إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
اہل بیت کے مناقب کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا﴾
(الأحزاب: 33)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے خوب پاک کرنا۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ﴾
(الشورى: 23)
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”کہہ دیجیے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر رشتہ داری کی وجہ سے دوستی ۔ “
حدیث 1:
«عن جابر بن عبد الله قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حجته يوم عرفة وهو على ناقته القصواء يخطب فسمعته يقول: يا أيها الناس إني قد تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا كتاب الله ، وعترتى أهل بيتى»
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3786۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجتہ الوداع میں عرفے کے دن دیکھا، آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوکر خطبہ دے رہے تھے، میں نے آپ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے: ایک اللہ کی کتاب ہے، دوسرے میری عترت، یعنی اہل بیت ہیں۔ “
حدیث 2:
«وعن عمر بن أبى سلمة ربيب النبى صلى الله عليه وسلم قال: نزلت هذه الآية على النبى صلى الله عليه وسلم: ﴿يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا﴾ فى بيت أم سلمة فدعا النبى صلى الله عليه وسلم فاطمة وحسنا وحسينا فجللهم بكساء وعلي خلف ظهره فجلله بكساء ، ثم قال: اللهم هؤلاء أهل بيتي ، فأذهب عنهم الرجس ، وطهرهم تطهيرا . قالت أم سلمة: وأنا معهم يا نبي الله! قال: أنت على مكانك ، وأنت إلى خير»
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3787۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب (پروردہ) عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت کریمہ: ﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا﴾ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اتری تو آپ نے فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور آپ نے انہیں ایک چادر میں ڈھانپ لیا اور علی آپ کی پشت مبارک کے پیچھے تھے تو آپ نے انہیں بھی چادر میں چھپا لیا، پھر ارشاد فرمایا: اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان کی ناپاکی کو دور فرمادے اور انہیں اچھی طرح پاک کر دے، اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: اللہ کے نبی ! میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں، آپ نے ارشاد فرمایا: تو اپنی جگہ پر رہ اور تو بھی نیکی پر ہے۔ “
حدیث 3:
«وعن زيد بن أرقم رضي الله عنهما قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي أحدهما أعظم من الآخر: كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الأرض وعترتي أهل بيتي ، ولن يتفرقا حتى يردا على الحوض ، فانظروا كيف تخلفوني فيهما»
سنن ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3788- سلسلة الصحيحة، رقم: 356 357
”اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے اور دوسری میری عترت، یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلے میں تم میری کیسی جانشینی کر رہے ہو ۔ “
حديث 4:
«وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أحبوا الله لما يغدوكم من نعمه، وأحبوني بحب الله، وأحبوا أهل بيتي بحبي»
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3789
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ سے محبت کرو، کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلا رہا ہے اور محبت کرو مجھ سے اللہ کی خاطر اور میرے اہل بیت سے میری خاطر ۔“
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ناراض مت کرنا
حدیث 5:
«وعن المسور بن مخرمة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فاطمة بضعة منى ، فمن أغضبها أغضبني»
صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 3714 و اللفظ له، صحيح مسلم، رقم: 2449
”اور حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے، جس نے اُسے ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔ “
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنتی عورتوں کی سردار
حدیث 6:
«وعن عائشة رضي الله عنها قالت: فقالت: أسر إلى إن جبريل كان يعارضني القرآن كل سنة مرة ، وإنه عارضنى العام مرتين ، ولا أراه إلا حضر أجلي ، وإنك أول أهل بيتي لحاقا بي . فبكيت فقال: أما ترضين أن تكوني سيدة نساء أهل الجنة أو نساء المؤمنين؟ فضحكت لذلك»
صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم: 3624 ، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 2450
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوشیدہ گفتگو یہ کی تھی: حضرت جبریل علیہ السلام ہر سال میرے ساتھ ایک مرتبہ قرآن مجید کا دور کرتے تھے ، البتہ اس سال دو مرتبہ دور کیا ہے۔ میرے خیال کے مطابق میری موت قریب آچکی ہے اور یقینا تم میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے میرے ساتھ ملاقات کرو گی۔ تو میں رونے لگی۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا: کیا تمھیں پسند نہیں کہ تم جنت کی عورتوں یا اہل ایمان کی عورتوں کی سردار ہو۔ تو اس وجہ سے میں ہنس پڑی۔ “
