سوال
شادی بیاہ کے موقع پر گھر میں لائٹنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ کیا اس پر کوئی نص موجود ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
نصوص کی عدم موجودگی:
◈ ہر مسئلے پر براہِ راست نص موجود نہیں ہوتی۔
◈ عمومی دلائل، فہم سلف، امت کا متواتر عمل، اور اصول و قواعد کی روشنی میں معاملات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
لائٹنگ کا شرعی جائزہ
1. لائٹنگ کا وجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا:
◈ اس لیے اس پر کوئی براہ راست دلیل یا نص موجود نہیں ہے۔
◈ لائٹنگ دین کے درجے میں شامل نہیں، بلکہ یہ جدید ایجادات میں سے ہے۔
2. شادی میں لائٹنگ کا اہتمام:
◈ شادی میں لائٹنگ ایک اضافی عمل ہے اور کوئی مستحسن یا ضروری امر نہیں ہے۔
◈ البتہ یہ عرف میں شامل ہو چکا ہے، اور عرف کا شریعت میں ایک مقام ہے بشرطیکہ:
◈ یہ غیر مسلموں سے نہ لیا گیا ہو۔
◈ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی نہ ہو۔
فقہاء کی رائے:
◈ عرف کو فقہاء نے حجت تسلیم کیا ہے، بشرطیکہ واضح نصوص اور شریعت کے اصولوں کے خلاف نہ ہو۔
◈ شادی بیاہ میں لائٹنگ کے حوالے سے کوئی سخت ممانعت یا نکیر وارد نہیں ہوئی، لہذا اسے جائز سمجھا جا سکتا ہے۔
عرف کی حیثیت:
◈ جس طرح نکاح اور ولیمے کے موقع پر لڑکی اور لڑکے کے لباس، اور مختلف اقسام کے کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، اسی طرح شادی میں لائٹنگ بھی ایک عرف بن چکا ہے۔
◈ یہ جواز کا درجہ رکھتا ہے، اگرچہ ترک کرنا بہتر ہوگا، لیکن اس میں کوئی سختی والی بات نہیں۔
اسراف سے اجتناب:
◈ لائٹنگ میں اسراف سے بچنا ضروری ہے، جیسا کہ ہمارے معاشرے میں شادی سے تین دن پہلے اور تین دن بعد تک لائٹنگ کی جاتی ہے، جو اسراف کے زمرے میں آتا ہے اور شریعت میں اس کی ممانعت ہے۔
واللہ اعلم