رمضان کی قضا تاخیر سے بھی درست ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میرے ذمے رمضان کے روزے ہوتے تو میں ماہ شعبان کے علاوہ (سارا سال) ان کی قضا دینے کی طاقت نہ رکھتی ۔
[أحمد: 124/6 ، بخاري: 1950 ، كتاب الصوم: باب متى يقضى قضاء رمضان ، مسلم: 1146 ، أبو داود: 2399 ، ترمذي: 783 ، نسائي: 150/4 ، ابن ماجة: 1669]
(شوکانیؒ ) اس حدیث میں مطلقا رمضان کی قضا تاخیر سے دینے کا جواز ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کسی عذر کی وجہ سے ہو یا بغیر کسی عذر کے۔
[نيل الأوطار: 211/3]
(البانیؒ) حق بات یہ ہے کہ اگر استطاعت ہو تو جلدی قضا دینا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [آل عمران: 133]
”اپنے رب کی مغفرت کی طرف دوڑو۔“
[تمام المنة: ص/ 421]
(ابن حزمؒ ) اسی کے قائل ہیں (انہوں نے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کو طاقت نہ ہونے پر محمول کیا ہے ) ۔
[المحلى: 260/6]