حدیث 7:
«وعن حذيفة قال: سألتني أمي متى عهدك تعني بالنبي صلى الله عليه وسلم فقلت: ما لي به عهد منذ كذا وكذا، فنالت مني فقلت لها: دعيني آتي النبى صلى الله عليه وسلم فأصلى معه المغرب وأسأله أن يستغفر لي ولك، فأتيت النبى صلى الله عليه وسلم فصليت معه المغرب فصلى حتى صلى العشاء ، ثم انفتل فتبعته فسمع صوتي فقال: من هذا حذيفة؟ قلت: نعم قال: ما حاجتك غفر الله لك ولأمك. قال: إن هذا ملك لم ينزل الأرض قط قبل هذه الليلة ، استأذن ربه أن يسلم على ، ويبشرني بأن فاطمة سيدة نساء أهل الجنة، وأن الحسن ، والحسين سيدا شباب أهل الجنة»
سنن كتاب المناقب، رقم: 3781۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جاسکا ہوں، تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے دیجیے میں آپ کے ساتھ صلاۃ مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چنانچہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سنی تو ارشاد فرمایا: کون ہو؟ حذیفہ؟ میں نے عرض کی: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپ نے کہا: کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہار ماں کو ۔ (پھر) آپ نے ارشاد فرمایا: یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن وحسین بھی نا اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان) کے سردار ہیں۔ “
حدیث 8:
«وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أفضل نساء أهل الجنة: خديجة بنت خويلد، وفاطمة بنت محمد ، و آسية بنت مزاحم امرأة فرعون ، ومريم ابنة عمران»
مسند احمد: 293/1، صحیح ابن حبان بترتيب الاحسان: 6971، 7010، مستدرك الحاكم 594/2، 160/3 ، 185- ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے، علامہ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
”اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنتی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اور مریم بنت عمران ہیں۔ “
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے کھڑے ہو جاتے
حدیث 9:
«وعن عائشة أم المؤمنين، قالت: وكانت إذا دخلت على النبى صلى الله عليه وسلم قام إليها فقبلها وأجلسها فى مجلسه، وكان النبى صلى الله عليه وسلم إذا دخل عليها قامت من مجلسها فقبلته وأجلسته فى مجلسها»
سنن ترمذی، رقم: 3872 – محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں: (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ) جب کبھی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا کرتیں تو آپ کھڑے ہو جایا کرتے اور ان کا بوسہ لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھا دیتے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوتیں آپ کا بوسہ لیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ “
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت
حدیث 10:
«وعن على رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لفاطمة سلام الله عليها إن الله يغضب لغضبك ، ويرضى لرضاك»
مستدرك حاكم، رقم: 4730، معجم كبير للطبرانی ، رقم: 1001۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ سے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر سلامتی ہو، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بغض کی وجہ سے ناراض ہوتا ہے اور تمہارے ساتھ راضی ہونے کی وجہ سے راضی ہو جاتے ہیں۔“
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سچائی
حدیث 11:
«وعن عائشة رضي الله عنها قالت: ما رأيت احدا قط أصدق من فاطمة غير أبيها»
حلية الأولياء: 41/2 ، 42، مستدرك حاكم 161/3۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ میں نے امت محمدیہ میں سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو راست گو نہیں دیکھا۔ “
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نصیحت
حدیث 12:
«وعن أبى هريرة قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أنزل الله: ﴿وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ قال: يا معشر قريش ، اشتروا أنفسكم، لا أغنى عنكم من الله شيئا، يا بني عبد مناف ، لا أغنى عنكم من الله شيئا، يا عباس بن عبد المطلب ، لا أغني عنك من الله شيئا، ويا صفية، عمة رسول الله ، لا أغني عنك من الله شيئا، ويا فاطمة بنت محمد ، سليني ما شئت من مالي لا أغني عنك من الله شيئا»
صحیح بخاری، کتاب التفسير، رقم الحديث: 4771
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ﴿وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ آيت نازل فرمائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا: اے قریش والو! اپنے نفسوں کو خرید لو میں اللہ کے ہاں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے بنی عبد مناف میں اللہ کے ہاں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں اللہ کے ہاں تیرے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی ! میں اللہ کے ہاں تیرے کسی کام نہیں آؤں گا، اور اے فاطمہ بنت محمد ! میرے مال سے جو چاہو لے لو مگر میں اللہ کے ہاں تیرے کسی کام نہیں آؤں گا۔ “
