سیدنا اویس بن عامر القرنی (م : ۳۷ھ ) کی پیدائش و پرورش یمن میں ہوئی ، قرن قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ، نبی کریم ﷺ کا زمانہ پایا لیکن آپ کی زیارت نہ کر سکے، سید التابعین ہیں، نبی کریمﷺ نے آپ کے بارے میں بشارت دی، ارشاد فرمایا:
(( إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أُوَيْسُ ، وَلَهُ وَالِدَةٌ وَكَانَ بِهِ بياضُ فَمُرُوهُ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ . ))
”بے شک تابعین میں سے سب سے بہتر شخص وہ ہے جسے اویس کہتے ہیں، اس کی والدہ (زندہ) ہے اور اس (اویس) کو برص کی بیماری لاحق ہے (اگر تمہاری ملاقات ہو تو ) اس سے کہنا کہ تمہارے لیے دعائے مغفرت کرے۔“
(صحیح مسلم : ٢٥٤٢)صحیح مسلم (۳۱۱/۲)
کی ایک اور روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت کی وجہ سے آپ کے پاس حاضر نہ ہو سکے۔ ان کا یہ عمل آپ ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں آپ کی اطاعت وفرمانبرداری میں تھا۔
واللہ اعلم
اللہ تعالیٰ نے اویسؒ کے جسم سے ایک درہم کے برابر جگہ کے علاوہ اس بیماری کو ختم کر دیا تھا، تفصیل یہ ہے کہ سید نا اویسؒ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے برص (جسم پر سفید داغ) کی بیماری کو ختم کر دیا، صرف ان کی ناف پر ایک درہم کی جگہ کے برابر یہ بیماری موجود رہی، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے سید نا اویسؒ نے فرمایا:
((لأذكر به ربي . ))
”تاکہ میں اسے دیکھ کر اپنے رب کو یاد کروں۔“
(مسند الإمام أحمد : ۱/ ۳۸، وسنده حسن)
سیدنا عمرؓ کے دور خلافت میں اویس القرنیؒ مدینہ تشریف لائے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دعائے مغفرت کی درخواست کی تو اویس رحم اللہ نے فرمایا:
’’أنت أحق أن تستغفر لي، أنت صاحب رسول الله ﷺ.‘‘
آپ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں، آپ زیادہ حق دار ہیں کہ آپ میرے لیے دعائے مغفرت فرمائیں۔“
پھر سیدنا عمرؓ نے انھیں فرمان رسول ﷺ سنا کر دعائے مغفرت کرائی۔
(مسند الإمام أحمد : ۱/ ۳۸ ، المستدرك على الصحيحين : ٥٧٢٠ ، وسنده حسن)
اویسؒ کی عاجزی کی حالت یہ تھی کہ کوفہ کا رہنے والا ایک شخص حج سے واپس لوٹا، ان دنوں آپ کوفہ میں مقیم تھے، اس نے آپ سے دعائے مغفرت کی درخواست کی تو آپؒ نے فرمایا:
” أنت أحدث عهداً بسفر صالح، فاستغفر لي .‘‘
’’ تم نیک سفر سے نئے نئے آئے ہو، میرے لیے دعائے مغفرت کرو۔“
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(صحیح مسلم : ۲/ ۳۱۱)
((يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَكْثَرُ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ . ))
” میری امت میں ایک آدمی ایسا بھی ہوگا جس کی شفاعت کی وجہ سے قبیلہ بنوتمیم کی تعداد سے بھی زیادہ لوگ جنت میں جائیں گے۔
(سنن الترمذي : ٢٤٣٨ ، سنن ابن ماجه : ٤٣١٦، وسنده حسن)
ثقہ تابعی حسن بصریؒ (م : ۱۰اھ ) نے اس حدیث کی تشریح میں فرمایا:
”إنه أويس القرني .“
’’ بے شک وہ شخص اویس القرنی ہے ۔“
(المستدرك عــلـى الصحيحين : ٥ / ٦٢ ، وسنده صحيح)
ابوعبد الله محمد بن عبد اللہ الحاکم (م : ۴۰۵ ھ ) لکھتے ہیں:
’’اويس راهب هذه الأمة، ولم يصحب رسول الله ﷺ إنما ذکره رسول الله ﷺ ودلّ على فضله، فذكرته في جملة من استشهد بصفين بين يدي أمير المؤمنين علي بن أبي طالبؓ۔
