زیوارت پر زکوٰۃ
فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال :

کیا اس سونے پر زکوٰۃ فرض ہے جسے عورت صرف اپنی زیب و زینت اور استعمال کے لئے سنبھال رکھتی ہے اور وہ تجارتی مقاصد کے لئے نہیں ہے ؟

جواب :

زیورات اگر تجارتی مقاصد کے لئے نہ ہوں تو ان پر وجوب زکوٰۃ کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اگرچہ ایسے زیورات محض زیب و زینت کے لئے ہوں، پھر بھی ان پر زکوۃ واجب ہے۔ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے۔ جس کا وزن ٹھیک بانوے گرام (ساڑھے سات تولے) ہے اگر زیور (سونا) اس سے کم مقدار میں ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، ہاں زیورات اگر تجارت کے لئے ہوں تو ان میں مطلق طور پر زکوٰۃ فرض ہے، بشرطیکہ ان کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے۔ چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے، جس کی مقدار چھپن سعودی ریال ہے۔ اگر چاندی کے زیورات اس سے کم ہوں تو ان میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ تجارت کے لئے ہوں اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے تو ان میں مطلق طور پر زکوٰۃ فرض ہے۔
استعمال کے لئے تیار کئے گئے سونے اور چاندی کے زیورات پر زکوٰۃ فرض ہونے کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمومی ارشار ہے :
ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدى زكاتها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فيكوي بها جنبه وجبينهٔ و ظهرهٔ [رواه مسلم كتاب الزكاة حديث : 2]
”سونے اور چاندی کا کوئی بھی مالک جو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس حالت میں ہو گا کہ اس کے لئے آگ کی چوڑی پتریاں بچھائی جائیں گی، پھر ان سے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ پر داغ دئیے جائیں گے۔ “
نیز عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا !
”کیا تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو ؟“ اس نے جواباً عرض کیا : ”نہیں “ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ايسرك أن يسورك الله بهما يوم القيامة سوارين من نار، فألقتهما وقالت : هما لله ورسوله [سنن أبى داؤد و سنن نسائى بإسناد حسن]
”کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ان کے بدلے آگ کے دو کنگن پہنائے ؟“ اس عورت نے وہ دونوں کنگن پھینک دئیے اور بولی: کہ یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہیں۔ “
نیز ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت کہ وہ سونے کی پازیب پہنا کرتی تھی، اس نے دریافت کیا یا رسول اللہ ! کیا یہ کنز (خزانہ) ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما بلغ ان تؤدي زكاته فزكي فليس بكنز [رواه أبوداؤد و مالك و الدار قطني و صحيحه الحاكم]
”اگر یہ نصاب کو پہنچ جائے اور ان کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے تو کنز نہیں ہے۔ “
آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ زیورات پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے :
ليسي فى الحلي زكاة
”زیورات میں زکوٰۃ نہیں“
تو یہ ضعیف ہے اس کا اصل اور صحیح احادیث سے معارضہ نہیں کیا جا سکتا۔ والله ولي التوفيق

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے