روزے کی حالت میں بیوی پر زبردستی ازدواجی تعلق قائم کرنا
اسلام میں روزے کی حالت میں بیوی کے ساتھ زبردستی ازدواجی تعلق قائم کرنا ایک سنگین گناہ ہے، جو دو بڑے جرائم پر مشتمل ہے:
◈ بیوی پر زبردستی کرنا – یہ ایک ناپسندیدہ، حرام اور ظالمانہ فعل ہے۔
◈ روزہ توڑنا – جس پر سخت کفارہ لازم آتا ہے۔
روزہ توڑنے کا کفارہ کیا ہے؟
اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر لیتا ہے، تو اس پر کفارہ واجب ہوگا، جو نبی کریم ﷺ کی حدیث کی روشنی میں درج ذیل تین مراحل پر مشتمل ہے:
1. حدیث کی روشنی میں کفارہ
نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور گھبرا کر عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! میں ہلاک ہوگیا!”
آپ ﷺ نے پوچھا: "کیا ہوا؟”
اس نے جواب دیا: "میں نے رمضان کے دن میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا۔”
تو نبی ﷺ نے فرمایا:
◈ ایک غلام آزاد کرو (اگر استطاعت ہو)۔
◈ اگر یہ ممکن نہ ہو تو دو مہینے مسلسل روزے رکھو۔
◈ اگر یہ بھی نہ کر سکو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔
(صحیح بخاری: 1936، صحیح مسلم: 1111)
زبردستی کرنے کا گناہ
اگر شوہر بیوی کی رضا مندی کے بغیر زبردستی ازدواجی تعلق قائم کرے، تو یہ سخت گناہ ہے۔ اسلام میں کسی بھی فرد پر ظلم جائز نہیں، اور ازدواجی تعلق میں بھی باہمی رضا مندی ضروری ہے۔
اس گناہ کے شرعی اثرات:
◈ شوہر کو صدقِ دل سے اللہ سے توبہ کرنی چاہیے۔
◈ بیوی سے معذرت اور راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
◈ بعض فقہاء کے نزدیک یہ حد یا تعزیری سزا کا موجب بھی بن سکتا ہے۔
خلاصہ
◈ بیوی پر زبردستی کرنا سخت حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔
◈ روزے کی حالت میں جماع کے نتیجے میں کفارہ لازم آتا ہے، جو درج ذیل میں سے ایک ادا کرنا ہوگا:
➊ ایک غلام آزاد کرنا (اگر استطاعت ہو)۔
➋ دو ماہ مسلسل روزے رکھنا۔
➌ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔
◈ شوہر کو اللہ سے توبہ کرنی ہوگی اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ عزم کرنا ہوگا۔
یہ عمل نہ صرف بیوی پر ظلم ہے بلکہ روزے جیسے اہم عبادت کی خلاف ورزی بھی ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو اس سے بچنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