زکوۃ کے مصارف کا بیان
یہ آٹھ ہیں جیسا کہ آیت میں مذکور ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
إنما الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [التوبة: 60]
”صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں ، اور مسکینوں کے لیے ، اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے ، اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنا مقصود ہو ، اور گردن چھڑانے میں ، قرض داروں کے لیے ، اور اللہ کی راہ میں اور راہر و مسافروں کے لیے ، فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ علم وحکمت والا ہے۔“
فقراء و مساکین:
ان دونوں کے ایک دوسرے کے بے حد قریب ہونے کی وجہ سے بعض اوقات فقیر کو مسکین اور مسکین کو فقیر بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی الگ الگ تعریف میں کافی اختلاف ہے۔ تاہم دونوں میں یہ بات تو قطعی ہے کہ جو حاجت مند ہوں اور اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ رقم و وسائل سے محروم ہوں انہیں فقراء و مساکین کہا جاتا ہے۔
(جمہور ، شافعیؒ) مسکین وہ ہے جس کے پاس مال ہو لیکن اتنا نہ ہو جو اسے کفایت کر سکے اور فقیر وہ ہے جس کے پاس اصلا کچھ بھی نہ ہو ، لٰہذا فقیر مسکین سے زیادہ بری حالت میں ہوا۔
(طبریؒ) فقیر ایسا محتاج ہے جو سوال نہ کرتا ہو اور مسکین ایسا ضرورت مند ہے جو سوال کرتا ہو۔
(ابو حنیفہؒ) مسکین فقیر سے زیادہ بری حالت والا شخص ہے۔
(مالکؒ) یہ دونوں برابر ہیں ۔
[نيل الأوطار: 118/3 ، تفسير طبري: 308/14 ، فتح البارى: 105/4 ، الأم: 92/4 ، المجموع: 131/6 ، المبسوط: 8/3 ، بدائع الصنائع: 45/2 ، الإختيار: 118/1 ، الإنصاف فى معرفة الراجح من الخلاف: 217/3]
ایک حدیث میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسکین کی تعریف ملتی ہے اور وہ یہ ہے ۔
المسكين الذى لا يجد غنى يكفيه ولا يـفـطـن لـه فيـتـصـدق عليه ولا يقوم فيسئال الناس
”مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے بے نیاز کر دے ، نہ وہ ایسی مسکنت اپنے اوپر طاری رکھے کہ لوگ غریب اور مستحق سمجھ کر اس پر صدقہ کریں اور نہ خود لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے ۔“
[بخاري: 1476 ، 1479 ، كتاب الزكاة: باب قول الله تعالى لا يسئالون الناس الحافا ، مسلم: 1039 ، أبو داود: 1631 ، نسائى: 86/5 ، مؤطا: 923/2 ، أحمد: 260/2 ، حميدي: 1059 ، بيهقي: 11/7]
معلوم ہوا کہ جمہور کا موقف حدیث کے زیادہ قریب ہے نیز فقیر وہ ہے جو غنی نہ ہو جیسا کہ لغت کی کتابوں میں یہ بات صراحت کے ساتھ موجود ہے۔
[مختار الصحاح: ص/213 ، القاموس المحيط: ص/588 ، لسان العرب: 299/10]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنی ایسے شخص کو قرار دیا ہے جس کے پاس پچاس درہم یا اس کے برابر سونا ہو۔
[صحيح: صحيح أبو داود: 1432 ، كتاب الزكاة: باب من يعطى من الصدقة وحد الغنى ، أبو داود: 1626 ، ترمذي: 650 ، ابن ماجة: 1840 ، نسائي: 2593 ، أحمد: 441/1 ، حاكم: 307/1]
عالمين:
