سونے کا نصاب بیسں دینار ہے اور چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے اور اس سے کم مقدار پر زکوٰۃ نہیں ہے
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
إذا كانت لك مائنا درهم وحال عليها الحول ففيها خمسة دراهم وليس عليك شيئ حتى يكون لك عشرون دينار أو حال عليها الحول ففيها نصف دينار فما زاد فبحساب ذلك
”جب تیرے پاس دو سو (200) درہم ہوں اور ان پر پورا سال گزر جائے تو ان میں پانچ درہم زکوٰۃ ہے اور جب تیرے پاس بیسں (20) دینار نہ ہوں یا ان پر پورا سال نہ گزرا ہو تو تجھ پر کوئی چیز نہیں ۔ جب بیسں دینار ہو جائیں تو نصف دینار زکوٰۃ ہے اور جو اس سے زیادہ (سونا یا چاندی) ہو گا تو اسی حساب سے زکوٰۃ ہو گی (یعنی ان میں سے بھی چالیسواں حصہ نکال لیا جائے گا خواہ ایک درہم یا ایک دینار ہی زیادہ ہوا ہو) ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1391 ، كتاب الزكاة: باب زكاة السالمة ، أبو داود: 1573]
➋ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليس فيما دون خمس أواق من الورق صدقه
”پانچ اوقیہ (یعنی دو سو درہم) سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ۔“
[بخارى: 1447 ، كتاب الزكاة: باب زكاة الورق ، مسلم: 979 ، أبو داود: 1558 ، ترمذي: 622 ، نسائي: 17/5 ، ابن ماجة: 1793 ، موطا: 244/1 ، ابن أبى شيبة: 117/3 ، أحمد: 6/3]
➌ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک میں نے گھوڑے اور غلام سے زکوٰۃ معاف کر دی ہے پس تم چاندی کی زکوٰۃ ہر چالیس (40) درہموں میں ایک درہم ادا کرو اور ایک سو ننانوے (199) درہموں میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم
”جب دو سو درہم ہو جائیں تو ان میں پانچ درہم زکوٰۃ ہے۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1392 ، كتاب الزكاة: باب زكاة السائمة ، أبو داود: 1574 ، ترمذي: 620 ، نسائي: 37/5 ، أحمد: 98/1 ، دارمي: 383/1]
(شوکانیؒ) سونے چاندی میں زکوٰۃ کی فرضیت اور ان کا مذکورہ نصاب بلا اختلاف ثابت ہے۔
[نيل الأوطار: 93/3 – 94]
(ابن حجرؒ ) چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے۔ اس میں سوائے ابن حبیب اندلسی کے کسی نے اختلاف نہیں کیا ۔
[فتح البارى: 66/4 – 67]
◈ موجودہ وزن کے مطابق بیسں دینار ساڑھے سات تولے یعنی 105 گرام اور دو سو درہم ساڑے باون تولے یعنی 735 گرام کے برابر ہے۔
◈ عصر حاضر میں چونکہ سونا چاندی بطور قیمت استعمال نہیں ہوتا بلکہ روپے استعمال ہوتے ہیں لٰہذا روپے کی تمام مالیت کو سونے یا چاندی میں سے جس کے ساتھ ملا کر زکوٰۃ دینے سے غرباء و مساکین اور دیگر جہات میں زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے اس کے ساتھ ملا کر چالیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کر دی جائے۔
◈ سونے اور چاندی کو زکوٰۃ میں (اس طرح) جمع کرنا (کہ دونوں کو ملا کر کوئی ایک نصاب مکمل کر لیا جائے ) جائز نہیں۔
[المحلى بالآثار: 184/4]