روشن خیالی کا زوال اور اسلامی غلبے کی راہ

روشن خیالی کا تعارف

روشن خیالی (Enlightenment) مغربی تہذیب کی ایک بڑی فکری تحریک ہے، جس کی جڑیں 18ویں صدی کی تحریکِ تنویر (Enlightenment) میں پیوستہ ہیں۔ بنیادی طور پر اس تحریک کا آغاز کانٹ (Immanuel Kant) سے ہوا۔ تاہم، اس کی ابتدائی جھلک 17ویں صدی کی سائنسی تحریک میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ روشن خیالی کا نتیجہ مغرب میں الحاد اور سیکیولر ازم کے فروغ کی صورت میں نکلا۔

آج جو لوگ ہمارے معاشرے میں "روشن خیال اعتدال پسندی” کا پرچار کرتے ہیں، وہ دراصل ہماری تہذیب کو مغربی فکر کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم تحریکِ تنویر کا اسلامی بنیادوں پر محاکمہ کریں۔

تحریکِ تنویر کی بنیادی خصوصیات

علمیت کا نیا تصور:

تحریکِ تنویر نے عیسائیت کی مذہبی علمیت کو رد کرکے "انسانی عقل” اور "تجربے” کو علم حاصل کرنے کے واحد ذرائع قرار دیا:

  • علم وہی ہے جو انسانی عقل یا تجربے سے حاصل ہو۔
  • عقل اور تجربے کی پہنچ سے باہر کوئی چیز "علم” میں شامل نہیں ہو سکتی۔
  • مذہبی عقائد جیسے خدا، فرشتے، آخرت وغیرہ کو غیرعقلی قرار دیا گیا کیونکہ انہیں نہ عقلی منطق (Deductive یا Inductive Logic) سے ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ تجربے کے ذریعے۔

انسان کا تصور: تحریکِ تنویر کی بنیادیں

تحریکِ تنویر کے مطابق:

  • انسان قائم بالذات ہے: وہ مکمل خودمختار ہے اور دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا حق رکھتا ہے۔
  • برابری: تمام انسان اپنی فطری صلاحیتوں میں مساوی ہیں۔
  • عقل و ترقی: عقل کا تقاضا ہے کہ انسان کائنات کو مسخر کرے اور اپنی مرضی کے مطابق اسے تبدیل کرتا رہے۔

یہی وہ مابعدالطبیعاتی مفروضات ہیں جن کی بنیاد پر مغربی تہذیب نے دنیا کو اپنی طاقت سے قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔

روشن خیالی کی تین بنیادی قدریں

آزادی (Liberty):

  • انسان کو مکمل آزادی حاصل ہو کہ جو چاہے، کر سکے۔
  • اس پر کوئی مذہبی یا اخلاقی قدغن نہ ہو۔

مساوات (Equality):

  • تمام انسان اپنے ذاتی خیالات اور اعمال میں مساوی ہیں، چاہے ان کے اعمال کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔
  • مذہبی، غیر مذہبی، نیک و بد سب برابر ہیں۔

ترقی (Progress):

  • ترقی کا مطلب سرمائے کا بڑھنا ہے۔
  • چاہے مسجد بنائی جائے یا شراب خانہ، ہر چیز سرمائے کی موجودگی پر منحصر ہے۔

روشن خیالی کا اسلامی بنیادوں پر محاکمہ

اسلامی تناظر میں دیکھا جائے تو روشن خیالی کی بنیادی قدریں مکمل طور پر اسلام کے خلاف ہیں:

  • اسلام انسان کو خودمختار نہیں بلکہ اللہ کا بندہ قرار دیتا ہے۔
  • آزادی کی وہ شکل جو مذہبی حدود کو پامال کرے، اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔
  • ترقی کا مطلب صرف مادی فوائد حاصل کرنا نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی ترقی بھی اہم ہے۔

مغربی فکر کی شکست کے آثار

آج مغربی تہذیب کے زوال کے کئی ٹھوس دلائل موجود ہیں:

فکری شکست:

مغرب کی اپنی پس جدیدیت (Postmodernism) کی تحریک نے ثابت کر دیا ہے کہ مغربی علمیت اور اس کے عقلی دعوے جھوٹے ہیں۔

آبادی کا بحران:

مغربی دنیا میں شرح پیدائش خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے، اور ان کی آبادی تیزی سے گھٹ رہی ہے۔

معاشی تضادات:

سرمایہ دارانہ نظام میں بڑھتے ہوئے معاشی تضادات اس نظام کے خاتمے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

سوشل سائنسز اور اسلام کاری

مغرب نے سوشل سائنسز کو اپنے نظریات پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔

اب مسلم دنیا میں بھی اسلامی سوشل سائنسز کی بات کی جا رہی ہے، جو درحقیقت مغربی نظریات کو اسلامی لبادہ پہنانے کی کوشش ہے۔

اسلامی جمہوریت اور اسلامی بینکاری: ایک دھوکہ

اسلامی جمہوریت اور اسلامی بینکاری کی اصطلاحات دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ سمجھوتے کی کوششیں ہیں۔

اسلامی نظام، نبی اکرم ﷺ کے دور سے لے کر عثمانی خلافت تک، کسی اسلامی بینک یا جمہوری مقننہ کے بغیر ہی کامیاب رہا۔

جہاد: غلبۂ دین کا واحد راستہ

اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ دین کا غلبہ ہمیشہ جہاد اور عسکری فتوحات کے ذریعے ممکن ہوا۔

امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے خلاف جہاد اسی بات کو سمجھتے ہوئے کیا کہ اگر سیکولر نظام غالب آ گیا تو اسلامی تہذیب ختم ہو جائے گی۔

نتیجہ

آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے زوال کے آخری مراحل میں ہے۔ مغرب کی نام نہاد "روشن خیالی” کا پردہ فاش ہو چکا ہے، اور مسلمانوں کو چاہیے کہ مغرب کے مرعوب کن نظریات کے بجائے اپنی اسلامی شناخت اور جہاد کے ذریعے دینِ اسلام کے غلبے کے لیے کوشش کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1