حدیث 13:
«وعن على بن حسين ان المسور بن مخرمة أخبره أن على بن أبى طالب خطب بنت أبى جهل، وعنده فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلما سمعت بذلك فاطمة أتت النبى صلى الله عليه وسلم فقالت له: إن قومك يتحدثون أنك لا تغضب لبناتك وهذا على ناكحا ابنة أبى جهل ، قال المسور: فقام النبى صلى الله عليه وسلم فسمعته حين تشهد ثم قال: أما بعد! فإني أنكحت أبا العاص بن الربيع فحدثني فصدقني ، وإن فاطمة بنت محمد مضغة مني وإنما أكره أن يفتنوها ، وإنها والله لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدة الله عند رجل واحد أبدا، قال: فترك على الخطبة»
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6310
”اور مجھے علی بن حسین (زین العابدین) نے خبر دی کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما نے انہیں بتایا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی کے لیے نکاح کا پیغام دیا، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس (نکاح میں ) تھیں تو جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات سنی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ کی قوم (بنو ہاشم) کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں آتا اور یہ علی رضی اللہ عنہ ہیں جو ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ حضرت مسور نے کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہوئے، جب آپ نے شہادت کے الفاظ ادا کیے تو میں نے سنا، پھر آپ نے ارشاد فرمایا: اس کے بعد! میں نے ابوالعاص بن ربیع کو رشتہ دیا تو اس نے میرے ساتھ بات کی تو سچی بات کی، بے شک فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میری جان کا ٹکڑا ہے مجھے یہ بہت برا لگتا ہے کہ لوگ اسے آزمائش میں ڈالیں اور بات یہ ہے کہ اللہ کی قسم! اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں اکٹھی نہیں ہوں گی۔ حضرت مسور نے کہا: تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کا ارادہ ترک کر دیا۔ “
حدیث 14:
«وعن عائشة ، قالت: كن أزواج النبى صلى الله عليه وسلم عنده، لم يغادر منهن واحدة ، فأقبلت فاطمة تمشي، ما تخطئ مشيتها من مشية رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا، فلما رآها رحب بها ، فقال: مرحبا بابنتي ثم أجلسها عن يمينه أو عن شماله، ثم سارها فبكت بكاء شديدا ، فلما رأى جزعها سارها الثانية فضحكت ، فقلت لها: خصك رسول الله صلى الله عليه وسلم من بين نسائه بالسرار ، ثم أنت تبكين؟ فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ سألتها ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: ما كنت أفشي على رسول الله صلى الله عليه وسلم سره، قالت: فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت: عزمت عليك ، بما لي عليك من الحق ، لما حدثتني ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: أما الآن، فنعم، أما حين سارني فى المرة الأولى ، فأخبرنى أن جبريل كان يعارضه القرآن فى كل سنة مرة أو مرتين ، وإنه عارضه الآن مرتين ، وإني لا أرى الاجل إلا قد اقترب ، فاتقي الله واصبري ، فإنه نعم السلف أنا لك ، قالت: فبكيت بكائي الذى رأيت ، فلما رأى جزعي سارني الثانية فقال: يا فاطمة آما ترضي ان تكوني سيدة نساء المؤمنين، أو سيدة نساء هذه الأمة؟ قالت: فضحكت ضحكى الذى رأيت»
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6313
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج آپ کے پاس موجود تھیں، ان میں سے کوئی (وہاں سے) غیر حاضر نہیں ہوئی تھی، اتنے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں، ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے ذرہ برابر مختلف نہ تھی۔ جب آپ نے انہیں دیکھا تو ان کو خوش آمدید کہا اور فرمایا: میری بیٹی کو خوش آمدید! پھر انہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھایا، پھر راز داری سے ان کے ساتھ بات کی تو وہ شدت سے رونے لگیں جب آپ نے ان کی شدید بے قراری دیکھی تو آپ نے دوبارہ ان کے کان میں کوئی بات کہی تو وہ ہنس پڑیں۔ (بعد میں ) میں نے ان سے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو چھوڑ کر خاص طور پر آپ سے راز داری کی بات کی، پھر آپ روئیں (کیوں؟ ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس جگہ سے ) تشریف لے گئے تو میں نے ان سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا کہا؟ انہوں نے کہا: میں ایسی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کر دوں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا تو میں نے ان سے کہا: میرا آپ پر جو حق ہے میں اس کی بنا پر اصرار کرتی ہوں (اور یہ اصرار جاری رہے گا ) الا یہ کہ آپ مجھے بتائیں کہ آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا: اب (اگر آپ پوچھتی ہیں ) تو ہاں، پہلی بار جب آپ نے سرگوشی کی تو مجھے بتایا: جبرئیل آپ کے ساتھ سال میں ایک یا دو بار قرآن کا دور کیا کرتے تھے اور ابھی انہوں نے ایک ساتھ دو بار دور کیا ہے اور مجھے اس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا کہ اجل (مقررہ وقت ) قریب آگیا ہے، اس لیے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے صبر کرنا، میں تمہارے لیے بہترین پیش رو ہوں گا۔ (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ) کہا: اس پر میں اس طرح روئی جیسا آپ نے دیکھا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شدید بے قراری دیکھی تو دوسری بار میرے کان میں بات کی اور فرمایا: فاطمہ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم ایماندار عورتوں کی سردار بنو، یا (فرمایا: ) اس امت کی عورتوں کی سردار بنو؟ کہا: تو اس پر میں اس طرح سے ہنس پڑی جیسے آپ نے دیکھا۔ “
حدیث 15:
«وعن أم سلمة قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: المهدى من عترتى من ولد فاطمة»
سنن ابوداؤد، کتاب المهدی، رقم: 4284۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: امام مہدی میری عترت سے یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہوں گے۔ “
حدیث 16:
«وعن أنس رضي الله عنه قال: لما ثقل النبى صلى الله عليه وسلم جعل يتغشاه، فقالت فاطمة عليها السلام وا كرب أباه فقال: لها ليس على أبيك كرب بعد اليوم . فلما مات قالت يا أبتاه، أجاب ربا دعاه يا أبتاه، من جنة الفردوس مأواه يا أبتاه ، إلى جبريل ننعاه فلما دفن قالت فاطمة عليها السلام: يا أنس أطابت أنفسكم أن تحفوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم التراب؟ »
صحیح بخاری، کتاب المغازي، رقم: 4462
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت بیمار ہوئے اور آپ پر غشی طاری ہوئی تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے میرے والد کو سخت تکلیف ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے فاطمہ! آج کے بعد تمہارے والد کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے میرے ابا جان ! جس نے اپنے رب کی دعوت کو قبول کرلیا۔ اے میرے ابو جان ! جنت الفردوس آپ کا ٹھکانا ہے۔ اے والد گرامی! ہم حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ کے انتقال کی خبر دیتے ہیں۔ پھر جب آپ کو دفن کر دیا گیا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے انس! تمہارے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالنے کے لیے کیونکر آمادہ ہوئے تھے؟ “
سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری
حدیث 17:
«عن إياس عن أبيه قال: لقد قدت بنبي الله صلى الله عليه وسلم والحسن والحسين بغلته الشهباء حتى أدخلتهم حجرة النبى صلى الله عليه وسلم هذا قدامه وهذا خلفه»
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6260
”ہمیں ایاس نے اپنے والد سے حدیث بیان کی ، کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو آپ کے سفید خچر پر بٹھا کر اس کی باگ پکڑ کر چلا، یہاں تک کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں لے گیا۔ یہ (ایک بچہ) آپ کے آگے بیٹھ گیا اور وہ (دوسرا بچہ ) آپ کے پیچھے بیٹھ گیا۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت
حدیث 18:
«وعن أسامة بن زيد رضي الله عنهما قال: طرقت النبى صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فى بعض الحاجة ، فخرج النبى صلى الله عليه وسلم وهو مشتمل على شيء لا أدري ما هو؟ فلما فرغت من حاجتي قلت: ما هذا الذى أنت مشتمل عليه ، قال فكشفه فإذا حسن وحسين رضي الله عنهما على وركيه فقال هذان ابناي وابنا ابنتي ، اللهم إنى أحبهما فأحبهما وأحب من يحبهما»
سنن الترمذي ، كتاب المناقب، باب مناقب أبي محمد الحسن بن على والحسين بن علی رضی اللہ عنہما ، رقم: 3769 – محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کہتے ہیں: ایک رات میں کسی ضرورت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے باہر) تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی چیز اٹھائے ہوئے تھے۔ معلوم نہیں وہ کیا تھی؟ جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو عرض کیا: آپ کیا اٹھائے ہوئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر رکھ لی تو وہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما تھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کولہے پر اٹھایا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ یا اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت کرے تو بھی ان سے محبت فرما۔ “
سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھول ہیں
حدیث 19:
«وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم هما ريحانتاي من الدنيا»
صحيح البخارى، كتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين ﷺ ، رقم: 3753
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت حسن رضی اللہ عنہ وسلم اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ “
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی سواری بنے
حدیث 20:
«وعن البراء بن عازب رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلى فجاء الحسن والحسين رضي الله عنهما أو أحدهما فركب على ظهره فكان إذا رفع رأسه قال بيده أو أمسكهما ، وقال: نعم المطية مطيتكما»
