رمضان کی قضا پے در پے روزوں کے ساتھ یا الگ الگ
دونوں طرح درست ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
لا باس أن يفرق لقول الله تعالى ”فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أَخَرَ“ [البقرة: 184]
” (رمضان کی قضا مسلسل نہیں بلکہ) الگ الگ روزے رکھ کر دی جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر لو (یہ نہیں فرمایا کہ پے در پے روزے رکھو) ۔“
[بخاري تعليقات: قبل الحديث / 1950]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی قضا کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن شاء فرق وإن شاء تابع
”اگر چاہے تو الگ الگ روزے رکھ لے اور اگر کوئی چاہے تو مسلسل رکھ لے ۔“
[ضعيف: تمام المنة: ص/ 423 ، دار قطني: 193/2 ، ابن الجوزي: 99/2 ، حافظ ابن حجرؒ نے اس كي سند كو ضعيف كها هے۔ تلخيص الجير: 394/2]
اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے لیکن قرآن کی مطلق آیت فعدة من أيام أخر اس بات کی متقاضی ہے کہ دونوں طرح قضا دینا درست ہے کیونکہ مقصود گنتی پوری کرنا ہے اور وہ دونوں طرح حاصل ہو جاتا ہے۔
جس روایت میں ہے کہ :
من كان عليه صوم من رمضان فليسرده ولا يقطعه ”جس کے ذمے رمضان کے روزے ہوں وہ انہیں مسلسل رکھے علیحدہ علیحدہ نہ رکھے ۔“ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: تمام المنة: ص/ 424 ، دار قطني: 191/2]