سوال
سندھ کے ایک مولانا صاحب راشد محمود سومرو نے اپنی تقریر میں درج ذیل باتیں کہی ہیں:
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سندھ کی طرف منہ کرکے فرمایا تھا کہ مجھے سندھ سے ٹھنڈی ہوائیں آرہی ہیں۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک چادروں میں سے ایک چادر سندھی اجرک جیسی تھی۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک سندھی وفد سے سندھی زبان میں گفتگو کی۔
اگر ان باتوں کی کوئی شرعی بنیاد یا روایت موجود ہو، چاہے ضعیف یا موضوع ہو، تو رہنمائی فرمائیں۔ اگر یہ باتیں غلط ہیں، تو ایسے شخص کو کیا نصیحت کی جائے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ ، فضیلۃ العالم عبد العزیز آزاد حفظہ اللہ
1. ان دعوؤں کی شرعی حیثیت:
- مرفوعاً (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب طور پر) کوئی ایسی روایت ثابت نہیں ہوتی جس میں ان باتوں کا ذکر ہو۔
- ان دعوؤں کی شرعی بنیاد نہیں ہے اور یہ محض سندھیوں کی حمایت میں کہی گئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
2. ایسی باتوں کی تردید:
- اگر کوئی شخص دین کے حوالے سے ایسی باتیں کہے جن کی بنیاد قرآن، حدیث یا سلف صالحین کی تعلیمات میں نہیں ملتی، تو یہ بدعت اور بہتان کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
- ایسی بے بنیاد باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے تقدس کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور دین میں جھوٹ شامل کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
3. نصیحت:
ایسے افراد کو قرآن اور سنت کی تعلیمات کی روشنی میں سمجھایا جائے کہ دین کے معاملات میں بغیر علم کے بات کرنا ممنوع ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ”
(صحیح البخاری: 1291)
’’جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘
عوام کو نصیحت:
عوام کو ان خطابات کے ذریعے گمراہ کرنے سے گریز کیا جائے اور اپنی تقریر کو مستند اسلامی تعلیمات تک محدود رکھا جائے۔