الامام الحافظ قوام السنہ ابو القاسم اسماعیل بن محمد الاصبہانی ؒ (م۵۳۵ھ) لکھتے ہیں:
بعض علمائے کرام کا کہنا ہے کہ بنیادی باتیں سات ہیں، جن کی وجہ سے فرقے گمراہی کا شکار ہوئے ہیں:
۱۔ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے مؤقف۔۲۔ صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے مؤقف ۔۳۔ افعالِ باری تعالیٰ کے بارے مؤقف۔۴۔ (گناہوں پر) وعید کے بارے میں مؤقف ۔۵۔ ایمان کے بارے میں مؤقف۔۶۔قرآن کریم کے بارے میں مؤقف اور ۔۷۔ امامت کے بارے میں مؤقف چنانچہ اہل تشبیہ ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں جہمی صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں ، قدری افعالِ باری تعالٰی کے بارے میں ، خارجی (گناہوں پر وعید ) کے بارے میں، مرجی ایمان کے بارے میں، معتزلی قرآن کے بارے میں اور رافضی امامت کے بارے میں گمراہ ہو گئے ہیں۔
اہل تشبیہ اللہ تعالیٰ کی مثال مانتے ہیں، جہمی اللہ تعالیٰ کے اسماء و صٖات کا انکار کرتے ہیں، قدری خیر و شر دونوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں مانتے، خارجی یہ دعویٰ کرتے ہیں مسلمان کبیرہ گناہ کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے، مرجی کہتے ہیں کہ عمل ایمان میں داخل نہیں اور کبیرہ گناہ کا مرتکب (عین) مؤمن ہوتا ہے، نیز ایمان میں کمی و بیشی نہیں ہوتی، رافضی اجسام کے دوبارہ زندہ ہونے کے منکر ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰ ؓ فوت نہیں ہوئے، وہ قیامت سے پہلے دنیا میں تشریف لائیں گے، جبکہ ناجی (نجات پانے والا) گروہ اہل سنت و الجماعت ، اصحاب الحدیث ہیں اور وہی سوادِ اعظم ہیں۔
اہل سنت و الجماعت کے ناجی گروہ ہونے پر دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی اس بات میں شک نہیں کرتا کہ ناجی گروہ اللہ کے دین پر کاربند ہو گا اور اللہ کا دین وہ ہے جو قرآن میں نازل ہوا اور سنتِ رسول نے اس کو توضیح و تشریح کی، اہل سنت کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ ایک ہے
‘‘لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیٌء وَّھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْر (الشوریٰ؛ ۱۱)
(اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سمیع و بصیر ہے)، موجودات میں سے کوئی بھی چیز کسی بھی طرح سے اس کے ساتھ شریک نہیں، کیونکہ اگر کوئی اس کا شریک ہو تو جس میں وہ شریک ہے، اس میں اس کا ہم مثل ہوگا، اللہ تعالیٰ کا صرف وہ نام رکھا جائے گا، جو اس نے خود اپنی کتاب میں اپنے لیے رکھا ہے یا اس کے رسول نے اس کا نام رکھا ہے اور امت نے اس پر اجماع کیا ہو(یعنی و متشابہات میں سے نہ ہو) یا امت نے اس نام پر اجماع کیا ہو، اسی طرح اللہ تعالیٰ کو صرف اسی صفت کے ساتھ موصوف کیا جائے گا جو اس نے خود یا اس کے رسول ﷺ نے بیان کی ہے یا اس پر مسلمانوں نے اجماع کیا ہو۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت اس کے علاوہ بیان کرے، وہ گمراہ ہے، ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قدرت والا، علم والا، زندہ ، سننے والا، دیکھنے والا، کلام کرنے والا، زندگی دینے والا اور موت دینے والا ہے، نیز اس کے لئے قدرت، علم ، حیات، سمع ، بصر، کلام ، ارادہ و غیر ہ صٖات ہیں، وہ ان تمام صفات کے ساتھ ہمیشہ سے موصوف ہے، اس کی کوئی صفت حادث نہیں ، تمام فرقے اگرچہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے دین پر کار بند ہیں، لیکن انہوں نے دین میں بدعات نکالی ہوئی ہیں اور وہ فتنہ و تاویل کی تلاش میں متشابہات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، جبکہ اہل سنت و الجماعت نے کتاب و سنت اور سلف صالحین کے اجماع سے تجاوز نہیں کیا، نہ ہی انہوں نے فتنہ و تاویل کی تلاش میں متشابہات کی پیروی کی ہے، انہوں نے تو صرف صحابہ و تابعین اور بعد والے مسلمانوں کے اجماع کی قولاً و فعلاً پیروی کی ہے۔
جن (عقائد) کے بار ے میں مسلمانوں کا اختلاف ہے اور ان کی کتاب و سنت میں کوئی اصل نہیں ، نہ ہی امت کا ان پر اجماع ہے ، وہ بدعت ہیں اور فرمانِ رسول ﷺ کے مصداق ہیں:
من أحدث فی أمرنا ما لیس منہ ، فھورد ‘‘
جس نے ہمارے امر (دین ) میں وہ چیز نکالی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے ’’ ۔
(صحیح بخاری : ۲۰۰، صحیح مسلم : ۱۷۱۸)
جن (عقائد) کے بارے میں مسلمانوں نے اختلاف کیا ہے (یعنی وہ متشابہات میں سے ہیں ) اور ان کی اصل کتاب و سنت میں موجود ہے، ان پر ایمان واجب ہے اور اس کی تاویل کو اللہ تعالٰٰ کی طرف لوٹا دیا جائے گا، اور اس کے بارے میں وہی کہا جائے گا، جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا
(آل عمران:۷)
(اس کی تاویل سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور علم میں رسوخ رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے) ، ہم کسی (متشابہ ) چیز کی تاویل میں نہیں پڑتے اور رہے وہ مسائل اجتہاد یہ اور فروعِ دینیہ جن میں مسلمانوں کا اختلاف ہو گیا ہے تو ان کی وجہ سے انسان بدعتی نہیں ہوتا، نہ ہی اس پر مذمت و وعید کی جائے گی۔
( ابو القاسم اسماعیل بن محمد الاصبہانی ؒ (م۵۳۵ھ) کا شمار اہلسنت کے عظیم آئمہ میں ہوتا ہے، آپ کے یہ فرامین الحجۃ فی بیان المحجۃ:۲؍۴۰۹۔۴۱۱ سے لئے گئے ہیں)