مجمع الزوائد: 184/9، تحقیق محمد عبد الله الدرويش
”اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما دونوں میں سے کوئی ایک آیا اور (دوران سجدہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ مبارک پر چڑھ گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا تو اپنے ہاتھ سے اسے یا دونوں کو پکڑ لیا اور (نماز کے بعد ) فرمایا: تم دونوں کی سواری تو کیا ہی خوب سواری ہے۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو منبر سے اتر کر اٹھانا
حدیث 21:
«وعن أبى بريدة رضي الله عنه يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطبنا إذ جاء الحسن والحسين رضي الله عنهما عليهما قميصان أحمران يمشيان ويعفران، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم من المنبر، فحملهما ووضعهما بين يديه، ثم قال: صدق الله ﴿اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾ نظرت إلى هذين الصبيين يمشيان ويعثران فلم أصبر حتى قطعت حديني ورفعتهما»
سنن الترمذی، ابواب المناقب، باب مناقب أبي محمد الحسن بن على والحسين بن علی رضی اللہ عنہ ، رقم: 3774 – محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ (کم سن ) حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما دونوں سرخ قمیصیں پہنے، گرتے پڑتے آگئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اترے، دونوں کو اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے، تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں۔ میں نے دونوں بچوں کو گرتے پڑتے آتے دیکھا اور صبر نہیں کر سکا اور اپنی بات کا سلسلہ منقطع کر کے دونوں کا اٹھا لیا۔ “
سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی نوجوانوں کے سردار ہوں گے
حدیث 22:
«وعن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الحسن والحسين رضي الله عنهما سيدا شباب أهل الجنة»
سنن الترمذی، باب مناقب أبي محمد الحسن والحسين بن على رضی اللہ عنہما ، رقم: 3768، سلسلة الصحيحة، رقم: 796
”اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما دونوں جنتی نو جوانوں کے سردار ہوں گے۔“
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی تکلیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف ہوتی
حدیث 23:
«وعن يزيد بن أبى زياد رضي الله عنه قال: خرج النبى صلى الله عليه وسلم من بيت عائشة رضي الله عنها فمر على فاطمة فسمع حسينا يبكي ، فقال: ألم تعلمي أن بكاء ه يؤذيني»
المعجم الكبير للطبراني: 116/3، رقم: 2847
”اور حضرت یزید بن ابو زیاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے باہر تشریف لائے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے پاس سے گزرے تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی رونے کی آواز سنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اس کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے۔“
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بیان
حدیث 24:
«وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: رأيت النبى صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار ، وهو قائم ، أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي أنت وامي يا رسول الله ، ما هذا؟ فقال: دم الحسين وأصحابه ، لم أزل ألتقطه منذ اليوم. فأحصينا ذلك اليوم ، فوجدوه قد قتل فى ذلك اليوم»
مسند احمد: 283/1، رقم: 2553۔ احمد شاکر نے اسے ”صحیح الإسناد“ کہا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نصف النہار کے وقت میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غبار آلود پراگندہ بالوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ صلى الله عليه وسلم کے دست اقدس میں ایک بوتل ہے جس میں خون ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (میرے بیٹے ) حسین اور اس کے (جانثار ) ساتھیوں کا خون ہے اور میں اسے فلاں دن سے جمع کر رہا ہوں۔ پس ہم نے اس دن کا شمار کیا تو (راوی کہتے ہیں کہ ) انہیں معلوم ہو گیا کہ ٹھیک اسی دن امام حسین رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تھے۔ “
حدیث 25:
«وعن عبد الله بن وهب بن زمعة قال: أخبرتني أم سلمة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اضطجع ذات ليلة للنوم فاستيقظ وهو حائر ثم اضطجع فرقد ثم استيقظ وهو حائر دون ما رأيت المرة الأولى ثم اضطجع فاستيقظ وفي يده تربة حمراء يقلبها . فقلت: ما هذه التربة يا رسول الله؟ قال: أخبرني جبريل أن هذا يقتل بأرض العراق للحسين فقلت لجبريل: أرنى تربة الأرض التى يقتل بها . فهذه تربتها»
مستدرك حاكم: 440/4، رقم: 8202 ، المعجم الكبير للطبراني: 109/3، رقم: 308/23، 2821
