سوال : فاتحہ پڑھنے کے لیے مقتدی کو مہلت دینا
کن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ قراءت کے بعد رکوع سے پہلے مقتدی کو سورۂ فاتحہ کی قراءت کے لیے مہلت دینے کے قائل اور فاعل تھے؟
(سوال از وقار علی، مبین الیکٹرونکس، امین پارک لاہور)
الجواب
مسلۂ سکتہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:
سکتہ کرنے کا عمل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کتاب القرآءت للبیہقی (ص103) میں باسند"حسن لذاتہ” ثابت ہے۔
"حسن لذاتہ” روایت قابلِ حجت ہوتی ہے۔
جرح و تعدیل کے اصول اور راقم کا موقف
جمہور محدثین کی ترجیح
راقم الحروف نے راویوں پر جرح و تعدیل کے جو اقوال پیش کیے ہیں، ان کا مقصد جمہور محدثین کا موقف واضح کرنا اور اسی کو ترجیح دینا ہے۔
میرے نزدیک، جب جرح و تعدیل میں تعارض ہو اور تطبیق و توثیق ممکن نہ ہو تو ہمیشہ جمہور محدثین کو ترجیح دی جائے گی۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: نورالعین فی مسئلہ رفع الیدین (ص59/60، طبع قدیم ص41، 42)
امام تاج الدین عبد الوہاب بن علی السبکی (متوفی 771ھ) کا بیان
"والجرح مقدم ان كان عدد الجارح اكثر من المعدل اجماعا وكذا ان تساويا او كان الجارح اقل وقال ابن شعبان يطلب الترجيح”
(قاعدہ فی الجرح والتعدیل ص50،51، واللفظ لہ، جمع الجوامع 2/172)
خلاصہ:
◈ اگر جرح کرنے والے (جارحین) کی تعداد زیادہ ہو تو جرح مقدم ہے (اجماعی موقف)۔
◈ اگر تعداد برابر ہو یا جارح کم بھی ہوں تب بھی بعض کے نزدیک جرح کو ترجیح حاصل ہوگی۔
◈ ابن شعبان کے مطابق: ترجیح کا انحصار دیگر دلائل پر ہوگا۔
راقم کا تفصیلی موقف
◈ جارحین و معدلین کی برابری: ایسی کوئی واضح مثال میرے علم میں نہیں۔
◈ اگر جارحین کی تعداد کم ہو: اس صورت میں معدلین کی تعدیل مقدم ہوگی۔
دیوبندی علماء کے اقوال
محمد ادریس کاندھلوی:
"جب کسی راوی میں توثیق اور تضعیف جمع ہو جائیں تو محدثین کے نزدیک اکثر کے قول کا اعتبار ہے، اور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ مبہم جرح کے مقابلہ میں تعدیل کو ترجیح ہے، چاہے جارحین کی تعداد زیادہ ہو۔ احتیاط قبول کرنے میں ہے۔”
(سیرت المصطفیٰ، ج1، ص79)
راقم کا تبصرہ:
فقہاء دیوبند کے برعکس، محدثین کا موقف ہی راجح ہے۔
سرفراز خان صفدر دیوبندی:
"ہم نے توثیق و تضعیف میں جمہور ائمہ جرح و تعدیل اور اکثر ائمہ حدیث کا ساتھ اور دامن نہیں چھوڑا۔”
(احسن الکلام، ج1، ص40)
حدیث کی تصحیح یا تحسین بذات خود راوی کی توثیق ہوتی ہے
حافظ ذہبی کا قول:
"وصحح حديثه ابن المنذر، وابن حزم، وغيرهما، فذلك توثيق له”
(سیزان الاعتدال، 4/558، ت10478)
ابن القطان الفاسی کا قول:
"وفي تصحيح الترمذي إياه توثيقها وتوثيق سعد بن إسحاق”
(بیان الوہم والإيهام الواقعين في كتاب الأحكام 5/395، ح2562، نصب الرایۃ 3/263)
دیگر محققین کا اتفاق:
یہی مؤقف صاحب الامام
(نصب الرایۃ 1/149)
اور شیخ ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے:
(السلسلۃ الصحیحۃ 6/660، ح2783، 7/16، ح3007)
نیز ملاحظہ ہو:
الاقتراح لابن دقیق العید (ص325-328)
توجیہ القاری للشیخ ثناء اللہ الزہدی (ص63)
تنبیہ:
ان جوابات میں بعض مقامات پر ضروری اصلاح و اضافہ بھی کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جا سکیں۔
والحمدللہ
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب