نیت :
نیت کے لغوی معنی قصد وارادہ کے ہیں ۔
اصطلاحی تعریف:
علامہ بیضاوی (685 ھ ) لکھتے ہیں:
والشرع خصصها بالإرادة المتوجهة نحو الفعل ابتغاء لوجه الله تعالى وامتثالا لحكمه
”شریعت میں نیت کسی فعل کے ارادے کا نام ہے، جس میں اللہ کی رضا اور اس کے حکم کی بجا آوری مقصود ہو۔“ [تحفة الأبرار شرح مصابيح السنة : 20/1]
علامہ کاسانی (587 ھ ) لکھتے ہیں :
فالنية هي الإرادة، فنية الصلاة هي إرادة الصلاة لله تعالى على الخلوص، والإرادة عمل القلب
”نیت ارادے کا نام ہے، لہذا نماز کی نیت یہ ہے کہ اللہ کے لیے خلوص دل سے نماز کا قصد کریں، نیز ارادہ دل کا عمل ہے۔“ [بدائع الصنائع : 127/1]
فرمان باری تعالی ہے:
وما أمروا إلا ليعبدوا الله مخلصين له الدين(البيئة : 5)
”انہیں صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خاص کرتے ہوئے اسی کی عبادت کریں۔“
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرى ما نوى
”اعمال کا اعتبار نیتوں پر موقوف ہے اور ہر ایک کے لیے وہی معتبر ہے، جو اس نے نیت کی ۔“ [صحيح البخاري : 1 ، صحيح مسلم : 1907]
شرع کے ساتھ عمل ونیت کا تعلق چھ اعتبار سے ہے۔
➊ عمل و نیت دونوں شرع کے موافق ہوں، تو یہ ثواب کا موجب ہے۔
➋ دونوں خلاف شرع ہوں ، تو موجب عذاب ہے۔
➌ عمل موافق شرع ہو اور اس موافقت کا علم بھی ہو ، نیت مخالف شرع ہو، تو ثواب نہیں ملے گا ، جیسا کہ دکھلاوے کی نماز ۔
➍ عمل موافق شرع ، مگر علم نہیں اور نیت مخالف شرع، تو نیت پر گناہ ہوگا، عمل پر نہیں ۔ جیسے اجنبی عورت سمجھ کر اپنی بیوی سے جماع کرے۔
➎ عمل مخالف شرع ہو، علم بھی ہے، لیکن نیت موافق شرع ہے، تو گناہ گار ہے، ثواب نہیں ملے گا۔ جیسے بدعت ۔
➏ عمل مخالف شرع ، علم نہیں، لیکن نیت موافق شرع ہے، تو گناہ نہیں ہو گا۔ جیسے اپنی بیوی سمجھ کر اجنبی عورت سے جماع کرنا۔
عبادات میں نیت ہر ایک کے نزدیک ضروری ہے۔
نیز نیت اور ارادہ میں کوئی فرق نہیں۔ ارادہ میں غرض کا ذکر نہیں ہوتا ، ذکر نہ ہونے سے عدم لازم نہیں آتا۔
زبان سے نیت:
زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔
علامہ ابن ہمام (861 ھ ) لکھتے ہیں :
قال بعض الحفاظ : لم يثبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بطريق صحيح ولا ضعيف أنه كان يقول عند الافتتاح : أصلي كذا، ولا عن أحد من الصحابة والتابعين، بل المنقول : أنه كان صلى الله عليه وسلم، إذا قام إلى لصلاة كبر وهذه بدعة
”بعض حفاظ نے فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح یا ضعیف سند سے ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت فرمایا ہو : میں فلاں نماز پڑھتا ہوں۔ نہ ہی کسی صحابی یا تابعی سے ثابت ہے، بلکہ یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے ، لہذا یہ ( زبان سے نیت کرنا ) بدعت ہے۔“ [فتح القدير : 266/1-267]
علامہ ابن نجیم (970 ھ ) لکھتے ہیں :
وقد أجمع العلماء على أنه لو نوى بقلبه ولم يتكلم فإنه يجوز كما حكاه غير واحد فما فى الخانية
”تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ اگر نمازی دل سے نیت کرے اور زبان سے نہ کرے، تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، جیسا کہ کئی ایک سے ثابت ہے، نیز ”خانیتہ“ میں بھی یہی لکھا ہے۔“ [البحر الرائق شرح كنز الدقائق : 292/1]
شیخ الاسلام ، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
وقد ثبت بالنقل المتواتر وإجماع المسلمين أن النبى صلى الله عليه وسلم والصحابة كانوا يفتتحون الصلاة بالتكبير، ولم ينقل مسلم لا عن النبى صلى الله عليه وسلم، ولا عن أحد من الصحابة أنه قد تلفظ قبل التكبير بلفظ النية لا سرا ولا جهرا ولا أنه أمر بذالك . ومن المعلوم أن الهمم والدواعى متوفرة على نقل ذلك لو كان ذلك وأنه يمتنع على أهل التواتر عادة وشرعا كتمان نقل ذلك فإذا لم ينقله أحد علم قطعا أنه لم يكن
” متواتر روایات اور امت مسلمہ کے اجماع سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ اکبر کے ساتھ نماز شروع کرتے تھے۔ تکبیر سے قبل سری و جہری طور پر نیت کے الفاظ ادا کرنا کسی مسلمان سے ثابت نہیں، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں کہ آپ نے کبھی ایسا کیا ہو یا اس کا حکم دیا ہو۔ یہ تو معلوم ہے کہ زبانی نیت کی کوئی حیثیت ہوتی تو اسے نقل کرنے پر بہت زیادہ اہتمام اور داعیہ ہوتا۔ اہل تواتر کو نہ شریعت نے اجازت دی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی واقعہ ثابت آیا ہے کہ کسی متواتر کے نقل کو چھپا لیں ، جب اسے کسی نے بھی نقل نہیں کیا ، تو معلوم ہوا کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔“ [مجموع الفتاوى : 236/22-237]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751 ھ ) لکھتے ہیں:
النية هى القصد والعزم على فعل الشيء، ومحلها القلب ، لا تعلق لها باللسان أصلا ولذلك لم ينقل عن النبى صلى الله تعالى عليه وسلم ولا عن أصحابه فى النية لفظ بحال، ولا سمعنا عنهم ذكر ذلك . وهذه العبارات التى أحدثت عند افتتاح الطهارة والصلاة قد جعلها الشيطان معتركا لأهل الوسواس، يحبسهم عندها ويعذبهم فيها، ويوقعهم فى طلب تصحيحها فترى أحدهم يكررها ويجهد نفسه فى التلفظ بها، وليست من الصلاة فى شيء، وإنما النية قصد فعل الشيء، فكل عازم على فعل فهو ناويه، لا يتصور انفكاك ذلك عن النية فإنه حقيقتها، فلا يمكن عدمها فى حال وجودها، ومن قعد ليتوضأ فقد نوى الوضوء، ومن قام ليصلي فقد نوى الصلاة، ولا يكاد العاقل يفعل شيئا من العبادات ولا غيرها بغير نية، فالنية أمر لازم لأفعال الإنسان المقصودة، لا يحتاج إلى تعب ولا تحصيل . ولو أراد إخلاء أفعاله الاختيارية عن نيته لعجز عن ذلك . ولو كلفه الله عز وجل الصلاة والوضوء بغير نية لكلفه ما لا يطيق، ولا يدخل تحت وسعه . وما كان هكذا فما وجه التعب فى تحصيله؟ وإن شك فى حصول نيته فهو نوع جنون . فإن علم الإنسان بحال نفسه أمر يقيني ، فكيف يشك فيه عاقل من نفسه؟ ومن قام ليصلي صلاة الظهر خلف الإمام فكيف يشك فى ذلك؟ ولو دعاه داع إلى شغل فى تلك الحال لقال : إني مشتغل أريد صلاة الظهر، ولو قال له قائل فى وقت خروجه إلى الصلاة : أين تمضي؟ لقال : أريد صلاة الظهر مع الإمام، فكيف يشك عاقل فى هذا من نفسه وهو يعلمه يقينا؟
”نیت کسی کام کے کرنے پر پختہ عزم کا نام ہے اور اس کا محل دل ہے۔ زبان سے اس کا تعلق نہیں ۔ تب ہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا آپ کے صحابہ سے کسی بھی کام میں الفاظ سے نیت کرنا ثابت نہیں، بلکہ ہم آج تک اس کا ذکر ہی نہیں سنا۔ وضو اور نماز کے شروع میں جو الفاظ گھڑ لئے گئے ہیں، شیطان نے انہیں وسوسے کا شکار لوگوں کے لیے میدان کارزار بنایا ہے۔ انہیں ثواب کی امید دلاتا ہے اور عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے اور اسے صحیح طور پر ادا کرنے کی طلب ڈال دیتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ان وسوسات کا شکار آدمی ان الفاظ کو بار بار دہراتا ہے اور خود پر سختی کرتا ہے۔ جب کہ یہ نماز کا حصہ نہیں ہے۔ نیت کسی کام کے ارادے کو کہتے ہیں، کسی کام کا پختہ ارادہ کرنے والے کو ناوی ( نیت کرنے والا) بھی کہتے ہیں۔ ارادے کو نیت سے جدا نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ ارادہ نیت کی حقیقت میں داخل ہے۔ جو وضو کے لیے بیٹھے، اس نے وضو کی نیت کی اور جو نماز کے لیے کھڑا ہوا، اس نے نماز کی نیت کی ۔ کوئی عاقل آدمی کسی کام کو، چاہے وہ عبادات ہوں یا کوئی اور کام، بغیر نیت کے نہیں کر سکتا، لہذا نیت انسان کے مقصود افعال کے ساتھ لازم ہے۔ اس کے لیے کسی قسم کی مشقت یا حصول کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی اپنے اختیاری افعال میں نیت کو ختم کرنا بھی چاہے، تو نہیں کر سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے نماز اور وضو بغیر نیت کے ادا کرنے کا مکلف بناتا، تو یہ تکلیف مالا يطاق کی قبیل سے ہوتا، جو اس کے بس کی بات نہیں ۔ اگر معاملہ ایسے ہے، تو حصول نیت کے لیے مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت؟ اگر نیت کے ہونے میں شک گزرے، تو یہ جنون ( پاگل پن ) کی قسم ہے، کیوں کہ انسان کا اپنی حالت کو جاننا یقینی امر ہے۔ ایک عقل مند اپنے آپ کو شک میں کیسے ڈال سکتا ہے؟ مثلاً اگر کوئی امام کی اقتدا میں ظہر ادا کرنے لگے، تو وہ اس میں کیسے شک کر سکتا ہے؟ اس حالت میں اگر اسے کوئی کسی اور کام کے لیے بلائے ، تو وہ کہے گا کہ میں مصروف ہوں اور نماز ظہر پڑھنے لگا ہوں۔ اگر کوئی اسے نماز کی طرف جاتے ہوئے پوچھے، کہاں جا رہے ہو؟ تو کہے گا کہ میں با جماعت نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔ جانتے بوجھتے ایک عقل مند خود کو شک میں کیسے ڈال سکتا ہے؟“ [إغاثة اللهفان فى مصايد الشيطان : 136/1-137]
نیز فرماتے ہیں:
كان صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة قال : الله أكبر ولم يقل شيئا قبلها، ولا تلفظ بالنية البتة، ولا قال : أصلى لله صلاة كذا مستقبل القبلة أربع ركعات إماما أو مأموما، ولا قال أداء ولا قضاء ولا فرض الوقت، وهذه عشر بدع لم ينقل عنه أحد قط بإسناد صحيح ولا ضعيف، ولا مسند ولا مرسل لفظة واحدة منها البية، بل ولا عن أحد من أصحابه، ولا استحسنه أحد من التابعين ولا الأئمة الأربعة، وإنما غر بعض المتأخرين قول الشافعي رضى الله عنه فى الصلاة : إنها ليست كالصيام، ولا يدخل فيها أحد إلا بذكر، فظن أن الذكر تلفظ المصلي بالنية، وإنما أراد الشافعي رحمه الله بالذكر تكبيرة الإحرام ليس إلا، وكيف يستحب الشافعي أمرا لم يفعله النبى صلى الله عليه وسلم فى صلاة واحدة، ولا أحد من خلفائه وأصحابه، وهذا هديهم وسيرتهم، فإن أوجدنا أحد حرفا واحدا عنهم فى ذلك قبلناه وقابلناه بالتسليم والقبول، ولا هدي أكمل من هديهم، ولا سنة إلا ما تلقوه عن صاحب الشرع صلى الله عليه وسلم
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے ، تو اللہ اکبر کہا۔ اس سے قبل کچھ نہیں کہا، نہ کبھی الفاظ سے نیت کی ۔ نہ ہی یہ کہا کہ میں اللہ کے لیے چار رکعات نماز فلاں، رو بقبلہ ہو کر بہ طور امام یا مقتدی ادا یا قضاء، فلاں وقت ادا کرتا ہوں۔ یہ دس بدعات ہیں۔ ان میں ایک لفظ بھی کسی نے صحیح ، ضعیف، متصل یا مرسل سند کے ساتھ نقل نہیں کیا، بلکہ کسی محدث سے بھی ایسا ثابت نہیں ہے ۔ کسی تابعی نے اسے مستحسن سمجھا، نہ ائمہ اربعہ نے۔ بعض متاخرین سے امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کو سمجھنے میں خطا ہوئی کہ انہوں نے نماز کی بابت فرمایا : یہ روزے کی طرح نہیں ہے، ہر کوئی اس میں ذکر کے ساتھ ہی داخل ہوتا ہے۔ اس نے سمجھ لیا کہ ذکر سے مراد تلفظ کے ساتھ نیت کرنا ہے ، حالاں کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی مراد تو تکبیر تحریمہ ہے۔ بھلا امام شافعی رحمہ اللہ اس کام کو مستحب کیوں کر کہہ سکتے ہیں ، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، کسی خلیفہ راشد یا صحابی نے کسی ایک نماز میں بھی نہ کیا ہو۔ ان کی ہدایات اور سوانح حیات موجود ہے، اگر کوئی ہمیں اس سلسلہ سے ایک حرف بھی ثابت کر دے، ہم اسے قبول کریں گے اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کر لیں گے، کیوں کہ ان کی ہدایت سے کامل کوئی ہدایت نہیں ہو سکتی اور سنت وہی ہے، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صاحب شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کریں۔“ [زاد المعاد فى هدي خير العباد : 194/1]
علامہ شرنبلالی (1069ھ ) لکھتے ہیں:
فمن قال من مشايخنا : إن التلفظ بالنية سنة لم يرد به سنة النبى صلى الله عليه وسلم، بل سنة بعض المشايخ لاختلاف الزمان وكثرة الشواغل على القلوب فيما بعد زمن التابعين
”ہمارے مشائخ میں سے جنہوں نے کہا ہے کہ الفاظ سے نیت کرنا سنت ہے، ان کی مراد سنت نبوی نہیں، بلکہ بعض مشائخ کا طریقہ مراد ہے، جو انہوں نے تابعین کے دور کے بعد زمانہ مختلف ہو جانے اور دل پر مشغولیت بڑھ جانے کی وجہ سے جاری کر دیا تھا۔“ [مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، ص 84]
ملا علی قاری (1014ھ ) نقل کرتے ہیں:
وأغرب ابن حجر، وقال : إنه عليه الصلاة والسلام، نطق بالنية فى الحج فقسنا عليه سائر العبادات . قلنا له : …. فإنه ما ورد نويت الحج، وإنما ورد اللهم إني أريد الحج إلخ، وهو دعاء ، وإخبار لا يقوم مقام النية إلا بجعله إنشاء، وهو يتوقف على العقد، والقصد الإنشائي غير معلوم، فمع الاحتمال لا يصح الاستدلال، مع عدم صحته جعله مقيسا عليه محال ، ثم قال : وعدم وروده لا يدل على عدم وقوعه، قلنا : هذا مردود بأن الأصل عدم وقوعه حتى يوجد دليل وروده، وقد ثبت أنه عليه الصلاة والسلام، قام إلى الصلاة فكبر فلو نطق بشيء آخر لنقلوه، وورد فى حديث المسيء صلاته أنه قال له : إذا قمت إلى الصلاة فكبر ، فدل على عدم وجود التلفظ ، وذكر أبو داود أنه قال: قلت للبخاري : هل تقول شيئا قبل التكبير فقال : لا
”ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ نے بڑی عجیب بات کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی نیت الفاظ سے کی ،لہذا ہم نے اسے تمام عبادات پر قیاس کرلیا۔
ہم کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ کسی روایت میں نہیں آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ میں حج کی نیت کرتا ہوں، بلکہ یہ آیا ہے کہ اللہ ! میں حج کا ارادہ کرتا ہوں۔ یہ تو دعا ہے۔ خبر نیت کے قائم مقام تب ہوگی، جب اسے انشا بنایا جائے ، جو کہ عقد (لین دین) میں ہوتا ہے ، نیز عقد انشائی غیر معلوم چیز ہے۔ اس احتمال کے باوجود بھی استدلال درست نہیں اور اسے مقیس علیہ بنانا صحیح نہیں ، بلکہ محال ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ الفاظ سے نیت کے عدم ورود سے اس کا عدم لازم نہیں آتا ۔
ہم کہتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے، جب تک ورود (ثبوت) نہ ہو، تب تک عدم وقوع ہی لازم آئے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ، تو اللہ اکبر کہتے تھے، اگر آپ کوئی اور الفاظ بولتے ، تو صحابہ کرام اسے نقل کر دیتے ، نیز مسیء الصلوۃ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: جب آپ نماز پڑھنے لگیں، تو اللہ اکبر کہیں۔۔۔۔ یہ دلیل ہے کہ نیت کے الفاظ کی کوئی حیثیت نہیں۔ امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھا: آپ تکبیر تحریمہ سے پہلے کچھ پڑھتے ہیں؟ فرمایا : نہیں ۔“ [مرقاة المفاتيح شرح مشكوة المصابيح : 42/1]
علامہ عبدالحی لکھنوی (1304ھ ) لکھتے ہیں:
ههنا ثلاث صور، أحدها : الإكتفاء بنية القلب، هو مجزى إتفاقا، وهو الطريقة المشروعة الماثورة عن رسول صلى الله عليه وسلم، وأصحابه، فلم ينقل عن أحد منهم التكلم بنويت أو أنوي صلاة كذا فى وقت كذا ونحو ذلك كما حققه ابن الهمام فى فتح القدير، وابن القيم فى زاد المعاد
وثانيهما : الإكتفاء بالتلفظ من دون قصد القلب، وهو غير مجزيء . وثالتها : الجمع بينهما، وهو سنة على ما فى تحفة الملوك، وليس بصحيح، ومستحب على ما فى المنية أى بمعنى ما فعله العلماء، واستحبوه لا بمعنى ما فعله رسول الله صلى الله عليه وسلم، أو رغب إليه، فإنه لم يثبت ذالك، وعللوا استحبابه وحسنه بأن فيه موافقة بين القلب واللسان، وجمعا للعزيمة
”یہاں تین صورتیں بنتی ہیں:
➊ صرف دل کی نیت پر اکتفا کر لینا، اتفاق ہے کہ یہ کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہی طریقہ مروی ہے۔ نیز ان میں کسی سے بھی یہ کہنا ثابت نہیں کہ میں نے فلاں نماز کی فلاں وقت میں نیت کی یا نیت کرتا ہوں، وغیرہ۔ ابن ہمام نے فتح القدیر میں اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں یہ بات واضح کر دی ہے۔
➋ صرف الفاظ سے نیت کرنا ، دل کا ارادہ وقصد نہ ہو، یہ بالا تفاق نا کافی ہے۔
➌ دونوں کو جمع کرنا ، تحفتہ الملوک کے مطابق یہ سنت ہے، جو کہ درست نہیں اور المنیتہ کے مطابق یہ مستحب ہے، یعنی علما کا فعل ہے اور انہوں نے اسے مستحب کہا ہے، ایسا نہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا یا آپ نے اس کی ترغیب دلائی تھی، کیوں کہ یہ بالکل ثابت نہیں۔ احناف نے اسے مستحب اور مستحسن کہنے کی علت یہ بتائی ہے کہ اس سے دل و زبان کی موافقت اور ایک فرض کے لیے اہتمام ہو جاتا ہے۔“ [عمدة الرعاية فى حل شرح الوقاية، جلد :1 ص 139]
تنبیہ:
علامہ علی بن ابوبکر مرغینانی (593ھ ) لکھتے ہیں:
والنية هي الإرادة والشرط أن يعلم بقلبه أى صلاة يصلي ، أما الذكر باللسان فلا معتبر به ويحسن ذلك لاجتماع عزيمته
”نیت قصد اور ارادے کا نام ہے، شرط یہ ہے کہ دل کو معلوم ہو کہ وہ فلاں نماز پڑھ رہا ہے، رہا زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا، تو اس کی کوئی حیثیت نہیں، ہاں قصد وارادے کو جمع کرنے کے لیے ( زبان سے نیت کرنا ) مستحب ہے۔“ [الهداية : 95/1]
علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ (792ھ) لکھتے ہیں:
قوله : (يحسن ذلك لاجتماع عزيمته) يعني يحسن ذكر نية الصلاة بلسانه، وفيه نظر
قال فى المفيد : كره بعض مشايخنا النطق بالسان، لأن النية علم القلب، والله تعالى مطلع على ما فى الضمائر، فلا حاجة إلى الإفصاح باللسان، وهذا هو الصحيح، فإن قول القائل : نويت صلاة كذا وكذا من نوع العبث من وجوه : أحدها : أنه لم ينقل . الثاني : أنه إما أن يريد الإنشاء أو الإخبار، وكل منهما باطل . أما الإنشاء فلان الصلاة ليست من باب العقود التى يثبت حكمها بالإنشاء
وأما الإخبار فكذلك أيضا، لأنه إما أن يريد إخبار نفسه ، أو ربه، أو الكرام الكاتبين، وكل منها لا يصح
”( يحسن ذلك لاجتماع عزيمته) کا معنی یہ ہے کہ نماز کی نیت زبان سے کرنا مستحسن ہے، جب کہ یہ بات محل نظر ہے۔ المفید میں لکھا ہے: ہمارے بعض مشائخ نے زبان سے نیت کو مکروہ جانا ہے، کیوںکہ نیت دل کی معرفت کا نام ہے، اللہ تعالی مافي الضمير پر مطلع ہے، لہذا زبان سے وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہی بات درست ہے، کیوں کہ یہ کہنا : میں فلاں فلاں نماز کی نیت کرتا ہوں ، کئی لحاظ سے فضول ہے:
➊ منقول و ماثور نہیں۔
➋ الفاظ سے نیت کرنے والا یا تو انشا کا ارادہ کرتا ہے، یا خبر کا، ہر دو لحاظ سے باطل ہے۔ انشا سے اس لیے کہ نماز ان عقود میں سے نہیں ہے ، جو انشا سے ثابت ہوتے ہیں اور خبر سے اس لیے نہیں، کیوں کہ یا تو وہ خود کو خبر دے گا، یا اللہ کو یا کراما کاتبین کو ۔ ان میں سے کوئی بھی صورت درست نہیں۔“ [التنبيهات على مشكلات الهداية : 509/1-510]
تنبیہ:
ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كان الشافعي إذا أراد أن يدخل فى الصلاة قال : بسم الله، موجها لبيت الله مؤديا لفرض الله عز وجل الله أكبر
امام شافعی رحمہ اللہ نماز میں داخل ہونے لگتے ، تو کہتے : بسم الله، موجها لبيت مؤديا لبيت الله مؤديا لفرض الله عز وجل الله أكبر
”بسم اللہ، منہ طرف کعبہ شریف ، فرض واسطے اللہ تعالیٰ کے ، اللہ اکبر۔“ [معجم ابن المقرىء : 317، وسنده صحيح]
یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا اجتہاد ہے، جس پر قرآن وسنت ، صحابہ، تابعین اور خیر القرون کے مسلمانوں کے عمل سے کوئی دلیل نہیں، لہذا یہ اجتہاد خطا پر مبنی اور شاذ ہے۔ ہر ایک کی بات قرآن وسنت اور قرون ثلاثہ کے مسلمانوں پر پیش کی جائے گی ، موافق ہو، تو قبول، ورنہ رد کر دی جائے گی۔ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (198ھ ) فرماتے ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم هو الميزان الأكبر، فعليه تعرض الأشياء، على خلقه وسيرته وهديه، فما وافقها فهو الحق ، وما خالفها فهو الباطل
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میزان اکبر ہیں، ہر قول و فعل آپ کی سنت، سیرت اور ہدایت پر پیش کیا جائے گا، جو موافق ہو، وہ تو حق ہے اور جو مخالف ہو، باطل ہے۔“ [الجامع لأخلاق الراوي و آداب السامع للخطيب : 79/1، وسنده صحيح]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774ھ) لکھتے ہیں:
فتوزن الأقوال والأعمال بأقواله وأعماله، فما وافق ذالك قبل، وما خالفه فهو مردود على قائله وفاعله، كائنا ما كان
”تمام اقوال و اعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال پر پیش کئے جائیں گے، جو موافق ہوں، لے لئے جائیں گے اور جو مخالف ہوں، انہیں رد کر دیا جائے ، خواہ ان کا قائل و فاعل کوئی بھی ہو۔“ [تفسير ابن كثير : 90/6 ، ت سلامه]
فائده :
بعض لوگ روزے کی نیت کرتے وقت یہ الفاظ کہتے ہیں :
وبصوم غد نويت من شهر رمضان
”میں کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں ۔“
تبصرہ:
یہ الفاظ معنی کے اعتبار سے بھی درست نہیں۔ جس دن کا روزہ رکھا جا رہا ہے، اس کی نیت میں یہ کہنا کہ میں کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں، مضحکہ خیز ہے۔
ملاعلی قاری صاحب نے ان الفاظ کو بے اصل قرار دیا ہے۔ [مرقاة المفاتيح : 1387/4]
الحاصل:
نیت دل کے قصد و ارادے کا نام ہے ، زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔
ایک تبصرہ