زلزلے کی مذہبی تشریح اور سائنسی وضاحت کا امتزاج

سوال:

جدت پسندوں کی طرف سے مذہبی ذہن پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مظاہر فطرت کو الوہی تقدیس کا حصہ سمجھنے کے باوجود انہیں میکانکی طریقے سے سمجھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اہلِ مذہب مظاہر فطرت کو خدا کی نشانیاں ماننے کے ساتھ ساتھ ان کی سائنسی تفہیم کو قبول کرتے ہوئے انہیں انسان کے تصرف میں لانے کے عمل کو بھی درست سمجھ سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص زلزلے کو خدا کے قہر کا مظہر بھی سمجھتا ہو اور ساتھ ہی ٹیکٹانک پلیٹوں کے میکانزم پر بھی یقین رکھتا ہو، تو ان دونوں تصورات کو کیسے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے؟

زلزلے کے مذہبی اور سائنسی پہلو

زلزلے کے حوالے سے “کیوں” اور “کیسے” کا سوال اکثر مذہبی اور سائنسی نقطہ نظر رکھنے والے افراد کے درمیان الجھن کا باعث بنتا ہے۔

  • “کیوں” کا سوال: زلزلے کی مقصدیت سے متعلق ہے، یعنی یہ کیوں آتا ہے اور اس کا انسان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
  • “کیسے” کا سوال: زلزلے کے وقوع پذیر ہونے کے سائنسی عمل یا پراسس سے متعلق ہے، مثلاً ٹیکٹانک پلیٹوں کی حرکت۔

مذہبی نقطہ نظر:

جب اہلِ مذہب کہتے ہیں کہ زلزلہ خدا کی طرف سے تنبیہ یا عذاب ہے، تو وہ زلزلے کی مقصدیت کو بیان کر رہے ہوتے ہیں۔

سائنسی نقطہ نظر:

جب اہلِ سائنس زلزلے کو ٹیکٹانک پلیٹوں کی حرکت سے جوڑتے ہیں، تو وہ اس کے پراسس کی وضاحت کر رہے ہوتے ہیں، نہ کہ اس کی مقصدیت۔

فرق کی وضاحت:

زلزلے کی سائنسی تفہیم ایک میکانکی بیان ہے، جبکہ مذہبی وضاحت اس کی معنویت یا مابعدالطبیعیاتی تشریح پر زور دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، مسلمان سانس لینے کے عمل کو خدا کی نعمت مانتے ہیں، جبکہ سائنسدان اسے گیسوں کی آمد و رفت کا عمل قرار دیتے ہیں۔ دونوں بیانات اپنے اپنے دائرے میں درست ہیں۔

میکانکی اور الوہی تشریحات کا امتزاج

مظاہر فطرت کے دو پہلو ہو سکتے ہیں:

  • میکانکی پہلو: یہ پہلو مظاہر فطرت کی سائنسی وضاحت دیتا ہے، جیسے زلزلے کا ٹیکٹانک پلیٹوں کی حرکت سے آنا۔ یہ پہلو پیش گوئی (prediction) اور سبب و نتیجہ (causation) کے عمل میں استعمال ہوتا ہے۔
  • الوہی پہلو: مظاہر فطرت کو خدا کی نشانیوں کے طور پر دیکھنا۔ اس پہلو کا اصل مقصد انسان کو یاد دہانی کرانا اور اخلاقی سبق دینا ہے۔ یہ پہلو پیش گوئی کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر کے لیے ہے۔

زلزلہ اور عملی اقدامات

جدید دنیا میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مسلمان زلزلے کو خدا کی تنبیہ سمجھ کر عمارتوں کی مضبوطی جیسے عملی اقدامات نہیں کرتے، جبکہ جاپان جیسے ممالک نے زلزلے سے نمٹنے کے لیے مضبوط تعمیرات کی ہیں۔

اس اعتراض کا جائزہ:

  • اگر یہ اصول زلزلے تک محدود نہ رہے تو بیماریوں کے معاملے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ دعا کرنا بے فائدہ ہے اور علاج ہی کافی ہے۔
  • حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی بیماری کو خدا کی آزمائش ماننے کے باوجود علاج کرنا نہیں چھوڑا۔ اسی طرح زلزلے کو خدا کی نشانی ماننے کے باوجود اس کے خطرے سے بچنے کے لیے عملی اقدامات کرنا مذہب کے خلاف نہیں۔

زلزلہ: عذاب، آزمائش یا رحمت؟

یہ ضروری نہیں کہ ہر قدرتی آفت کو خدا کا عذاب سمجھا جائے۔

  • کسی کے لیے عذاب۔
  • کسی کے لیے آزمائش۔
  • کسی کے لیے رحمت۔

حدیث مبارکہ:

ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے عمومی عذاب کے بارے میں سوال کیا کہ کیا نیک لوگوں کی موجودگی میں بھی ایسا ہو سکتا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“ہاں، جب خباثتوں کی کثرت ہو جائے گی تو ایسا ہی ہوگا۔”
(صحیح بخاری)

خلاصہ

  • زلزلے کی سائنسی وضاحت اہلِ مذہب کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔
  • سائنسی تفہیم مظاہر فطرت کے میکانکی پہلو کو بیان کرتی ہے، جو ایک عارضی صداقت ہے۔
  • مذہب ان مظاہر کی معنویت پر زور دیتا ہے، جو انسان کو خدا کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
  • اس لیے زلزلے کو خدا کی تنبیہ اور ایک میکانکی عمل دونوں کے طور پر سمجھنا ممکن ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے