107- ربا (سود) کی تعریف
ربا کا لغوی معنی: زیادہ ہونا ہے، اسی معنی میں یہ فرمان الہی ہے:
«فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ» [الحج: 5]
”پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے۔“
یعنی بڑھ گئی۔
شرعی معنی: ان مخصوص اشیاء میں اضافہ کرنا جن میں باہمی تبادلہ کرتے وقت صاحب شرع نے اضافہ کرنے سے منع کیا ہو، یا قبضہ دینے میں تاخیر کرنا جو ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے واجب ہوتا ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 1/235]
108- آج کے سودی بنکوں کے متعلق رائے
سود کے متعلق تو معاملہ بالکل واضح ہے، اس کے وجود اور حرمت میں کوئی شک نہیں، اس پر قرآنی آیات، سنت اور اہل علم کا اجماع دلالت کرتا
ہے۔ سود کیرہ گناہ اور متفق علیہ حرام ہے، یہ بات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے:
«الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا»
[البقرة: 275]
”وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں، کھڑے نہیں ہوں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر خبطی بنا دیا ہو، یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔“
نیز فرمایا:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ» [البقرة: 278]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔“
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے، کھلانے، لکھنے اور اس پر گواہ بنے والوں پر لعنت کی ہے، اور فرمایا ہے کہ ”وہ سب برابر ہیں۔“
لہٰذا مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ سود سے بچے کوئی، سودی معاملہ کرے نہ اس میں شریک ہی ہو۔ کسی چیز کا لوگوں میں موجود ہونا اس کے حلال ہونے کی دلیل نہیں ہوتی، اچھائی بھی موجود ہے اور برائی بھی، بھلائی اختیار کرنا واجب ہے اور برائی سے بچنا ضروری ہے، برائی کا وجود اس کے حلال ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 246/19]