سوال:
سنت نمازوں کے بعد اجتماعی طور پر دعا کرنا بدعت ہے یا نہیں؟ براہ کرم شافی وضاحت فرمائیں۔
(اخوکم حنظلہ)
الجواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اجتماعی دعا کا مسئلہ:
سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا دین میں نئی ایجاد شدہ بدعت ہے، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین سے ثابت نہیں۔
بدعتی اعمال میں شامل ہونے کی وجوہات:
◈ یہ عمل دین میں نئی اختراع ہے، جو کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔
◈ یہ لوگوں میں رواج پا کر لازمی عمل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، جبکہ دین میں نئی چیزوں کو شامل کرنا بدعت ہے۔
◈ کچھ لوگ اسے دین کا لازمی حصہ سمجھنے لگے ہیں، حالانکہ یہ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
◈ نماز کے بعد اجتماعی دعا کی آواز بلند کرنا مسبوقین (وہ لوگ جو نماز میں تاخیر سے شامل ہوئے) کے لیے خلل کا باعث بنتا ہے۔
1۔ دعا عبادت ہے اور عبادات میں بدعات ممنوع ہیں
دعا عبادت کی جڑ ہے، اور عبادت کا اصول یہ ہے کہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہی ادا کیا جائے۔
📖 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ”
(جس نے کوئی ایسا عمل کیا، جس پر ہمارا حکم نہیں، وہ مردود ہے۔)
(صحیح مسلم: 1718)
لہٰذا، سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کو دین کا حصہ بنانا یا اسے لازم سمجھنا بدعت ہے، کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف ہے۔
2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد خود دعا کرتے تھے، لیکن اجتماعی دعا کا کوئی ثبوت نہیں۔
📖 صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو زیادہ دیر نہ بیٹھتے، صرف اتنا کہتے: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ”
(اے اللہ! تو ہی سلامتی ہے، اور سلامتی تجھ ہی سے ہے، اے جلال اور کرم والے، تو بابرکت ہے۔)
(صحیح مسلم: 591)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں کرتے تھے۔
3۔ صحابہ کرام کا عمل
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا کروائی، لیکن کبھی بھی اجتماعی دعا نہیں کروائی۔
📖 صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بارش کے لیے دعا کرتے اور کہتے:
"اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا”
(اے اللہ! ہم پہلے تیرے نبی کے وسیلے سے تجھ سے دعا مانگتے تھے، اور تو ہمیں بارش عطا فرماتا تھا، اب ہم تیرے نبی کے چچا کے ذریعے دعا کرتے ہیں، پس ہمیں بارش عطا فرما۔)
(صحیح بخاری: 1010)
یہاں بھی اجتماعی دعا کا ذکر نہیں، بلکہ یہ انفرادی دعا کا ثبوت ہے۔
4۔ سنت کے خلاف عمل کرنے کے نقصانات
سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کے کئی مفاسد ہیں:
◈ یہ عمل لوگوں کے لیے دین میں ایک نیا رواج پیدا کر سکتا ہے۔
◈ اونچی آواز میں دعا کرنے سے دوسروں کی نماز میں خلل پڑ سکتا ہے۔
◈ یہ عمل عوام میں اس طرح پھیل چکا ہے کہ اگر کوئی انفرادی دعا کرے تو اسے غلط سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اصل عمل یہی تھا۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نماز کے بعد اجتماعی دعا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور میں نہیں تھی، لہٰذا یہ ایک نئی بدعت ہے۔”
(زاد المعاد: 1/87)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جب کسی مستحب عمل کو لازم کر لیا جائے تو وہ منکر بن جاتا ہے۔”
(فتح الباری: 2/270)
5۔ علماء کرام کا فتویٰ
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا بدعت ہے، کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد اکیلے دعا کرتے تھے۔”
(فتاویٰ ابن باز: 1/241)
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"فرض نمازوں اور سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کا کوئی ثبوت نہیں، یہ ایک بدعت ہے۔”
(المنتقى من فتاوى الفوزان: 1/257)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں کرتے تھے، اور نہ ہی صحابہ کرام نے ایسا کیا، لہٰذا یہ ایک نئی بدعت ہے۔”
(مجموع الفتاوىٰ: 1/115)
نتیجہ
سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا بدعت ہے، کیونکہ:
◈ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور تابعین سے ثابت نہیں۔
◈ یہ دین میں ایک نئی اختراع ہے جو عبادات میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔
◈ اس سے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ یہ دین کا لازمی حصہ ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
◈ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے خلاف ہے کہ "ہر بدعت گمراہی ہے۔”
(صحیح مسلم: 867)
لہٰذا، اجتماعی دعا کی بجائے ہر شخص کو انفرادی طور پر دعا کرنی چاہیے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا طریقہ تھا۔
📖 وصلی اللہ علی نبینا محمد وآله وصحبه اجمعین۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