سجدے اور تشہد سے اٹھنے کا مسنون طریقہ
رسول اللہ ﷺ جب دوسرے سجدے سے فارغ ہوتے تو بیٹھ جاتے اور پھر ہاتھوں کو زمین پر رکھتے اور ہاتھوں کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے۔
❀ سیدنا مالک بن حویرثؓ کا بیان ہے:
أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي فَإِذَا كَانَ فِي وِتْرِ مِنْ صَلَاتِهِ لَمْ يَنْهَضْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَاعِدًا
(صحيح البخاري ، ح : 823)
’’انھوں نے نبی ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا۔ جب آپ ﷺ طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک نہ اٹھتے جب تک سیدھے ہو کر اچھی طرح بیٹھ نہ لیتے۔“
دوسری روایت میں ہے:
وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ عَنِ السَّجْدَةِ الثَّانِيَةِ جَلَسَ وَاعْتَمَدَ عَلَى الْأَرْضِ ثُمَّ قَامَ
(صحيح البخاري ، ح : 824)
’’اور جب آپ ﷺ دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تو بیٹھ جاتے اور زمین پر ٹیک لگاتے پھر اٹھتے تھے۔“
❀ حافظ ابن حجر العسقلانیؒ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
والغرض منه هنا ذكر الإعتماد على الأرض عند القيام من السجود أو الجلوس.
(فتح الباري : 303/2)
”اور امام بخاریؒ کا اس حدیث کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سجود یا جلسہ سے کھڑے ہوتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیکا جائے ۔“
❀ جناب ابو قلابہ کہتے ہیں کہ سیدنا مالک بن حویرثؓ ہمارے درمیان میں تشریف فرما تھے تو انھوں نے فرمایا:کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ بیان کروں؟
چناں چہ انھوں نے نماز کے وقت کے بغیر نماز پڑھی (اور ہمیں دکھائی) پھر جب انھوں نے پہلی رکعت کے دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھایا تو سیدھے بیٹھ گئے پھر کھڑے ہوئے اور زمین پر ہاتھوں سے سہارا لیا۔
(صحیح ابن خزيمة ، ح : 687، وإسناده صحيح)
ان احادیث سے واضح ہوا کہ سجدے سے اٹھ کر جلسہ استراحت کیا جائے پھر دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹکا کر اگلی رکعت کے لیے کھڑا ہوا جائے ۔
◈ سجدے میں کیسے جایا جائے؟
اور اسی طرح جب سجدہ کے لیے جھکا جائے تو پہلے ہاتھوں کو زمین پر ٹکایا جائے اور پھر گھٹنے زمین پر رکھے جائیں اور پھر سجدہ کیا جائے اور یہی بات صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
❀ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَبْرُكْ كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيرُ وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ۔
(سنن أبي داؤد ، ح : 840 ، وقال الشيخ زبير علي زئي:إسناده حسن)
’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو ایسے نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے، چاہیے کہ اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے۔“
ہاتھوں کو زمین پر رکھنے سے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے ذریعے زمین کا سہارا لینا مراد ہے، اور اس کی وضاحت بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے، مثلاً :
سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُم: عَلَى الْجَبْهَةِ – وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَى أَنْفِهِ وَالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ۔
(صحيح البخاري ، ح: 812)
’’مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے: پیشانی پر ۔ اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا (کہ ناک اور پیشانی کی ہڈی ایک ہی ہے)، دونوں ہاتھوں ، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے پنجوں پر “
اس حدیث میں دونوں ہاتھوں پر سجدہ کرنے سے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں زمین پر رکھنی مراد ہیں۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ، وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى ركبتيه۔
(صحیح مسلم ، ح : 580)
’’نبی ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھتے ۔“
دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھنے سے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھنی مراد ہیں۔
جناب قتادہؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا انسؓ سے کہا:
أَكَانَتِ الْمُصَافَحَةُ فِي أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ؟
کیا نبی ﷺ کے صحابہ کرامؓ میں مصافحہ (کرنے کا دستور) تھا؟
انھوں نے فرمایا: (نعم)’’ ہاں ۔“
(صحیح البخاری: 6263)
❀ حافظ ابن حجر العسقلانیؒ فرماتے ہیں:
المصافحة: هي مفاعلة من الصفحة والمراد بها الإفضاء بصفحة اليد إلى صفحة اليد.
(فتح الباري: 54/11)
’’لفظ ’’مصافحة‘‘، ’’صفحة“ سے باب ’’مفاعلة“ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص کا اپنے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی (بطن کف) کو دوسرے شخص کے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی (بطن کف) سے ملانا۔“
معلوم ہوا کہ ہاتھ سے مراد ہاتھ کی ہتھیلی ہے۔ اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ سے مراد عموماً ہتھیلی ہی ہے اور لغت کی کتابوں مثلاً: المنجد وغیرہ میں بھی ہاتھ کا یہی مطلب لکھا ہوا ہے۔
(لغات الحدیث از علامہ وحید الزمان)
اس بحث سے یہ ثابت ہوا کہ سجدہ یا تشہد سے اٹھتے وقت دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر ٹیک کر اٹھا جائے ۔ اور ان احادیث صحیحہ میں ”عجن‘‘ کا لفظ موجود نہیں ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ سجدہ یا تشہد سے اٹھتے وقت ’’ آٹا گوندھنے والے کی طرح انگلیوں کو بند کر کے مکا بنا کر اور انگلیوں کی پشت کو زمین پر ٹکا کر اٹھا جائے ۔“ اور اس مسئلہ میں ان کی بنیادی دلیل یہ روایت ہے:
❀ جناب ازرق بن قیسؒ بیان کرتے ہیں:
رَأَيْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ وَهُوَ يُعْجِنُ فِي الصَّلَاةِ، يَعْتَمِدُ عَلَى يَدَيْهِ إِذَا قَامَ ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ يُعْجِنُ فِي الصَّلَاةِ ، يَعْنِي: يَعْتَمِدُ.
(المعجم الأوسط للطبراني ، ح : 4007)
’’میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کو دیکھا کہ وہ نماز میں (اپنے ہاتھوں کو) آٹا گوندھنے والے کی طرح (بند کر لیتے یعنی) اپنے ہاتھوں پر ٹیک لگاتے جب کھڑے ہوتے ۔“
لیکن یہ روایت صحیح نہیں، اس میں ہیثم بن علقمہ بن قیس بن ثعلبہ ہے۔ اس راوی کا کوئی اتا پتا نہیں کہ کون ہے؟ ہمیں تلاش بسیار کے باوجود اس کا ترجمہ نہیں ملا۔ اگر یہ ہیشم بن عمران الدمشقی ہے تو یہ مجہول ہے۔
ہمارے شیخ زبیر علی زئیؒ فرماتے ہیں:
آٹا گوندھنے کی طرح اٹھنے والی روایت کا ایک راوی ہیشم بن عمران الدمشقی ہے جس سے ثقہ راویوں کی ایک جماعت روایت کرتی ہے مگر اس کی توثیق سوائے ابن حبان کے کسی نے نہیں کی لہذا وہ مجہول الحال ہے۔ اصول حدیث کی رو سے مجہول الحال کی عدم متابعت والی روایت ضعیف ہی ہوتی ہے، لہذا یہ روایت ضعیف ہے اسے حسن قرار دینا غلط ہے۔
(فتاوی علمیه : 380/1۔ 381)