”اور حضرت عبد اللہ بن وہب بن زمعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات سونے کے لیے آرام فرما ہوئے تو (تھوڑی دیر بعد ) بیدار ہو گئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان (سے لگ رہے) تھے۔ پھر (دوبارہ) لیٹے اور بغیر سوئے (تھوڑی دیر) لیٹے رہے اور پھر بیدار ہو گئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان تھے لیکن اتنے پریشان نہیں تھے جتنے میں نے پہلی مرتبہ دیکھے تھے۔ پھر لیٹ گئے اور پھر اٹھ بیٹھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس میں سرخ مٹی تھی جسے آپ الٹ پلٹ رہے تھے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، یہ کیسی مٹی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے جبرائیل علیہ السلام نے بتایا ہے کہ یہ (میرا بیٹا حسین) ارض عراق میں شہید کیا جائے گا۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے کہا: مجھے وہ مٹی دکھاؤ جہاں اسے شہید کیا جائے گا۔ تو یہ وہ مٹی ہے۔ “
حدیث 26:
«وعن أم سلمة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا ذات يوم فى بيتي . فقال: لا يدخل على احد. فانتظرت فدخل الحسين رضي الله عنه فسمعت نشيج رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي فقلت: والله ، ما علمت حين دخل فقال: إن جبريل عليه السلام فى البيت فقال: تحبه؟ قلت: أما من الدنيا فنعم . قال: إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها كربلاء . فتناول جبريل عليه السلام من تربتها فأراها النبى صلى الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل قال: ما اسم هذه الأرض؟ قالوا: كربلاء . قال: صدق الله ورسوله أرض كرب وبلاء»
مسند احمد: 782/2، رقم: 1391 ، المعجم الكبير للطبراني: 108/3، رقم: 2819، 289/23، رقم: 637
”اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تشریف فرما تھے اور سب سے فرما دیا کہ ابھی میرے پاس کوئی نہ آئے۔ پس میں نے انتظار کیا یہاں تک کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں ) داخل ہوئے۔ پھر میں نے ہچکی بندھنے کی آواز سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رورہے تھے جب میں نے (حجرہ مبارک میں ) جھانکا تو کیا دیکھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود مبارک میں ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مبارک پیشانی پونچھ رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ رو بھی رہے ہیں۔ پس میں نے کہا: اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتی یہ کب اندر داخل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جبرائیل علیہ السلام گھر میں موجود ہیں اور مجھے کہا ہے کہ آپ اس (حسین رضی اللہ عنہ ) سے محبت کرتے ہیں؟ اور میں نے کہا ہاں۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا: بے شک آپ کی امت اسے ایسی سرزمین پر شہید کرے گی جسے کربلا کہا جاتا ہے اور جبرائیل اس سرزمین کی مٹی بھی لائے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی انہیں دکھائی۔ پھر جب حسین رضی اللہ عنہ کو شہادت کے وقت گھیرے میں آئے تو پوچھا اس جگہ کا نام کیا ہے؟ کہا گیا، کربلا۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا کہ یہ جگہ کرب کی بھی ہے اور بلاء کی بھی ۔ “
اہل عراق کا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنا
حدیث 27:
«وعن ابن أبى نعم قال: سمعت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما وسأله عن المحرم ، قال شعبة: أحسبه يقتل الدباب، فقال: أهل العراق يسألون عن الذباب وقد قتلوا ابن ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال النبى صلى الله عليه وسلم: هما ريحانتاي من الدنيا»
صحيح البخارى، كتاب فضائل الصحابة، رقم: 3543 ، مسند احمد، رقم: 5568
”اور حضرت ابن ابو نعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے احرام باندھنے والے کے متعلق دریافت کیا۔ شعبہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں احرام باندھنے والے کا مکھی مارنے کے بارے میں حکم پوچھا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اہل عراق مکھی مارنے کا حکم پوچھتے ہیں حالانکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو شہید کر دیا تھا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ دونوں ہی تو میرے گلشن دنیا کے دو پھول ہیں۔ “
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے محبت کا ثواب
حدیث 28:
«وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال لحسن: اللهم إني أحبه فاحبه واحبب من يحبه»
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6256
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا: اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو (بھی) اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے، اس سے (بھی ) محبت فرما۔ “
حدیث 29:
«وعن أبى هريرة قال خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى طائفة من النهار لا يكلمني ولا أكلمه حتى جاء سوق بني قينقاع ثم انصرف حتى أتى خباء فاطمة فقال: أثم لكع أثم لكع يعني حسنا فظننا أنه إنما تحبسه أمه لان تغسله وتلبسه سخابا فلم يلبث أن جاء يسعى حتى اعتنق كل واحد منهما صاحبه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم إنى أحبه فاحبه وأحبب من يحبه»
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة رقم: 6257
