سوال
سیدنا کا کیا مطلب ہے،اور کیا یہ اہل بیت اور صحابہ کرام کیلئے یکساں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
ذرا جلدی جواب دیں اللہ آپ کو اجر دے۔
الجواب
قرآن و حدیث اور لغت عرب میں سید، ایک اعزازی لفظ ہے، جو سردار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔اور سیدنا کا معنی ہے ہمارے سردار جیسے ہماری عام بول چال میں جناب، Sir، ہندی میں شری وغیرہ۔ چنانچہ قرآن کریم اورحدیث پاک اور لغت عرب، قدیم و جدید میں، یہ لفظ جس طرح اللہ کے نیک بندوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ہوا ہے۔ اسی طرح غیرمسلم زعماء کے لیے بھی استعمال ہوا ہے اور ہوتا ہے۔ ظاہر ہے لفظ سرداری جس طرح مال و دولت و عہدہ دنیا کی خبر دیتا ہے اسی طرح روحانی، ایمانی و اخروی سرداری پر بھی دلالت کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ قیامت کے دن مجرم و منکر عوام، اللہ تعالی کے حضور بطور شکوہ و معذرت کہیں گے
’’وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَاoرَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا‘‘
اور وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! بیشک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہا مانا تھا تو انہوں نے ہمیں (سیدھی) راہ سے بہکا دیاہے اے ہمارے رب! انہیں دوگنا عذاب دے اور اُن پر بہت بڑی لعنت کرے
سید کا معنی
السيد الذى فاق غيره بالعقل و المال و لدفع و لنفع، المعطي له فى حقوقه، المعين بنفسه، السيادة الشرف، السيد الرئيس….الذي لا يغلبه غضبه…..العابد….. الورع الحليم… سمي سيد لانة يسود سواد الناس… السيد الكريم… السيد الملك…. السيد السخي ساده.
سيد مرتضی حسين زبيدی مصری، تاج العروس، شرح القاموس، 2 384
سید وہ ہے، جو دوسروں پر عقل و مال کے حساب سے، تکلیف دور کرنے اور فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے فائق ہو، دوسروں کو حقوق دینے والا ہو۔ اپنی ذات سے مدد کرے سیادت کا معنی ہے بزرگی، سید، رئیس۔ سید وہ جس پر غصہ غالب نہ ہو۔ عبادت گزار، پرہیزگار، برداشت کرنے والا۔ اس کو سید اس لیے کہا جاتا ہے کہ لوگوں کی جماعت میں فائق ہوتا ہے۔ سید کریم، سید بادشاہ، سید سخی، اس کی جمع سادۃ ہے۔
السيد الرب، المالک، الفاضل، الکريم، الحليم محتمل اذی قومه، الزوج، الرئيس، المقدم(علامه ابن منظور، لسان العرب، 6 : 422، طبع بيروت
سید کا مطلب ہے پالنے والا، مالک، صاحب شرف، صاحب فضیلت، کریم، بردبار قوم کی تکلیف برداشت کرنے والا، خاوند، رئیس سب سے آگے رہنے والا۔
قرآن سنت یا لغت عرب میں سید قوم کہیں بھی ثابت نہیں۔ بلکہ محض تعظیم و تکریم کے طور پر لفظ استعمال ہوتا ہے۔لہذا تعظیما صحابہ اور اہل بیت(اہل بیت سے آج کے شیعہ مراد نہیں ہیں۔بلکہ خانوادہ نبوت مراد ہے)کے لئے یکساں طور پر اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس کو اہل بیت کے ساتھ خاص کرنے کی کو ئی دلیل نہیں ہے۔