سود سے حاصل رقم کا حکم اور توبہ کی قبولیت

سوال

اگر میں کسی کو دو لاکھ روپے ایک مہینے کے لیے دیتی ہوں اور وہ مجھے تین لاکھ روپے واپس دیتے ہیں، تو اضافی ایک لاکھ روپے کا کیا حکم ہے؟ اگر میں اس رقم سے گولڈ یا گھر کا فرنیچر خریدوں تو کیا یہ بھی سود میں شمار ہوگا؟ کیونکہ سود تو کھانے پر ہوتا ہے اور ہم اسے کھا نہیں رہے۔ مزید یہ کہ اگر میں اس رقم سے صدقہ کروں اور توبہ کر لوں تو کیا وہ قبول ہوگی؟

جواب از فضیلۃالعالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

سود کی حقیقت

دو لاکھ روپے قرض دے کر تین لاکھ روپے وصول کرنا شرعی طور پر سود ہے، کیونکہ جو اضافی رقم (ایک لاکھ روپے) اصل رقم سے زائد لی جائے گی، وہ سود کے زمرے میں آتی ہے۔ سود لینا شرعی طور پر حرام ہے، چاہے اسے کھانے، خرچ کرنے یا کسی چیز میں لگانے کا ارادہ ہو۔

سود لینا ہی سود کھانے کے مترادف ہے: کرنسی نوٹ کھانے کے لیے استعمال نہیں ہوتے، لیکن یہ وہی ذریعہ ہیں جن سے کھانے یا دیگر ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔

حرام مال کا استعمال: اس رقم سے گولڈ یا فرنیچر خریدنا بھی سود کے استعمال میں شمار ہوگا، کیونکہ یہ مال غیر شرعی طریقے سے حاصل کیا گیا ہے۔

گناہ کے ساتھ توبہ کا مسئلہ

گناہ کو گناہ سمجھ کر جان بوجھ کر کرنا اور پھر توبہ کی امید رکھنا درست طرزِ عمل نہیں ہے۔ کیونکہ:

توبہ کی قبولیت: اللہ توبہ قبول کرتا ہے، لیکن گناہ پر اصرار کرنا اور مہلت کے ملنے کی گارنٹی نہ ہونا خطرناک ہے۔

مہلت نہ ملنے کا خدشہ: انسان کو زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، اس لیے سود جیسا بڑا گناہ جان بوجھ کر کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔

مشورہ

➊ دو لاکھ روپے دیں اور صرف دو لاکھ ہی واپس لیں، اضافی رقم لینے سے بچیں۔

➋ اپنی ضروریات کو محدود رکھیں اور سود سے محفوظ رہیں، کیونکہ سود میں ملوث ہونے سے مال اور آخرت دونوں متاثر ہوتے ہیں۔

➌ اگر گناہ ہو چکا ہو، تو فوراً سچی توبہ کریں اور آئندہ کے لیے سود سے بچنے کا عزم کریں۔

سود لینا اور کھانا دونوں حرام ہیں۔ ضرورت محدود رکھیں اور حلال ذرائع سے اپنی ضروریات پوری کریں۔ سود سے ہر صورت بچنے کی کوشش کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1