ان سے مراد ایسے سرکاری اہل کار ہیں جو زکوٰۃ و صدقات کی وصولی و تقسیم اور اس کے حساب و کتاب پر مامور ہوں۔
عبد الله بن سعد مالکیؒ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صدقہ اکٹھا کرنے کے لیے عامل مقرر کیا۔ جب میں نے اس کام سے فارغ ہو کر زکوٰۃ و صدقات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا تو انہوں نے (کسی کو) مجھے تنخواہ دینے کے لیے کہا۔ میں نے کہا میں نے تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے کام کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جو تمہیں دیا جاتا ہے اسے لے لو بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عامل مقرر کیا تھا اور میں نے بھی تمہارے قول کی طرح کہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمايا:
إذا أعطيت شيئا من غير أن تسئال فكل و تصدق
”جب تمہیں بغیر مانگے کوئی چیز دی جائے تو اسے کھاؤ اور صدقہ کرو۔“
[بخارى: 7163 ، كتاب الأحكام: باب رزق الحكام والعاملين ، مسلم: 1045 ، أبو داود: 1647 ، نسائي: 102/5]
معلوم ہوا کہ عامل کو وصولی زکوٰۃ کے عوض اجرت و معاوضہ دیا جا سکتا ہے اور عامل کو چاہیے کہ اسے قبول کر لے۔
مؤلفتہ قلوبھم:
اس سے مراد ایک تو وہ کافر ہے جو کچھ کچھ اسلام کی طرف مائل ہو اور اس کی امداد کرنے پر امید ہو کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائے گا۔ دوسرے وہ نو مسلم افراد ہیں جن کو اسلام پر مضبوطی سے قائم رکھنے کے لیے امداد دینے کی ضرورت ہو۔ تیسرے وہ افراد بھی ہیں جن کو امداد دینے کی صورت میں یہ امید ہو کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکیں گے۔ یہ اور اس طرح کی دیگر صورتیں تالیف قلب کی ہیں جن پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جا سکتی ہے چاہے مذکورہ افراد مالدار ہی کیوں نہ ہوں ۔
[تفسير ابن كثير: 365/2 ، تفسير أحسن البيان: ص/529 ، تفسير طبري: 313/1 ، فقه الزكاة للقرضاوى: 595/2]
(شافعیؒ) کافر کو تالیف قلب کے لیے زکوٰۃ کا مال نہیں دیا جا سکتا۔
(ابو حنیفہؒ) یہ مصرف ہی ختم ہو چکا ہے۔
(احمدؒ) یہ حکم آج بھی باقی ہے ۔
[المغنى: 666/2 ، المجموع: 197/6 ، تفسير قرطبي: 179/8 ، الأم: 61/2 ، البحر الزخار: 179/2]
(شوکانیؒ) ظاہر یہی ہے کہ جب تالیف قلب کے لیے خرچ کی ضرورت پیش آئے تو زکوٰۃ کے مال سے خرچ کرنا جائز ہے۔
[نيل الأوطار: 128/3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی متعدد احادیث میں تالیف قلب کے لیے خرچ کرنا ثابت ہے۔
[أحمد: 108/3 ، مسلم: 2312 ، عن انس ، بخاري: 923 ، أحمد: 69/5 ، عن عمرو بن تغلب]
في الرقاب:
”گردنیں آزاد کرنے میں ۔ “ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ زکوٰۃ کے مال سے غلام آزاد کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
[بخارى تعليقا: 92/4 ، أبو عبيد فى كتاب الأموال: 1782 ، الدر المنثور للسيوطي: 451/3]
فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ کیا صرف مکاتب غلام آزاد کرائے جا سکتے ہیں یا غیر مکاتب بھی۔
(احناف ، شافعیہ) اس سے صرف مکاتب غلام ہی مراد ہیں۔
