«باب التبسم والضحك»
ہنسنا اور مسکرانا
❀ «عن عائشة رضي الله عنها، قالت: ما رايت النبى صلى الله عليه وسلم مستجمعا قط ضاحكا حتى ارى منه لهواته، إنما كان يتبسم » [متفق عليه: رواه البخاري 6092، ومسلم 899: 16]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ کو قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کی داڑھیں نظر آ جائیں، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے تھے۔
❀ «عن عائشة رضي الله عنها، ان رفاعة القرظي طلق امراته فبت طلاقها فتزوجها بعده عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت النبى صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إنها كانت عند رفاعة فطلقها آخر ثلاث تطليقات فتزوجها بعده عبد الرحمن بن الزبير، وإنه والله ما معه يا رسول الله إلا مثل هذه الهدبة، لهدبة اخذتها من جلبابها، قال: وابو بكر جالس عند النبى صلى الله عليه وسلم، وابن سعيد بن العاص جالس بباب الحجرة ليؤذن له، فطفق خالد ينادي ابا بكر، يا ابا بكر الا تزجر هذه عما تجهر به عند رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ وما يزيد رسول الله صلى الله عليه وسلم على التبسم، ثم قال: لعلك تريدين ان ترجعي إلى رفاعة، لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك. » [متفق عليه: رواه البخاري 6084، ومسلم 1433: 112. 113 واللفظ للبخاري.]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی۔ ان کے بعد اس خاتون سے عبدالرحمن بن زبیر (بن باطا) نے نکاح کیا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں کہ وہ رفاعہ کی زوجیت میں تھیں۔ رفاعہ نے ان کو تین طلاقیں دے دیں۔ ان کے بعد عبدالرحمن بن زبیر نے ان سے نکاح کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کے پاس کچھ (مردانگی) نہیں ہے۔ مگر اس کپڑے کی طرح۔ انھوں نے اپنی اوڑھنی کے کپڑے کو پکڑ کر دکھایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ابن سعید بن عاص حجرے کے دروازے پر اجازت کے طالب بیٹھے تھے۔ خالد بن (سعيد) آواز دینے لگے: اے ابو بکر ! کیا تم انھیں نہیں ڈانٹو گے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیسی گفتگو کر رہی ہیں ؟ اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسکرا رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”شاید تم رفاعہ (اپنے سابق شوہر) کے پاس جانا چاہتی ہوں، ایسا نہیں ہو سکتا، جب تک ان (عبدالرحمن کا مزہ نہ چکھ لو اور وہ تمھارا مزہ نہ چکھ لیں۔)“
❀ « عن سعد بن أبى وقاص قال: استاذن عمر بن الخطاب رضى الله عنه على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعنده نسوة من قريش يسالنه ويستكثرنه عالية اصواتهن على صوته، فلما استاذن عمر تبادرن الحجاب، فاذن له النبى صلى الله عليه وسلم فدخل، والنبي صلى الله عليه وسلم يضحك، فقال: اضحك الله سنك يا رسول الله بابي انت وامي، فقال: عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي لما سمعن صوتك تبادرن الحجاب” فقال: انت احق ان يهبن يا رسول الله، ثم اقبل عليهن، فقال: يا عدوات انفسهن اتهبنني ولم تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلن إنك افظ واغلظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” إيه يا ابن الخطاب والذي نفسي بيده ما لقيك الشيطان سالكا فجا إلا سلك فجا غير فجك. » [متفق عليه: رواه البخاري 6085، ومسلم 2396]
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا : حضرت عمر بن خطاب نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی سوال کر رہی تھیں۔ اور کثرت سے سوال کر رہی تھیں، اور ان کی آوازیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی تھیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ تیزی سے پردے کی اوٹ میں چلی گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی، وہ اندر آئے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ قربان ہوں، اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، جب انھوں نے تمھاری آواز سن لی تو تیزی سے پردے کی اوٹ میں چلی گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول ! آپ زیادہ حق دار تھے کہ وہ آپ سے ڈرتیں۔ ان عورتوں کی طرف پلٹ کر کہا: اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ سے نہیں ڈرتیں ؟ تو ان عورتوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آپ زیادہ سخت ہیں۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہاں اے ابن خطاب ! انھیں چھوڑ دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان بھی تمھیں راستے پرآتا ہوا دیکھ لے گا وہ تمھارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلا جائے گا۔“
❀ «عن أبى هرير رضي الله عنه، قال: اتى رجل النبى صلى الله عليه وسلم فقال: هلكت وقعت على اهلي فى رمضان، قال:” اعتق رقبة قال: ليس لي، قال: فصم شهرين متتابعين، قال: لا استطيع، قال: فاطعم ستين مسكينا، قال: لا اجد، فاتي بعرق فيه تمر، قال إبراهيم: العرق المكتل، فقال: اين السائل؟ تصدق بها قال: على افقر مني، والله ما بين لابتيها اهل بيت افقر منا، فضحك النبى صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه قال: فانتم إذا» [متفق عليه: رواه البخاري 6087، ومسلم 1111. واللفظ للبخاري.]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میں ہلاک ہو گیا۔ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ رمضان میں دن کے وقت ہم بستری کر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک غلام آزاد کرو۔“اس نے کہا: میرے پاس نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔“ اس نے کہا: میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ۔“ اس نے کہا: میرے پاس اس کی وسعت نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک عرق، یعنی ٹوکرا لایا گیا۔ ابراہیم نے بتایا کہ «عرق» ایک بیان ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ لو اس کو (ضرورت مندوں میں) صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: کیا میں اس پر صدقہ کروں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے ؟ الله کی قسم ! مدینہ میں ہم سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں نظر آ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تب تم ہی لوگ اس کو استعمال کرو۔“
❀ «عن جرير، قال: ما حجبني النبى صلى الله عليه وسلم منذ اسلمت، ولا رآني إلا تبسم فى وجهي. ولقد شكوت إليه أني لا أثبت على الخيل، فضرب بيده فى صدرى، وقال: اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا. » [متفق عليه: رواه البخاري 6089. ومسلم 2475: 135.]
حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب سے میں نے اسلام قبول کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (اپنے پاس آنے سے) کبھی نہیں روکا۔ اور جب بھی مجھے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، میں نے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ پاتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارکہ میرے سینے پر مارا، اور یوں دعا فرمائی: «اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا» ”اے الله! اسے ثبات عطا فرما، اور اس کو سیدھی راہ دکھانے والا اور ہدایت یافتہ بنا۔“
❀ « عن انس رضي الله عنه، ان رجلا جاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة وهو يخطب بالمدينة، فقال: قحط المطر فاستسق ربك، فنظر إلى السماء وما نرى من سحاب فاستسقى، فنشا السحاب بعضه إلى بعض ثم مطروا، حتى سالت مثاعب المدينة فما زالت إلى الجمعة المقبلة ما تقلع، ثم قام ذلك الرجل او غيره والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب، فقال: غرقنا فادع ربك يحبسها عنا، فضحك ثم قال: اللهم حوالينا ولا علينا مرتين او ثلاثا، فجعل السحاب يتصدع عن المدينة يمينا وشمالا يمطر ما حوالينا ولا يمطر منها شيء، يريهم الله كرامة نبيه صلى الله عليه وسلم وإجابة دعوته. » [متفق عليه: رواه البخاري 6093 و 1014، ومسلم 897: 8.]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک صاحب جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: قحط سالی پڑی ہے (بارش نہیں ہو رہی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے بارش کے لیے دعا فرمائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا، ہمیں کہیں بادل نظر نہیں آرہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے دعا فرمائی۔ اتنے میں گھنے بادل چھا گئے، اور بارش ہو گئی، یہاں تک کہ مدینہ کے نالے بہنے لگے۔ آئندہ جمعہ کی مسلسل بارش ہوتی رہی۔ پھر وہی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، تو اس نے عرض کیا: ہم ڈوب گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے دعا فرمائیں کہ ہم سے بارش روک لے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیے۔ اور یوں دعا فرمائی: «الله حوالينا ولا علينا» ”اے اللہ ! ہمارے چاروں طرف بارش ہو اور ہم پر نہ ہو۔“ دو یا تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا : تو بادل مدینہ منورہ کی دائیں اور بائیں طرف چھٹنے لگے، ہمارے اطراف و اکناف بارش ہوتی رہی لیکن ہمارے پاس بالکل بند رہیں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنے نبی کی کرامت اور ان کی دعا کی قبولیت دکھاتا ہے۔