485- شریعت اسلامیہ میں بار بار جرم کرنے کا مفہوم
بلاشبہ نافرمانی کا تکرار اور بار بار گناہ کا ارتکا ب کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم کو سنجیدگی سے نہ لینے، محرمات کو ہلکا سمجھنے، اللہ تعالیٰ کے خوف کی کمی اور اس کے دیکھنے اور ہر وقت نگرانی کرنے کو ذہن میں نہ رکھنے پر دلالت کرتا ہے۔ اس سے ایمان کم ہو جاتا اور ضمیر میں گناہ محسوس کرنے کا احساس کمزور ہو جاتا ہے۔ اس کا علاج حسب ذیل ہے:
(1) اہل علم و دین اور مبلغین کے وعظ ونصیحت پر مشتمل خطابات سننا، خصوصاً ان علما کی تقاریر سننا جو مخلص ہو کر وعظ ونصیحت کریں۔
(2) قرآن کریم کی بکثرت اور تدبر کے ساتھ تلاوت کرنا، حضور قلب کے ساتھ دنیا و آخرت میں عذاب اور سزا کی یاد دہانی کروانے والی آیات پر غور و فکر کرنا اور جو کہا یا سنا جائے اس میں تامل کرنا۔
(3) تمام حالات میں اللہ تعالیٰ کے دیکھنے اور نگرانی کرنے کو ذہن میں ہر وقت حاضر رکھنا، یہ دل میں اس کی تعظیم اور اس کے اوامر و نواہی کی عظمت کا احساس پیدا کرنے کا موثر ترین ذریعہ ہے۔
(4) جب اس سے گناہ سرزد ہو جائے، اللہ کی طرف دوڑ کر آئے، پشیمان ہو، توبہ و استغفار کرے، اللہ کی طرف رجوع کرنے اور اس کو ناراض کرنے والے ہر کام سے دور رہنے کا عزم کرے۔ یہ اور ان جیسے دیگر اقدامات توبہ اور حرام کاموں سے دوری کا سبب بنتے ہیں۔
[ابن جبرين الله: 15/6]
——————
486- سزا سخت کرنے میں جرم کے تکرار کا کردار
تکرار محرمات کو حقیر سمجھنے، اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنے، اس کی نگرانی کا خیال نہ رکھنے اور کوڑوں یا ہلکی سی قید کو خاطر میں نہ لانے پر دلالت کرتا ہے، لہٰذا سزاؤں میں سختی کی ضرورت پیش آتی ہے جو ان جرائم سے روک دے اور ان کا عادی نہ بننے دے، یا اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے حصول کے لیے، چاہے یہ سختی قتل تک ہی لے جائے، جس طرح اس شخص نے چار مرتبہ شراب پینے کا تکرار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر وہ پیے تو اس کو کوڑے مارو، پھر اگر چوتھی مرتبہ پیے تو اس کو قتل کر دو۔“ [سنن النسائي، رقم الحديث 5661]
یہ صحیح اور متواتر حدیث ہے، اسی طرح جو بار بار نشہ آور اشیا رائج کرتا ہے تو وہ اس لائق ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے۔
ایسے ہی شادی شدہ زانی، کسی آزاد مسلمان کو ناحق قتل کر نے والا یا بار بار مرتد ہونے والا، اللہ، اس کے رسول، اس کے دین، اس کی کتاب اور اس کی شریعت کو گالی دینے والا (یہ سب سختی کے مستحق ہیں) وغیرہ وغیرہ۔ واللہ اعلم
[ابن جبرين رحمہ اللہ: 16/10]
——————
متفرق مسائل
487- خنزیر فروخت کرنے کا حکم
خنریر (سور) کتاب و سنت اور اجماع کے ساتھ حرام ہے اور اس سے کسی بھی صورت میں کمائی جانے والی روزی حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ جب کوئی چیز حرام کرتے ہیں تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتے ہیں، اس کا کام کر کے روزی کمانا، اسی میں شامل ہے۔
[اللجنة الدائمة: 4358]
——————
488- کھانے اور دوا میں الکحل سے مرکب سرکہ استعمال کرنا
الکحل سے ملا ہوا سرکہ استعمال کرنا ناجائز ہے، کیونکہ اس کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کر دیتی ہے۔ نشہ آور الکحل شراب ہے اور اللہ تعالیٰ نے شراب سے بچنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا نشہ آور الکحل سے علاج کرنا جائز نہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب دوا بنانے کے لیے شراب کے متعلق پوچھا گیا۔ [صحيح مسلم 1984/12]
تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بیماری ہے دوا نہیں، اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا قول ہے:
”جس کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کر دے اس کا تھوڑی مقدار میں استعمال بھی حرام ہے۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3681 سنن الترمذي، رقم الحديث 1865 سنن ابن ماجه، رقم الحديث 3393]
[اللجنة الدائمة: 18644]
——————
489- مسلمان کا ذبیحہ
سوال: بازاروں میں متداول مسلمانوں کے ذبیجوں کا اور ان جانوروں کا حکم جنھیں وہ خود ذبح کرتے ہیں اور جو گوشت ان کے پاس ذبح شدہ آتا ہے؟
جواب: مسلمان کے متعلق اصل یہ ہے کہ اس کے متعلق ہر معاملے میں خیر کا گمان ہی رکھا جائے، یہاں تک کہ معاملہ اس کے خلاف ظاہر ہو جائے، اس بنا پر ان کے ذبیحے بسم اللہ پڑھنے اور ذبح کی کیفیت کے متعلق شرعی احکام کے موافق ہی ہونے پر محمول کیے جائیں گے، لہٰذا اس کا ذبیحہ کھایا جائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ایک قوم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک قوم ہمارے پاس گو شت لے کر آتی ہے اور ہم نہیں جانتے کہ وہ ان پر اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم خود اس پر اللہ کا نام لے لو اور اسے کھا لو۔“
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: ”وہ نئے نئے مسلمان تھے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5507]
[اللجنة الدائمة: 949]
——————
490- بت پرست ممالک سے درآمدہ گوشت کا حکم
اگر گوشت بت پرست یا کیمیونسٹ ممالک سے آئے تو اسے کھانا حلال نہیں، کیونکہ ان کے ذبیحے حرام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اہل کتاب کا، جن سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں، کھانا حلال کیا ہے:
«الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ» [المائدة: 5]
”آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے جنھیں کتاب دی گئی۔“
یہ اس وقت ہے جب مسلمان کو علم نہ ہو کہ یہ غیر اسلامی طریقے کے مطابق ذبح کیا گیا ہے، جیسے: گلا گھونٹ کر مارنا یا بجلی کے جھٹکے سے مارنا وغیرہ۔
اگر اس کا علم ہو جائے تب ان کا ذبیحہ بھی جائز نہیں، کیونکہ فرمان الہی ہے:
«حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ» [المائدة: 3]
”تم پر مردار حرام کیا گیا ہے اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے اور گلا گھٹنے والا جانور اور جسے چوٹ لگی ہو اور گرنے والا اور جسے سینگ لگا ہو اور جسے درندے نے کھایا ہو، مگر جو تم ذبح کر لو۔“
[ابن باز: مجموع الفتاوى والمقالات: 32/23]
——————
491- تصویروں پر مشتمل اخبارات و رسائل خریدنا
وہ اخبار اور رسائل جن میں اہم خبریں اور مفید علمی مسائل ہوں اور ان میں ذی روح اشیا کی تصویریں بھی ہوں تو انہیں خریدنا اور ان میں موجود مفید علم اور اہم خبروں سے مستفید ہونا جائز ہے، کیونکہ ان میں مقصود علم اور خبریں ہیں تصویریں تابع ہیں، اور حکم اصل مقصود کے تابع ہوتا ہے، تابع کے ساتھ نہیں۔ ان میں موجود تصاویر کسی بھی طریقے سے اچھی طرح مٹا کر یا چھپا کر ان کے خط و خال چھپ جائیں، انہیں نماز گاہ میں رکھنا جائز ہے تاکہ ان میں موجود مضامین سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
[اللجنة الدائمة: 3374]
——————
492- ویڈیو بنانے کا حکم
ویڈیو بنانا بنوانے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس چیز کی ویڈیو بنوانا چاہتا ہے۔ آج کل جو لوگ شادی کے دنوں میں محفل نکاح وغیرہ کی مووی بنواتے ہیں، یہ بہت بڑی غلطی اور جرم عظیم ہے کیونکہ اس فلم کو تمام لوگ دیکھیں گے۔ اس میں بے حجاب اور آراستہ خواتین بھی ہوتی ہیں۔ عورتیں ایک دوسری کے ساتھ گفتگو اور ہنسی مذاق بھی کرتی ہیں، جس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے جو بلا اشکال حرام ہے۔ بعض اوقات کسی چیز کو بنانے یا تیار کرنے کے لیے یا اس کی ٹریننگ دینے کے لیے سائنسی علمی مواد کی ویڈیو بنائی جاتی ہے، تاہم وہ اہم علمی مواد ہو یا کوئی لیکچر ہو، جس میں گفتگو کرنے والا لوگوں کے ساتھ گفتگو کرتا ہے، ان کو وعظ و ارشاد کرتا ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ قصہ مختصر یہ اس چیز کے حسب حال ہے جس کی ویڈیو بنائی جائے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 17/36]
