سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل
تحریر: حافظ شیر محمد

ارشاد باری تعالیٰ لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِاللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تیری بیعت کر رہے تھے (الفتح:۱۸)

ان جلیل القدر اور خوش قسمت صحابہ کرام میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔

 حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :‘‘ ومن مناقبہ أن النبی ﷺ شھدلہ بالجنۃ، وأنہ من أھل بدر الذین قیل لھم: اعملوا ماشئتم۔۔۔’’إلخ اور آپ کے مناقب میں سے یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ نے آپ کے جنتی ہونے کی گواہی دی، اور آپ بدری صحابیوں میں سے ہیں جن کے بارے میں (اللہ تعالیٰ نے )فرمایا: جو چاہو سو کرو[تمہاری مغفرت کر دی گئی ہے] (سیر اعلام النبلاء۱؍۷۸)

 اس زمین پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو دیکھا کہ نماز کی اقامت ہو چکی ہے اور (سیدنا) عبدالرحمن بن عوف ؓ لوگوں کو (امام بن کر) نماز پڑھا رہے ہیں۔ وہ ایک رکعت پڑھا چکے تھے کہ نبی کریم ﷺ تشریف لائے۔ جب عبدالرحمن ؓ کو احساس ہوا کہ نبی ﷺ آ گئے ہیں تو مصلی ءِ امامت سے پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ نماز پڑھاتے رہو۔ پس انہوں نے نماز پڑھائی، جب سلام پھیرا تو کیا ہوا؟ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ کی زبانی سنیں: ‘‘فلما سلّم قام النبی ﷺ وقمت فرکعنا الرکعۃ التي سبقتنا’’ پھر جب (عبدالرحمن بن عوف ؓ نے)سلام پھیرا تو نبی ﷺ اور میں کھڑے ہو گئے ۔ ہماری جو رکعت رہ گئی تھی وہ پڑھی [پھر سلام پھیرا ] (صحیح مسلم:۸۱ ؍۲۷۴و ترقیم دارالسلام : ۶۳۳)
معلوم ہوا کہ ایک دن، عذر کی وجہ  سے امام الانبیاء ﷺ نے اپنے امتی عبدالرحمن بن عوف ؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔ پوری امت میں نبی کریم ﷺ کی امامت کا شرف صرف آپ کو ہی حاصل ہے۔

تنبیہ بلیغ: صحیح مسلم والی روایت کا مفہوم، بہت سی سندوں کے ساتھ درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے۔
کتاب الام للشافعی(۱؍۳۲) ومسند احمد(۴؍۲۴۹ ، ۲۵۱) ومسند عبد بن حمید(المنتخب:۳۹۷) و سنن ابی داود (۱۴۹)و سنن النسائی (۱؍۶۳ ، ۲۴ ح ۸۲ و سندہ صحیح) و صحیح ابن خزیمہ(۳؍۸ح۱۵۱۴)و صحیح ابن حبان (الاحسان:۱۳۴۴ دوسرا نسخہ:۱۳۴۷)و مؤطا امام مالک(۱؍۳۶ح۷۰) و مسند الدارمی(۱۳۴۱دوسرا نسخہ:۱۳۷۴)و عام کتبِ حدیث۔

اس حدیث پر امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے ‘‘ باب ماجاء في صلوۃ رسول اللہ ﷺ خلف رجل من أمتہ’’ کا باب باندھا ہے(قبل ح ۱۲۳۶)نبی ﷺ نے وقت پر نماز با جماعت قائم کرنے میں صحابہ کرام کی تائید فرمائی۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : عبدالرحمن بن عوف جنت میں ہیں (سنن الترمذی: ۳۷۴۷و إسنادہ صحیح ؍الحدیث:۱۹ص۵۶)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ (سیدنا ) عمر ؓ نے اس وقت تک مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیا جب تک (سیدنا) عبدالرحمن بن عوف ؓ نے گواہی نہ دے دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجر (ایک علاقے) کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ (صحیح بخاری:۳۱۵۶ ، ۳۱۵۷)

سیدنا عمر ؓ نے عبدالرحمن بن عوف ﷺ سے فرمایا: ‘‘فأنت عندنا عدل’’ پس آپ ہمارے (تمام صحابہ کے ) نزدیک عادل (ثقہ، قابلِ اعتماد ) ہیں(مسند ابی یعلیٰ ۲؍۱۵۳ح۸۳۹ و سندہ حسن)

عبدالرحمن بن عوف ؓ فرماتے ہیں کہ : جب ہم مدینے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے میرے اور سعد بن الربیع (الانصاری ؓ) کے درمیان رشتہِ اخوت (بھائی چارا) قائم کروا دیا(صحیح بخاری:۲۴۰۸)

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ فرمایا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ عبدالرحمن بن عوف کو جنت کی سلسبیل (میٹھے چشمے) سے پانی پلائے (سنن الترمذی: ۳۷۴۹ ملخصاً و إسنادہ حسن، وقال الترمذی: ھذا حدیث حسن غریب)

نبی ﷺ اپنی وفات تک عبدالرحمن بن عوف ؓ سے راضی تھے (دیکھئے صحیح بخاری: ۳۷۰۰، و الحدیث: ۱۷ص ۴۸) آپ ان چھ اراکین مجلسِ شوریٰ میں سے ایک ہیں جنہیں امیر المؤمنین عمر ؓ نے اپنے بعد خلافت کا مستحق چنا تھا(دیکھئے صحیح بخاری: ۳۷۰۰)

تنبیہ: ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ(سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ) گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے(مسند احمد ۶؍۱۱۵ح۲۵۳۵۳ من حدیث عمارۃ بن زاذان عن ثابت عن أنس رضی اللہ عنہ)

اس روایت کے ایک راوی عمارہ بن زاذان کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا: ‘‘یروی عن [ثابت عن] أنس أحادیث مناکیر’’ وہ (ثابت عن) انس سے منکر روایتیں بیان کرتا ہے(الجرح و التعدیل۶؍۳۶۶ و سندہ صحیح، و تہذیب التہذیب ۷؍۳۶۵طبع دارالفکر، و الزیادۃ منہ) لہذا یہ روایت منکر حیعنی ضعیف و مردود ) ہے اس روایت کے باطل و مردود شواہد کے لئے دیکھئے الموسوعۃ الحدیثیہ (۴۱؍۳۳۸ ، ۳۳۹) اس قسم کی ضعیف و مردود روایات کی بنیاد پر بعض لوگ صحابہ کرام ؓ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں حالانکہ ضعیف روایت کا وجود اور عدم وجود ، ہونا اور نہ ہونا ایک برابر ہے (دیکھئے کتاب المجر وحین لابن حبان۱؍۳۲۸ترجمہ سعید بن زیاد)

سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ ۳۲ ھ کو مدینہ طیبہ میں فوت ہوئے۔

ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے (اپنے ابا) عبدالرحمن بن عوف کے جنازے میں (سیدنا) سعد بن ابی وقاص ؓ کو دیکھا وہ فرما رہے تھے کہ ‘‘اذھب ابن عوف ببطنتک من الدنیا لم تتغضغض منھا بشي’’ اے ابن عوف !آپ دنیا سے اس حال میں جا رہے ہیں کہ آپ نے اس کے ساتھ اپنے آپ کو ذرا بھی آلودہ نہیں کیا (مفہوم: المستدرک للحاکم ۳؍۳۰۷ح ۵۳۳۸و سندہ صحیح)

سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ کی وفات پر امیر المؤ منین سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا: ‘‘ اذھب یا ابن عوف فقد أدرکت صفوھا و سبقت رنقھا’’ اے ابن عوف !جاؤ، تم نے دنیا کا بہترین حصہ پا لیا اور گدلے (مٹی والے) حصے کو چھوڑ دیا(المستدرک للحاکم ۳؍۳۰۸ح ۵۳۴۷و سندہ صحیح) رضی اللہ عنھما۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!