(مالکؒ، احمدؒ ، بخاریؒ) یہ آیت مکاتب و غیر مکاتب تمام قسم کے غلاموں کو شامل ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 129/3]
(راجح) دوسرا قول راجح ہے جیسا کہ امام شوکانیؒ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔
[أيضا ، السيل الجرار: 58/2]
والغارمين:
ان میں ایک تو ایسا شخص شامل ہے جو اپنے اہل وعیال کا خرچ پورا کرنے کے لیے قرض لے کر مقروض ہو گیا ہو۔ دوسرا ایسا شخص جس نے کسی کی ضمانت دی ہو پھر وہ اس کا ذمہ دار قرار پایا ہو ، یا ایسا شخص جس کا کاروبار خسارے کا شکار ہو گیا ہو اور اس وجہ سے وہ مقروض ہو گیا ہو۔ ان تمام افراد کی مال زکوٰۃ سے امداد کی جا سکتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام قسم کے مقروضوں کو سوال کا مستحق قرار دیا ہے۔
[مسلم: 1044 ، كتاب الزكاة: باب من تحل له المسألة ، أبو داود: 1640 ، نسائي: 89/5 ، أحمد: 60/5 ، دارمي: 396/1 ، ابن أبى شيبة: 58/4 ، شرح معاني الآثار: 17/2 ، دارقطني: 120/2 ، بيهقي: 73/6]
فی سبیل الله:
اس مصرف میں صرف ایسے تمام افراد شامل ہیں جو دنیا میں غلبہ اسلام کے لیے کسی بھی طریقے سے جہاد و قتال کے عمل میں مصروف ہیں۔
(عمر رضی اللہ عنہ ) فی سبیل اللہ سے مراد جہاد اور مجاہد ہیں ۔
[مؤطا: ص/174]
(ابن عباس رضی اللہ عنہما ) اس ضمن میں مجاہدین کو دیا جائے ۔
[نيل الأوطار: 131/3]
(شوکانیؒ) اس سے مراد اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے والے ہیں۔
[أيضا]
(قرطبیؒ) فی سبیل اللہ سے مراد ایسے لوگوں کے لیے صرف کرنا ہے جو کفار سے لڑنے والے ہیں ۔
[تفسير قرطبي: 185/8]
(طبریؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[تفسير طبري: 165/6]
(ابن کثیرؒ ) فی سبیل اللہ میں وہ غازی بھی شامل ہیں جن کا دیوان میں حصہ نہیں ہے۔
[تفسير ابن كثير: 403/3]
(ابن حزمؒ ) یقیناََ فی سبیل اللہ سے مراد صرف جہاد ہے۔
[المحلى بالآثار: 275/4]
(ابن قدامہؒ) فی سبیل اللہ سے مراد وہ غازی ہیں جن کے حکومتی وظائف نہ ہوں ۔
[العمدة: ص / 113]
(مالکؒ ، ابو حنیفہؒ) اس سے مراد جہاد اور رباط کی جگہیں ہیں ۔
[بداية المجتهد: 325/1]
(شافعیہ ، حنابلہؒ ) اس سے مراد ایسے قتال کرنے والے لوگ ہیں جن کے پاس اس قدر مال نہ ہو جو انہیں کافی ہو سکے نیز
سرحدوں میں مورچہ زن ہونا بھی اس میں شامل ہے۔
[فقه الزكاة: 641/1]
(ابو عبیدؒ ) فی سبیل اللہ کی تفسیر غازی و مجاہد ہے۔
[كتاب الأموال: 611/1]
(یوسف قرضاوی) آیت مصارف میں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے۔
[فقه الزكاة: 657/2]
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں ۔
[أيضا]
(سعودی مجلس افتاء) فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے۔
[أبحاث هيئة كبار العلماء: 61/1 – 97]
ابن سبیل:
اس سے مراد مسافر ہے۔ یعنی اگر کوئی مسافر دوران سفر امداد کا مستحق ہو گیا ہو تو خواہ وہ اپنے گھر یا وطن میں صاحب حیثیت ہی کیوں نہ ہو ، زکوٰۃ کی رقم سے اس کی امداد کی جا سکتی ہے۔
[نيل الأوطار: 131/3 – 132 ، السيل الجرار: 60/2 ، فقه الزكاة: 670/2]