اگر زیادہ جنازے اکٹھے ہو جائیں
خواہ مردوں اور عورتوں کے ہوں ان سب پر ایک ہی نماز پڑھی جا سکتی ہے نیز مردوں کے جنازوں کو امام کی جانب اور عورتوں کے جنازوں کو قبلہ کی جانب رکھنا بہتر ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
انه صلى على تسع جنائز جميعا فجعل الرجال يلون الإمام والنساء يلين القبلة
”انہوں نے نو (9) جنازوں کی اکٹھی نماز جنازہ پڑھی اور مردوں کو امام کے قریب اور عورتوں کو قبلے کے قریب کر لیا۔“
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/ 132 ، عبدالرزاق: 6337 ، نسائي: 280/1 ، دارقطني: 194 ، بيهقي: 33/4 ، حافظ ابن حجرؒ نے اسے صحیح كها هے۔ تلخيص الحبير: 276/5]
حارث بن نوفل کے آزاد کردہ غلام عمار سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ نماز جنازہ کی ایسی ہی صورت کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ :
هذه السنة
”یہ سنت طریقہ ہے ۔ “
[صحيح: أحكام الجنائز: ص / 133 ، أبو داود: 3193 ، كتاب الجنائز: باب إذا حضرت جنائز رجال ونساء من يقدم ، بيهقى: 33/4 ، نسائي: 280/1]
◈ یہ بھی یاد رہے کہ زیادہ جنازوں کی الگ الگ نماز جنازہ پڑھنا بھی درست ہے کیونکہ یہی اصل ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کے جنازوں میں ایسا ہی کیا ۔
[أحكام الجنائز للالباني: ص/133]