——————
493- حنوط شدہ جانور رکھنے کا حکم
حنوط شدہ جانور رکھنا منع کردہ تصویر کے حکم میں نہیں، کیونکہ آپ نے وہ چیز رکھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ کیا وہ اللہ کی مخلوق نہیں؟ لیکن ایک بات غور طلب ہے کہ اگر یہ جانور ایسا ہے جس کا گوشت کھایا نہیں جاتا تو وہ پلید ہے، اسے رکھنا جائز نہیں، لیکن اگر وہ ایسا جانور ہو جس کا گوشت کھانا حلال ہو لیکن اسلامی طریقے کے مطابق ذبح نہ کیا گیا ہو تو وہ بھی ناپاک ہے اور اسے رکھنا بھی ناجائز ہے، لیکن اگر وہ ایسا جانور ہو جس کا گوشت کھانا حلال ہو اور تم نے اسے اسلامی طریقے کے مطابق ذبح کیا، پھر حنوط کر دیا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اگر اس کام میں بہت زیادہ رقم خرچ کی جاتی ہو تو پھر یہ مال ضائع کرنے کی قبیل سے ہے۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 17/147]
——————
494- موسیقی سے شغل کرنا اور اس سے علاج کرنا
موسیقی نشر کر نے اور سننے کے ساتھ اشتغال اور دلچسپی رکھنا حرام ہے، خواہ اس میں گانا ہو یا نہ ہو۔ گانے کے ساتھ تو اس کی مصیبت دو چند ہو جاتی ہے، اور اخلاق اور فطرت فساد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ جو ذکر کیا جاتا ہے کہ بعض علما کو اس میں بڑی مہارت حاصل تھی، تو یہ صحیح ہے، لیکن وہ فارابی کی جنس سے تھے، جن کو دین اسلام کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ یہ مسلمانوں کے قائد میں نہ حق میں حجت، نہ یہ مسلمانوں کے علم، عقیدے اور عمل میں امام ہی تھے، جیسے خلفاء راشدین، سعید بن جبیر، حسن بصری، شافعی، احمد، اوزاعی اور ان جیسے اسلامی علم اور اس پر عمل کرنے والے ائمہ کرام۔ یہ بعد والے لوگوں کے لیے نمونہ ہیں اور رہی بات موسیقی سے علاج کرنے کی تو یہ جائز نہیں۔ مسلمان کو اچھی آواز میں گائے گئے اسلامی ترانوں اور قرأت قرآن کے ہوتے ہوئے اس کی ضرورت ہی کیا ہے، جس سے اعصاب پر سکون ہو جاتے ہیں، نفس میں اطمینان اور سرور حاصل ہوتا ہے اور مسلمان کا اللہ اور اس کی تقدیر پر ایمان بڑھ جا تا ہے۔
[اللجنة الدائمة: 4470]
——————
495- آلات لہو رکھنا
موسیقی ڈھول وغیرہ جیسے آلات لہو رکھنا جائز ہے نہ ایسی کیسٹیں جمع کرنا جن میں طرب انگیز گانے ریکارڈ ہوں اور نہ ان اشیا کی خرید و فروخت ہی جائز ہے، کیونکہ ان اشیا کے رکھنے میں گناہ اور زیادتی میں تعاون ہے اور ان کی قیمت کھانا بھی جائز نہیں، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کوئی چیز حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتا ہے۔ ان اشیا کو ضائع کر دینا چاہیے اور ان سے چھٹکارا پا لینا چاہیے۔ ان اشیا کا شادی وغیرہ کی تقریبات میں استعمال کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے برائی کا اظہار ہوتا ہے۔
[اللجنة الدائمة: 21404]
——————
496- اداکاری کا پیشہ اختیار کرنا
اداکاری کے پیشے سے وابستہ ہونا تمہارے لیے جائز نہیں، کیونکہ اگر مخصوص افراد کی نقل کی جائے تو ان کی تنقیص ہوتی ہے، نیز یہ پیشہ مذاق اور کھیل تماشے پر مشتمل ہوتا ہے جو مسلمان کے لائق نہیں، لہٰذا ہم تجھے یہ پیشہ ترک کرنے۔ اور اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ رزق طلب کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز ترک کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کا بہتر عوض دیتا ہے:
«وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ﴿٢﴾ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ» [الطلاق: 3,2]
”جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔ اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا۔“
[اللجنة الدائمة: 21203]
——————
497- سینما بنانا اور اس کا انتظام سنبھالنا
مسلمان کے لیے سینما بنانا ناجائز ہے، اور نہ اپنے لیے نہ کسی دوسرے کے لیے اس کا انتظام سنبھالنا ہی حلال ہے، کیونکہ یہ حرام لہو پر مشتمل ہے، نیز دنیا بھر کے سینما گھروں کے متعلق یہ ایک معروف بات ہے کہ ان میں حیا باختہ تصویریں اور فتنہ انگیز مناظر پیش کیے جاتے ہیں جو بے حیائی اور اخلاقی بگاڑ کی دعوت دیتے، جنسی جذبات بھڑکاتے ہیں اور پھر ان میں اکثر غیر محرم مردوں اور عورتوں کا اختلاط بھی ہوتا ہے۔
[اللجنة الدائمة: 3501]
——————
498- گانا بجانا بطور پیشہ اپنانا
مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی کمائی میں شرعی طریقے اپنائے، تاکہ اس کی کمائی پاک اور روزی حلال ہو، پھر اپنی ذات، اولاد اور زیر کفالت افراد پر
حلال کمائی سے خرچ کرے، ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اجر لکھتے ہیں، اس کی ذات، مال اور زیر کفالت افراد میں برکت ڈالتے ہیں۔
لہٰذا مسلمان کے لیے گانا گانا اور موسیقی کے آلات طرب و نشاط بطور پیشہ بجانا حرام ہے کہ اس کی کمائی پر وہ خود بھی زندگی گزارے اور اس کے زیر کفالت افراد بھی اور پھر فقرا اور اچھائی کے کاموں میں بھی اسی سے خرچ کرے۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک کے سوا کچھ قبول نہیں کرتا۔ یہ کام اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے، اس سے برکت اٹھ جاتی ہے اور دعا رد کر دی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ» [البقرة: 267]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ان پاکیزہ چیزوں سے خرچ کرو۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لوگو ! یقیناً اللہ تعالیٰ پاک ہے جو پاک کے سوا کچھ قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے جس کام کا پیغمبروں کو حکم دیا ہے اس کام کا عام لوگوں کو بھی حکم دیا ہے۔ پھر فرمایا:
«يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا» [المؤمنون: 51]
”اے رسولو ! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو۔“
وہ فرماتے ہیں:
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ آدمی لمبا سفر طے کر کے آتا ہے، پرا گندہ بال اور گرد آلود ہے، آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر یا رب ! یا رب ! کہہ رہا ہے، جبکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، پہنا و احرام اور حرام سے اس کے پیٹ میں غذا داخل ہوئی ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر کیسے اس کی دعا قبول ہو؟ !“ [صحيح مسلم 1015/65]
[اللجنة الدائمة: 1620]
——————
499- زمانہ جاہلیت کی شاعری پڑھانا
عربی ادب کی تدریس جائز کاموں میں شمار ہوتی ہے، اس کی اجرت لینا جائز ہے، جب تک نصاب تعلیم فسق و فجور قبیح کلام اور اسلامی قوانین کے خلاف بغاوت اور خروج پر مشتمل نہ ہو۔
[اللجنة الدائمة: 20153]
——————
500- ایسے سپورٹس ڈریس (کھیلوں کے کپڑے) در آمد کرنا جن پر کافروں کے شعار اور علامتیں ہوں
وہ کپڑے جن پر کافروں کے شعار ہوتے ہیں ان کی کچھ تفصیل ہے جو درج ذیل ہے:
(1) اگر یہ شعار کافروں کے دینی ر موز ہوں جیسے صلیب وغیرہ تو ایسی حالت میں ان کپڑوں کی درآمد جائز ہے نہ خرید و فروخت ہی۔
(2) اگر یہ شعار اور علامت کسی کافر کی تعظیم کا رمز ہو، مثلاً اس کی تصویر چھپی ہو یا اس کا نام لکھا ہو یا اس طرح کی کوئی بھی چیز تو یہ بھی پہلے کی طرح حرام ہیں۔
(3) اگر یہ علامتیں کسی عبادت کا رمز ہوں نہ کسی شخص کی تعظیم، بلکہ جائز تجارتی نشانات ہوں جنھیں ٹریڈ مارکس کہا جاتا ہے تو ان میں کوئی حرج نہیں۔
[اللجنة الدائمة: 16585]
——————