سحری کی ترغیب
❀ «عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : تسحروا، فان فى السحور بركة. »
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کھایا کرو، کیونکہ اس میں برکت ہے۔“ [صحيح بخاري 1943، صحيح مسلم 1095]
❀ «عن رجل من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، قال: دخل على النبى صلى الله عليه وسلم وهو يتسحر، فقال: إنها بركة أعطاكم الله إياها، قد تدعوه»
ایک صحابی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ سحری کر رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کرنا برکت ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کی ہے، لہذا اسے چھوڑا مت کرو۔“ [سنن نسائي 2162، مسند احمد 23113، صحيح]
❀ «عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ان الله وملائكته يصلون على المتسحرين.»
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”الله اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر دعائیں بھیجتے ہیں۔“ [صحيح ابن حبان 3467، حسن]
❀ «عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :تسحروا ولو بجرعة من ماء.»
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سحری کیا کرو، اگرچہ ایک گھونٹ پانی ہی سہی۔“ [صحيح ابن حبان 3472، حسن]
❀ «عن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : السحور أكله بركه، فلا تدعوه، ولو أن يجرع أحدكم جرعة من ماء، فإن الله عزوجل وملايكته يصلون على المتسحرين.»
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سحری کھانا برکت ہے، لہٰذا اسے چھوڑنا مت، گرچہ تم میں کا کوئی شخص پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر دعائیں بھیجتے ہیں۔“ [مسند احمد 11086، حسن]
ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق
❀ «عن عمرو بن العاص رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الكتاب، أكلة السحر. »
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان حد فاصل سحری کرنا ہے۔“ [صحيح مسلم 1096]
سحری مبارک کھانا ہے
❀ «عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: أرسل إلى عمر بن الخطاب رضى الله عنه يدعوني إلى السحور، وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم سماه الغداء المبارك.»
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سحری کے لیے بلوایا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مبارک کھانے کا نام دیا تھا۔ [معجم الأوسط للطبراني 501، حسن]
❀ «عن المقدام بن معد يكرب رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: عليكم بغداء السحور، فانهه هو الغداء المبارك. »
حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کو لازم کرلو، کیونکہ وہ مبارک کھانا ہے۔“ [سنن نسائي 2164، حسن]
سحری میں کھجور کھانے کی فضیلت
❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: نعم سحور المومن التمر»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی بہترین سحری کھجور ہے۔“ [سنن ابو داود 2345، حسن]
سحری میں تاخیر کرنے کی فضیلت
❀ «عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:” إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم، ثم قال: وكان رجلا اعمى لا ينادي حتى يقال له اصبحت اصبحت”.»
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال ہ رات میں اذان دیتے ہیں، (یعنی تہجد کی اذان)، تو کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دے دیں۔“ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ایک نابینا شخص تھے، اور وہ اذان نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ ان سے کہہ دیا جاتا کہ صبح ہو گئی، صبح ہو گئی۔ [صحيح بخاري 617، صحيح مسلم 1092]
❀ «عن زيد بن ثابت رضي الله عنه، قال: تسحرنا مع النبى صلى الله عليه وسلم ل، ثم قام إلى الصلاة، قلت: كم كان بين الأذان والسحور؟. قال: قدر خمسين آية »
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کی اور پھر نماز کے لیے اٹھ گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ دونوں کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا : پچاس آیت پڑھنے کے بقدر۔ [صحيح بخاري 1921، صحيح مسلم 1097]
نوٹ: اس سے متعلق اور بھی احادیث ہیں، جن سے معلوم ہو تا ہے کہ سحری کو اذان فجر تک موخر کرنا افضل ہے۔ اس لیے احتیاط کے نام پر چند منٹ پہلے ہی سحری کو ختم کر دینا مناسب نہیں ہے، کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
بعض روایتوں میں تذکرہ ہے کہ پہلی اذان حضرت بلال رضی اللہ عنہ دیتے اور دوسری حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما، جبکہ بعض دوسری روایتوں میں اس کے برعکس ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ ان دونوں کی باریاں بدلتی رہتی تھیں۔
اذان سنتے پر بھی ہاتھ میں موجود چیز کو کھانا، پینا
❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا سمع أحدكم النداء والإناء على يده، فلا يضعه حتى يقضي حاجته منه»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں کا کوئی شخص (فجر کی) اذان سنے، اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو، تو وہ برتن نہ رکھے یہاں تک کہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے۔“ [سنن ابو داود 2350]