شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ۔
سوال :
پورے دن سونے کا کیا حکم ہے ؟ اور جو شخص دن بھر سوئے اس کے صیام کا کیا حکم ہے ؟ اور جب بیدار ہو کر فرائض ادا کر کے سوتا رہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب :
یہ سوال دو حالتوں کو شامل ہے :
(1) ایک شخص پورے دن سوتا ہے، فرائض کی ادائیگی کے لئے بھی نہیں اٹھتا۔ بلا شبہ یہ شخص اپنے نفس پر زیا دتی کرنے والا اور وقت پر صلاۃ کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا ہے۔ اور اگر اس پر جماعت واجب ہے تو ترک جماعت کا بھی مجرم ہے جو اس پر حرام ہے اور اس کے صوم میں نقص پیدا کرنے والا ہے۔ اس کی مثال اس شخص کی ہے جو ایک محل بنا ئے اور پورا ایک شہر گرادے۔ پس ایسے شخص پر ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور بیدار ہوکر شریعت کے حکم کے مطابق وقت پر صلاۃ ادا کرے۔
(2) دوسرا وہ شخص ہے جو اٹھ کر وقت پر صلاۃ باجماعت ادا کرتا ہے تو وہ گنہ گار تو نہیں ہے۔ لیکن اپنے آپ کو بہت سی بھلا ئیوں سے محروم کر دیتا ہے۔ کیوں کہ صائم کے لئے صلاۃ، ذکر الٰہی، دعا اور قرأت قرآن میں مشغول رہنا افضل ہے، تاکہ وہ اپنے صوم کی حالت میں بہت سی عبادتوں کو جمع کر لے۔ اور جب انسان اپنے آپ کو عبادتوں کا عادی بنالے اور عبادتوں کے لئے اپنے نفس کو ٹرینڈ کر لے تو عبادتیں اس پر آسان ہو جا تی ہیں اور جب اپنے آپ کو سستی وکا ہلی اور راحت وآرام کا خو گر بنا لے تو اس پر صیام کی حالت میں عبادات اور اعمال صالحہ کی ادائیگی گراں گزرتی ہے۔ ایسے شخص کو میری نصیحت ہے کہ وہ صوم کا پورا وقت نیند میں نہ گزا رے بلکہ عبادتوں کا حریص بنے۔ اللہ کا شکر واحسان ہے کہ اس نے موجودہ دور میں ایر کنڈیشن وغیرہ کی ایسی آسانیاں پیدا کر دی ہیں جن سے صوم رکھنا بہت آسان ہو گیا ہے۔