سونے چاندی کے علاوہ جواہرات تجارتی اموال اور دیگر نفع رساں اشیاء میں زکوٰۃ نہیں ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

سونے چاندی کے علاوہ جواہرات تجارتی اموال اور دیگر نفع رساں اشیاء میں زکوٰۃ نہیں ہے
مثلا موتی ، یاقوت ، زمرد ، الماس ، مرجان اور عقیق وغیرہ۔ ان سب میں زکوٰۃ اس لیے نہیں ہے کیونکہ ان میں زکوٰۃ کی فرضیت کے متعلق کوئی شرعی دلیل موجود نہیں اور اشیاء میں اصل براءت ہی ہے جب تک کہ کوئی واضح دلیل نہ مل جائے جیسا کہ اس کی تائید اس قاعدے سے بھی ہوتی ہے ۔
الأصل براءة الذمة
”اصل میں انسان تمام ذمہ داریوں سے بری ہے ۔“
[الوجيز: ص/ 270]
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی چیز کے وجوب و لزوم سے اس وقت تک بری الذمہ ہے جب تک کہ اسے اس کا حکم نہ دے دیا جائے لٰہذا پیش آمدہ معاملات میں اصل براءت ہی ہے۔
[القواعد الفقهية الكبرى للدكتور صالح بن غانم السدلان: ص/ 120-121 ، شرح المحلة للأناسى: ص/ 25 -26 ، المدخل الفقهى العام للزرقاء مادة ، رقم: 578 ، 970/3]
◈ یاد رہے کہ اگر یہ جواہرات تجارت کے لیے ہوں گے تو پھر ان کی قیمت پر نصاب تک پہنچنے کے بعد ایک سال گزر جانے پر زکوٰۃ واجب ہو گی جو کہ دیگر اموال کے ساتھ ملا کر چالیسواں حصہ ادا کی جائے گی۔
امام شوکانیؒ کے نزدیک اموال تجارت میں زکوٰۃ فرض نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اموال تجارت میں فرضیت زکوٰۃ کی کوئی واضح قابل حجت دلیل نہیں ہے اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے تجارت کی موجودگی کے باوجود اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے نیز جن روایات سے استدلال کیا جاتا ہے وہ ضعیف ہیں ۔
[السيل الجرار: 27/2]
(ابن حزمؒ ) اسی کے قائل ہیں۔
[المحلى بالآثار: 39/4 – 41]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[الروضة الندية: 476/1]
(البانیؒ) اسی کو برحق مانتے ہیں۔
[تمام المنة: ص/363]
ان کے دلائل اور جوابات حسب ذیل ہیں:
➊ اموال تجارت میں فرضیت زکوٰۃ کے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں۔ اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ اگرچہ روایات ضعیف ہیں لیکن یہ مسئلہ تو قرآن سے ثابت ہے۔
➋ جب روایات ضعیف ہیں تو برائتہ اصلیہ کے قاعدے کے مطابق اموال تجارت میں زکوٰۃ فرض نہیں ۔ اس قاعدے کے جواب میں وہ قاعدہ پیش کیا جاتا ہے کہ جس میں ہے کہ ”ہر مال میں حق ہے۔“
➌ حدیث نبوی ہے کہ :
ليس فى الخيل والرقيق زكاة
[بخاري: 1463]
”گھوڑے اور غلام میں زکوٰۃ نہیں ۔“
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس حدیث میں یہ کہیں ذکر نہیں ہے کہ اموال تجارت میں بھی زکوٰۃ فرض نہیں۔
(راجح) تجارتی اموال میں زکوٰۃ فرض ہے جو کہ ان کی قیمت کے نصاب تک پہنچنے کے بعد سال گزر جانے پر ادا کی جائے گی اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
يا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الأرْضِ [البقرة: 267]
”اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو ۔“
امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے کہ :
صدقة الكسب والتجارة لقوله تعالى يأيها الذين آمنو أنفقوا من طيبات ما كسبتم إلى قوله إن الله لغني حميد
”محنت اور تجارت کے مال میں سے زکوٰۃ ادا کرنا (ثواب ہے ) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی سے خرچ کرو ……“
[بخارى: فوق الحديث: 1445 ، كتاب الزكاة]
(طبریؒ) اللہ تعالی اس آیت سے یہ مراد لیتے ہیں کہ اپنی ان پاکیزہ اشیاء سے زکوٰۃ ادا کرو جنہیں تم نے اپنے تصرف یعنی تجارت یا صنعت کے ذریعے کمایا ہے۔
[تفسير طبري: 555/5 – 556]
(مجاهدؒ) مال تجارت سے (زکوٰۃ ادا کرو)۔
[أيضا]
(ابوبکر جصاصؒ) سلف کی ایک جماعت جن میں حسنؒ اور مجاہدؒ بھی شامل ہیں، سے مروی ہے کہ اس آیت من طبيبات ما كسبتم سے مراد اموال تجارت میں سے خرچ کرنا ہے اور اس آیت کا عموم تمام اموال میں زکوٰۃ کو واجب کرتا ہے۔
[أحكام القرآن للحصاص: 543/1]
(رازیؒ) اس آیت کا ظاہر تجارت کی زکوٰۃ کو بھی وجوب زکوٰۃ میں داخل کر دیتا ہے۔
[تفسير كبير للرازي: 65/2]
(ابن عربیؒ) اس آیت خذ من أموالهم صدقه کے متعلق رقمطراز ہیں کہ یہ عام ہے اور ہر مال اس میں شامل ہے (خواہ تجارت کا ہی ہو)۔
[شرح ترمذي: 104/3]
➋ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان رسول الله يامرنا أن نخرج الصف من الذى للبيع
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سامان تجارت سے زکوٰۃ نکالنے کا حکم دیا کرتے تھے ۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 338 ، كتاب الزكاة: باب العروض إذا كانت للتجارة ، أبو داود: 1562 ، دار قطني: 128/2 ، بيهقى: 146/4 ، كشف الأستار للبزار: 886 ، امام ابن حزمؒ نے اس حديث كو ضعيف كها هے۔ المحلي: 234/5]
(امیر صنعانیؒ) یہ حدیث مال تجارت میں وجوب زکوٰۃ کی دلیل ہے۔
[سبل السلام: 825/2]
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں۔
(ائمہ اربعہ ) اس کو ترجیح دیتے ہیں۔
(فقہائے سبعہ ) یعنی سعید بن مسیّب ، عروہ بن زبیر ، ابو بکر بن عبیدؒ ، قاسم بن محمدؒ ، عبید اللہ بن عبد اللہؒ ، سلیمان بن یسارؒ اور خارجہ بن زیدؒ بھی اسی کے قائل ہیں۔
[السيل الجرار: 27/2 ، المحلى بالآثار: 40/4 ، المغنى: 248/4 ، سبل السلام: 825/2]
(ابن قدامه حنبلیؒ) اموال تجارت میں بھی زکوٰۃ فرض ہے۔
[المغنى: 248/4]
(ابن منذرؒ ) اموال تجارت میں زکوٰۃ کی فرضیت پر علماء نے اجماع کیا ہے۔
[الإجماع لابن المنذر: ص/ 51 ، رقم: 114]
(خطابیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[معالم السنن: 223/2 ، مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: فقه الزكاة از ڈاكٹر يوسف قرضاوي: 3151 – 316]
نفع رساں اشیاء مثلاً گھر ، زمین یا گاڑی وغیرہ کہ جنہیں کرائے پر دے کر ان کے عوض نقدی یا کسی اور صورت میں نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ ایسی اشیاء میں زکوٰۃ نہیں کیونکہ شریعت میں ان کی زکوٰۃ کے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں ، نیز برائتہ اصلیہ ، کا قاعدہ بھی عدم وجوب کی تائید کرتا ہے لٰہذا ان اشیاء میں زکوٰۃ واجب نہیں لیکن اگر ان کی تجارت کی جاتی ہو تو پھر ان میں زکوٰۃ واجب ہو گی جیسا کہ اموال تجارت میں فرضیت زکوٰۃ ابھی پیچھے ثابت کر دی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ اس قسم کی اشیاء میں اگرچہ زکوٰۃ نہیں ہے لیکن ان سے حاصل شدہ منافع کو دیگر مالیت کے ساتھ مل کر اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی کیونکہ وہ مال ہے اور ہر مال میں زکوٰۃ لازم ہے جبکہ وہ نصاب کو پہنچ چکا ہو اور اس پر سال گزر گیا ہو۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1