلام میں کفر اور ارتداد کو کسی بھی وجہ سے اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مسلمانوں میں نکاح کے لیے رشتوں کی کمی نہیں ہے کہ کسی کو اسلام چھوڑنے کی ضرورت پڑے۔ شادی کے لیے کفر اور ارتداد کا راستہ اپنانا نہ صرف حرام ہے بلکہ یہ ایک بڑا گناہ اور خطرناک عمل ہے۔
ارتداد اور اس کے شرعی نتائج:
کوئی شخص محض شادی کے لیے اسلام کو چھوڑ کر دوبارہ مسلمان ہونے کی امید رکھے تو یہ عمل خطرناک ہے، کیونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں۔ ممکن ہے کہ ارتداد کی حالت میں ہی موت واقع ہو جائے۔ شریعت ایسے کسی عمل کی ہرگز اجازت نہیں دیتی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
"مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوه”
(سنن ابي داؤد: 4351)
’’جو اسلام چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کرے، اسے قتل کر دو۔‘‘
اسلامی نظام کے تحت ارتداد کی سزا:
اگر اسلامی نظام نافذ ہو تو ایسا شخص، جو اسلام چھوڑ کر کسی اور دین کو اپنائے، واجب القتل ہو جائے گا۔ اس طرح کا عمل اسلام کی حرمت اور وقار پر داغ لگانے کے مترادف ہے اور دجل و فریب کے زمرے میں آتا ہے۔
دجل و فریب کی ممانعت:
شادی کے لیے دینِ اسلام سے نکلنے اور پھر واپسی کا ارادہ ایک ناپسندیدہ چال اور دجل ہے، جس کا اسلام میں کوئی جواز نہیں۔ ایسے بدنصیب شخص کو کوئی مفتی یا عالم کبھی بھی ایسا فتویٰ جاری نہیں کرے گا جو ارتداد کی اجازت دے۔