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: میں دن کے کسی وقت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر نکلا، نہ آپ مجھ سے کچھ فرما رہے تھے، نہ میں آپ سے کچھ عرض کر رہا تھا یہاں تک کہ آپ بنو قنیقاع کے بازار میں آگئے ، پھر آپ (واپس) چل پڑے یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے آئے، پھر فرمایا: کیا یہاں چھوٹو ہے؟ کیا یہاں چھوٹو ہے؟ آپ کی مراد حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے تھی۔ ہم نے سمجھ لیا کہ ان کی والدہ انہیں روک رہی ہیں کہ انہیں نہلا دیں اور ان کے گلے میں (خوشبو کے لیے ) لونگ وغیرہ کا کوئی ہار ڈال دیں۔ کچھ ہی دیر گزری کہ وہ بھاگتے ہوئے آئے یہاں تک کہ دونوں نے ایک دوسرے کو گلے سے لگایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت فرما۔ “
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے
حدیث 30:
«وعن أنس رضي الله عنه قال: لم يكن أحد أشبه بالنبي صلى الله عليه وسلم من الحسن بن على رضي الله عنهما»
صحیح البخارى، كتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين رضی اللہ عنہما ، رقم: 3752
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی نہیں تھا۔ “
حدیث 31:
«وعن أبى جحيفة قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان الحسن بن على يشبهه»
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3777 – محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مشابہت رکھتے تھے۔ “
حدیث 32:
«وعن أنس بن مالك قال: كنت عند ابن زياد فجيء برأس الحسين فجعل يقول بقضيب له فى أنفه، ويقول: ما رأيت مثل هذا حسنا لم يذكر ، قال قلت: أما إنه كان من أشبههم برسول الله صلى الله عليه وسلم»
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3778۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں عبید اللہ بن زیاد کے پاس تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کا سر لایا گیا تو وہ ان کی ناک میں اپنی چھڑی مار کر کہنے گلا میں نے اس جیسا خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا، کیوں ان کا ذکر حسن سے کیا جاتا ہے (جب کہ وہ حسین نہیں ہے)۔ تو میں نے کہا: سنو یہ اہل بیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔ “
حدیث 33:
«وعن على قال: الحسن أشبه برسول الله صلى الله عليه وسلم ما بين الصدر إلى الرأس ، والحسين أشبه بالنبي صلى الله عليه وسلم ما كان أسفل من ذلك»
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3779 ، المشكاة، رقم: 6161
”اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حسن سینہ سے سر تک کے حصے میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے اور حسین اس حصے میں جو اس سے نیچے کا ہے سب سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ تھے ۔ “
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائی
حدیث 34:
«وعن أبى بكرة رضي الله عنه قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم على المنبر والحسن رضي الله عنه على جنبه ينظر الناس مرة وإليه مرة ويقول: ابنى هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين»
صحيح البخارى، كتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين رضی اللہ عنہما ، رقم: 3629
”اور حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا جبکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نظر لوگوں پر ڈالتے اور ایک نظر حضرت حسن رضی اللہ عنہ پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہوگا اور مجھے امید ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح ہوگی ۔ “
حدیث 35:
«وعن أبى الحوراء قال: قال لي الحسن بن على رضي الله عنهما علمني رسول الله كلمات أقولهن فى الوتر. قال ابن جواس فى قنوت الوتر: اللهم اهدني فيمن هديت ، وعافني فيمن عافيت ، وتولني فيمن توليت ، وبارك لي فيما أعطيت وقني شرما قضيت ، إنك تقضي ولا يقضى عليك ، وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تباركت ربنا وتعاليت»
سنن الكبرى بيهقي: 290/2، سنن ابوداؤد ، باب القنوت في الوتر ، رقم: 1425 – البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور ابوالحوراء بیان کرتے ہیں کہ مجھے حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت وتر کی تعلیم دی تھی کہ میں کہا کروں: اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرے میں شامل فرما جنہیں تو نے ہدایت دی۔ اور مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل کر جنہیں تو نے عافیت بخشی۔ اور مجھے اپنا دوست بنا کر ان لوگوں میں شامل کر دے جنہیں تو نے اپنا دوست بنایا ، اور جو کچھ تو نے مجھے عطا کیا اس میں برکت ڈال دے۔ اور جس شر کا تو نے فیصلہ کیا ہے مجھے اس سے محفوظ فرما۔ بے شک تو ہی فیصلہ صادر کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا اور جس کا تو والی بنا وہ کبھی ذلیل وخوار نہیں ہو سکتا اور وہ شخص عزت نہیں پا سکتا جس سے تو دشمنی کرے۔ اے ہمارے رب! تو برکت والا اور بلند و بالا ہے۔ “
سیدنا حسین رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے
حدیث 36:
«وعن يعلى بن مرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حسين رضي الله عنه منى وأنا من حسين رضي الله عنه ، أحب الله من أحب حسينا، حسين سبط من الأسباط»
