سلام کے الفاظ اور اس کا طریقہ
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں جانب (اس طرح) سلام کہتے تھے :
السلام عليكم ورحمة الله ، السلام عليكم ورحمة الله
” حتی کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دیکھی جاسکتی تھی ۔“
[صحيح: أبو داود: 996 ، كتاب الصلاة: باب فى السلام ، مسلم: 117 ، أحمد: 444/1 ، ترمذي: 295 ، نسائي: 63/3 ، ابن ماجة: 914 ، بيهقي: 177/2 ، دار قطني: 356/1]
➋ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں حدیث مروی ہے۔
[أبو عوانة: 237/2 ، دارقطني: 356/1 ، الحلية لأبي نعيم: 176/8]
➌ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں دونوں سلاموں میں و رحمة الله کے بعد و بركاته کے الفاظ زائد ہیں ۔
[صحيح: صحيح أبو داود: 879 ، تمام المنة: ص/ 171 ، إرواء الغليل: 30/2 ، أبو داود: 997 ، كتاب الصلاة: باب فى السلام ، أحمد: 316/4 ، بيهقي: 178/2 ، شيخ البانيؒ كي تحقيق كے مطابق و بركاته كا لفظ پهلے سلام (يعني دائيں جانب) ميں ثابت هے جبكه دوسرے سلام (يعني بائيں جانب) ميں ثابت نهيں هے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس كي سند كو صحیح كها هے۔ بلوغ المرام: 301 ، شيخ محمد صجی حسن حلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على السيل الجرار: 473/1 ، شيخ حازم على قاضي نے بهي اسے صحيح كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 452/1]
احادیث میں سلام کے دو طریقے منقول ہیں:
➊ جیسا کہ ابھی گزرا ہے کہ دائیں اور بائیں دونوں جانب کچھ چہرہ پھیرتے ہوئے دونوں طرف سلام کہنا۔
➋ صرف ایک طرف سلام کہتے ہوئے ہلکا سا دائیں جانب چہرہ پھیرنا۔
مذکورہ دوسرا طریقہ اس حدیث میں ہے کہ جسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نو رکعت وتر کے بیان میں روایت کیا ہے ثم يسلم تسليمة يسمعنا ” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ سلام کہتے ہوئے ہمیں (آواز) سناتے ۔“
[مسلم: 746 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب جامع صلاة الليل ، أبو داود: 1342 ، ابن ماجة: 1191 ، أبو عوانة: 321/2 ، ابن خزيمة: 746 ، ابن حبان: 2442]
ایک اور روایت میں یہ لفظ ہیں:
كان يسلم فى الصلاة تسليمة واحدة تلقاء وجهه ثم يميل إلى الشق الأيمن شيئا
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سیدھا چہرے کے رخ ایک مرتبہ سلام کہتے پھر قدرے دائیں جانب مائل ہوتے ۔“
[ صحيح: صحيح ترمذي: 242 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى التسليم فى الصلاة ، صحيح ابن ماجة: 750 ، ترمذي: 296 ، ابن ماجة: 919 ، ابن خزيمة: 729 ، ابن حبان: 1995 ، دارقطني: 358/1 ، حاكم 231/1 ، بيهقي 179/2]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر صرف ایک طرف ہی سلام پھیر دیا جائے تو یہ بھی درست ہے۔
(ابن منذرؒ ) علماء کا اس مسئلے میں اجماع ہے کہ جس نے صرف ایک سلام پر ہی اکتفاء کر لیا اس کی نماز درست ہے ۔
[نيل الأوطار: 136/2]
(نوویؒ) قابل اعتبار علماء کا اجماع ہے کہ صرف ایک سلام ہی واجب ہے۔
[شرح مسلم: 310/3]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ، حضرت انس رضی اللہ عنہ ، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت حسن رضی الله عنہ ، امام ابن سیرین ، حضرت عمر بن عبد العزیز ، امام مالک ، امام اوزاعی اور ایک قول کے مطابق امام شافعی رحمہم اللہ اجمعین ایک سلام کی مشروعیت کے قائل ہیں ۔
[ نيل الأوطار: 136/2 ، تحفة الأحوزى: 201/2]
◈ سلام پھیرتے وقت اپنے ہاتھوں سے دائیں اور بائیں جانب اشارہ کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
علام تؤمون بأيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ إنما يكفى أحدكم أن يضع يده على فخذه ثم يسلم على أخيه من على يمينه و شماله
”تم اپنے ہاتھوں کو بدکے ہوئے گھوڑوں کی دموں کی مانند کیوں حرکت دیتے ہو؟ تم میں سے ایک کو تو اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے پھر اپنے دائیں اور بائیں جانب (بیٹھے ہوئے ) بھائی پر سلام کہے۔ “
[مسلم: 431 ، كتاب الصلاة: باب الأمر بالسكون فى الصلاة ، أحمد: 86/5 ، أبو داود: 998 ، نسائي: 61/3 ، أبو عوانة: 238/2 ، بيهقي: 178/2]