’’اویس القرنی اس امت کے درویش تھے، انھیں رسول اللہ ﷺ کی صحبت حاصل نہیں ہوئی ، آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے ان کا تذکرہ کیا، یہ بات ان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے، میں نے جنگ صفین میں سید نا علیؓ کی معیت میں شہید ہونے والوں میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔“
(المستدرك على الصحيحين : ٤٩/٥)
حافظ شمس الدین محمد بن احمد الذہبیؒ (م : ۷۴۸ ھ ) لکھتے ہیں:
’’أويس القرني هو القدوة الزاهد سيد التابعين في زمانه . “
’’اویس القرنی پیشوا اور زاہد تھے، اپنے زمانہ میں تابعین کے سردار تھے۔“
(سير أعلام النبلاء : ٦٩/٥)
دندان شکنی کا قصہ اور اس کی حقیقت :
یہ قصہ بہت مشہور ہے کہ ”جب اویس القرنیؒ کو پتا چلا کہ جنگ احد میں نبی کریم ﷺ کادانت شہید ہو گیا ہے تو انھوں نے اپنا ایک دانت توڑ ڈالا، پھر خیال آیا کہ شاید کوئی دوسرا دانت شہید ہوا ہو، تو دوسرا دانت توڑ ڈالا، پھر اسی طرح ایک ایک کر کے تمام دانت توڑ ڈالے تو انہیں سکون نصیب ہوا۔“
اس سے ملتا جلتا قصہ مشہور صوفی فرید الدین محمد بن ابوبکر عطار نیشا پوری (م : ۶۲۷ ھ علی قول) کے نام سے مطبوع کتاب ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ (ص: ۴۴) میں ملا ہے لیکن بے سند ہے، تلاش و جستجو کے بعد یہی بات سامنے آئی ہے کہ یہ قصہ بے اصل اور من گھڑت ہے، محدثین کی کتابوں میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے تفصیل درج ذیل ہے:
ابو الحسن علی بن سلطان محمد المعروف ملاعلی القاری الحنفی (م :۱۰۱۴ھ ) لکھتے ہیں:
ثم اعلم أن ما اشتهر على السنة العامة من: أن أويسا قلع أسنانه لشدة أحزانه حين سمع أن سن رسول الله صلى الله عليه وسلم أصيب يوم أحد، ولم يعرف خصوص أي سن كان بوجه معتمد ، فلا أصل له عند العلماء مع أنه مخالف للشريعة الغراء، ولذا لم يفعله أحد من الصحابة الكبراء على أن فعله هذا عبث لا يصدر إلا عن السفهاء .‘‘
’’پھر جان لو کہ جو عام لوگوں کی زبان پر مشہور ہے کہ اویسؒ نے شدت غم کی وجہ سے اپنے دانت توڑ دیے تھے، جب انہوں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کا دانت جنگ احد کے دن شہید کر دیا گیا ہے، لیکن انہیں کسی قابل اعتماد ذریعہ سے متعین طور پر معلوم نہ ہوا کہ کون سا دانت شہید ہوا ہے، علماء کے نزدیک اس بات کی کوئی اصل نہیں ہے، اور یہ روشن شریعت کے خلاف ہے، اسی وجہ سے بڑے بڑے صحابہ کرام ؓ میں سے کسی نے بھی ایسا نہ کیا، مزید یہ کہ یہ ایک عبث فعل ہے جو نادان لوگوں ہی سے صادر ہوسکتا ہے۔“
’’(مجموع رسائل الملا على القاري، المعدن العدني في فضل أويس القرني : ٣٦٨/٢)
محقق العصر حافظ زبیر علی زئی اللہ (م : ۲۰۱۳ء) لکھتے ہیں:
’’یہ روایت کہ سیدنا اویس بن عامر القرنیؒ نے اپنے تمام دانت توڑ دیے تھے، بے اصل اور من گھڑت روایت ہے جو کہ جاہل عوام میں مشہور ہوگئی ہے۔ محدثین کی کتابوں میں اس روایت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ‘‘
(فتاویٰ عـلـميـه المعروف توضيح الأحكام : ۲/ ۲۷۸)
دندان شکنی کا قصہ اور بریلوی مکتب فکر کے علماء:
❀ جناب مفتی محمد یونس رضا اویسی صاحب لکھتے ہیں:
’’اور اس کی خبر حضرت اویسؓ ہوئی اور انہوں نے اپنے دانت شہید کر لیے، یہ روایت نظر سے نہ گزری اور غالباً ایسی روایت ہی نہیں ہے، اگر چہ مشہور یہی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم ۔
(فتاوی بریلی شریف ، ص : ۳۰۱ ،شبیر برادرز لاہور )
❀ جناب قاضی محمد عبد الرحیم بستوی صاحب اس فتویٰ کی تصویب و تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”الجواب صحيح والمجيب مصيب والله تعالىٰ أعلم .
(فتاویٰ بریلی شریف ، ص : ۳۰۲)
❀ حضرت محمد شریف الحق امجدی صاحب ( سابق صدر شعبہ افتا الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ) لکھتے ہیں:
’’یہ روایت بالکل جھوٹ اور افتراء ہے کہ جب حضرت اویس القرنی نے یہ سنا کہ غزوہ احد میں حضور اقدس ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے تو انہوں نے اپنا سب دانت توڑ ڈالا اور انہیں کھانے کے لیے کسی نے حلوہ پیش کیا۔
واللہ تعالیٰ اعلم ۔
( فتاویٰ شارح بخاری : ۱۱۴/۲، دائرة البرکات ، گھوسی ،ضلع مئو)
❀ جناب محمد علی نقشبندی صاحب لکھتے ہیں:
اہل سنت و الجماعت حضرت اویس القرنیؒ کے دانت اکھاڑ پھینکنے والی روایت کو منکر اور غیر مقبول سمجھتے ہیں۔ ہما را دعویٰ ہے کہ حضرت اویس القرنیؒ کے متعلق دانت اکھاڑنے والی روایت کو اگر کوئی بڑے سے بڑا شیعہ سند صحیح غیر مجروح سے ثابت کر دے تو ہیس ہزار روپیہ نقد انعام پائے ۔“
(فقہ جعفریہ : ۱۱۲،۱۱۱/۳)
❀ جناب فضل احمد چشتی صاحب لکھتے ہیں :
’’سیدنا خیر التابعین القرنیؒ کے متعلق عوام الناس میں جو مشہور ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی دندان شکنی فرمائی تھی اور سب عشق رسالت تعلیم تھا، سراسر جھوٹ اور وضع جہاں ہے اگر چہ بعض تذکرہ کی کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے، لیکن وہ بے دینوں کی ملاوٹ ہے، اس کا ثبوت کسی مستند اور محفوظ کتاب سے نہیں ملتا۔‘‘
(سیدنا خیر التابعین حضرت اویس القرنی کی طرف منسوب واقعہ مکذوبہ کی وضاحت پر مشتمل تحقیقی فتویٰ ،ص:۱)
فائدہ:
اہل تشیع کے ایک عالم محمد الحسین الحسینی الظھر رانی نے اس بے اصل ومن گھڑت قصہ کو ایک اور انداز سے لکھا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’ فهذا أويس يكسر له ضرس في اليمن، في نفس اليوم وفي نفس الساعة التي كسر فيها ضرس النبي في يوم أحد . ‘‘
’’یعنی جس دن اور جس وقت جنگ احد میں نبی کریم ﷺ کی داڑھ ( دانت) توڑی گئی عین اسی دن اور اسی وقت یمن میں اویس القرنی کی داڑھ ٹوٹ گئی ۔‘‘
(معرفة الله : ١ / ١٤٠)
الحاصل :
یہ قصہ بے اصل اور من گھڑت ہے۔