سنن الترمذی، ابواب المناقب، باب مناقب أبي محمد الحسن والحسين بن على رضی اللہ عنہما رقم: 3775- محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں، اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے۔ حسین رضی اللہ عنہ میرے نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔“
سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی فضیلت
حدیث 37:
«وعن جابر مرفوعا: من سره أن ينظر إلى رجل من أهل الجنة ، فلينظر إلى الحسين بن علي»
سلسلة الأحاديث الصحيحة، رقم: 4003
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کسی جنتی آدمی کو دیکھ کر خوش ہونا چاہتا ہے، وہ حسین بن علی کو دیکھ لے۔ “
حدیث 38:
«وعن أبى فاحتة ، قال: قال علي: زارنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فبات عندنا، والحسن والحسين نائمان ، فاستسقى الحسن ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى قربة لنا ، فجعل يعصرها فى القدح ، ثم يسقيه فتناوله الحسين ليشرب فمنعه، وبدا بالحسن ، فقالت فاطمة: يا رسول الله كأنه أحب إليك؟ فقال: لا ، ولكنه استسقى أول مرة- ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني ، وإياك ، وهذين، وهذا الراقد – يعني عليا – يوم القيامة فى مكان واحد يعني: فاطمة وولديها الحسن والحسين رضي الله عنهما»
سلسلة الأحاديث الصحيحة، رقم: 3319
”اور ابو فاختہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمارے ہاں ہی رات گزاری، حسن و حسین سو رہے تھے۔ (رات کو) حسن نے پانی مانگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مشکیزے کی طرف گئے، پیالے میں پانی نکالا، پھر اسے پلانے کے لیے لے آئے، (اب حسن کی بجائے وہ پیالہ ) حسین نے پینے کے لیے پکڑنا چاہا، لیکن آپ نے اسے نہ پینے دیا، پھر حسن سے ابتدا کی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسے لگتا ہے کہ آپ کو حسن زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ بات نہیں ہے، (دراصل) حسن نے پانی پہلے مانگا تھا اس لیے پہلے پینے کا حق بھی اسی کا ہے)۔ پھر فرمایا: میں، تو ، یہ دونوں اور یہ سونے والے (علی رضی اللہ عنہ ) روز قیامت ایک مقام میں ہوں گے۔ ان دونوں سے مراد حضرت فاطمہ کے بیٹے حسن اور حسین ہیں۔ “
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا مقتل
حدیث 39:
«وعن سلمى قالت: دخلت على أم سلمة وهى تبكي فقلت: ما يبكيك؟ قالت: رأيت رسول الله تعني فى المنام، وعلى رأسه، ولحيته التراب، فقلت: ما لك يا رسول الله؟ قال: شهدت قتل الحسين آنفا»
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3771
”سلمی کہتی ہیں کہ میں اُم المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا آپ کیوں رو رہی ہیں؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے (یعنی خواب میں ) آپ کے سر اور ڈاڑھی پر مٹی تھی ، تو میں نے عرض کی، آپ کو کیا ہے؟ اللہ کے رسول ! تو آپ نے فرمایا: میں نے حسین کا قتل ابھی ابھی دیکھا ہے۔ “
حدیث 40:
«وعن أم الفضل بنت الحارث: أنها دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله! إني رأيت حلما منكرا الليلة قال: وما هو؟ قالت: إنه شديد قال: وماهو؟ قال: رأيت كأن قطعة من جسدك قطعت ووضعت فى حجري – قال: رايتي خيرا، تلد فاطمة إن شاء الله غلاما فيكون فى حجرك – فولدت فاطمة الحسين ، فكان فى حجري كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخلت يوما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فوضعته فى حجره، ثم حانت مني التفاتة فإذا عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم تهر يقان من الدموع، قالت: فقلت: يا نبي الله بأبي أنت وأمي مالك؟ فقال: أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا فقلت: هذا؟ فقال: نعم- وأتاني بتربة من تربته حمراء»
سلسلة الأحاديث الصحيحة، رقم: 821
”اور سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے رات کو فبیح خواب دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: وہ بہت سخت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخر وہ ہے کیا؟ اس نے کہا: مجھے ایسے لگا کہ آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں پھینکا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو نے تو عمدہ خواب دیکھا ہے، (اس کی تعبیر یہ ہے کہ ) ان شاء اللہ میری بیٹی فاطمہ کا بچہ پیدا ہو گا جو تیری گود میں ہو گا۔ واقعی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بچہ حسین پیدا ہوا جو میری گود میں تھا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا۔ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور حسین کو آپ کی گود میں رکھ دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو کیا ہو گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتلایا کہ میری امت میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی۔ میں نے کہا: یہ بیٹا (حسین)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں، وہ میرے پاس اس علاقے کی سرخ مٹی بھی لائے ۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين