رفع یدین کے سنت متواترہ ہونے کا ثبوت
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب میں رفع یدین کیوں کروں؟ سے ماخوذ ہے۔

نماز میں رفع الیدین کرنا امام اعظم، احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفائے راشدین، صحابہ کرام ، اہل بیت رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام ، تبع تابعین ، محدثین کرام، فقہا اسلام اور اہل علم کا اس پر عمل صحیح اسناد اور تو اتر کے ساتھ ثابت ہے۔ پس اس سنت کا مذاق اڑانا اور کہنا کہ:
① رفع الیدین کرنا ”چہرے سے مکھیاں اڑانے“ کے مترادف ہے۔
② ارے بھئی! آپ تو ایسے لگ رہے تھے جیسے نماز میں اڑنے کی کوشش کر رہے تھے وغیرہ۔ انتہائی گھناؤنا عمل ہے۔
③ بقول مولوی عاشق الہی میرٹھی: ” بعض حنفیوں نے اہلحدیث یعنی غیر مقلدین زمانہ کو رفع الیدین پر کافر کہنا شروع کر دیا تھا۔“
[تذكرة الخليل، ص: 133،132، حاشيه.]
④ اور بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شروع زمانہ میں رفع الیدین کرتے تھے اور بعد میں چھوڑ دیا تھا۔ اور یہ اس لیے کیا جاتا تھا کہ لوگ نئے مسلمان تھے وہ بغلوں میں بت لے کر آتے تھے، پھر جب ان کا اسلام پختہ ہو گیا تو رفع الیدین منسوخ ہو گیا۔
یہ سب بلا دلیل اپنی طرف سے گھڑی ہوئی فضول باتیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان میں شک کے مترادف ہے۔ بلکہ یقینی طور پر ایسے ہے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں دس ایسی احادیث موجود ہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور مدینہ منورہ میں پیارے رسول صلى الله عليه وسلم کی آخری زندگی میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی رفع الیدین ثابت ہے، تو پھر کب منسوخ ہوا؟ یہ صرف فرقہ بندی ، اپنے ائمہ کی بات کو امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر ترجیح دینا اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔
اہل سنت والجماعت، امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ کتاب اللہ کے بعد ان دونوں کتابوں کا درجہ ہے، اور ان کی مشترکہ احادیث متفق علیہ کہلاتی ہیں۔ رفع الیدین کی حدیث متفق علیہ بھی ہے ، پھر بھی کوئی رفع الیدین نہیں کرتا تو امتیوں کے رتبہ کو رحمتہ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھانے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے کہ جس پر وحی بھی نہ اترے اور نبی بھی نہ ہو۔ اس کی بات کو بلا دلیل حجت اور حرف آخر مان لیا جائے۔ یہ کیسی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے؟

رفع الیدین سنت متواترہ ہے:

علامه مجدد الدین فیروز آبادی رحمتہ اللہ علیہ سفر السعادت میں لکھتے ہیں کہ رفع الیدین کی اتنی کثیر احادیث و آثار ہیں جو چار صدی تک پہنچ جاتے ہیں اور رفع الیدین سنت متواترہ ہے۔
[سفر السعادة، ص: 18، طبع قطر]
علمائے احناف میں سے علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی نے اسے متواتر تسلیم کیا ہے۔
[نيل الأوطار: 9/3/2]
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”رفع الیدین کی روایت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتنی بڑی تعداد نے بیان کی ہے کہ شاید اس سے زیادہ تعداد نے دوسری کوئی حدیث روایت نہیں کی۔ “
[ أعلام الموقعين، ص: 257 ]
عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: « هذا من السنة » ” یہ سنت ہے۔“
[العرف الشذى: 124/1]
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«من تركه فقد ترك السنة»
[جزء رفع اليدين، ص: 22 ]
”جس نے رفع یدین چھوڑا گویا کہ اس نے سنت کو چھوڑ دیا۔ “
امام محی السنہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أن مالكا فى آخر عمره ذهب السنيته»
[تنوير العينين، ص: 32]
”امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کے آخر میں یہ موقف اختیار کرلیا تھا کہ یہ سنت ہے۔ “
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اتفقت على رواية هذه السنة العشرة المشهود لهم بالجنة ومن بعدهم من أكابر الصحابة»
[تلخيص الحبير، ص: 80]
”عشرہ مبشرہ اور دوسرے اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رفع الیدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ “
امام حاکم اور ابوالقاسم ابن منزہ فرماتے ہیں: ” ہمیں کسی ایسی سنت کا پتا نہیں ، جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت پر چاروں خلفائے راشدین، عشرہ مبشرہ اور دیگر کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم متفق ہوں، اگر چہ خود دور دراز ممالک میں پھیلے ہوئے تھے ،سوائے اس سنت (رفع الیدین) کے۔ “
[فتح البارى: 2/ 220 ـ نصب الراية، باب صفة الصلاة: 418، 417/1]
رفع الیدین کے سنت متواترہ ہونے کی مزید تفصیل کے لیے آپ حدیث متواتر پرلکھی جانے والی کتب حدیث ملاحظہ فرمائیں:
( نظم المتناثر في الحديث المتواتر ، ص: 58 مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت ، قطف الأزهار المتناثرة في الأخبار المتواترة، ص: 95 ، طبوعة المكتب الإسلامي بيروت ، الآلي المتناثرة في الأحاديث المتواترة ، ص: 207، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت، وغيرها . )
امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں لکھا ہے کہ:
« فلم يثبت عند أحد منهم علم فى ترك رفع الأيدي عن النبى صلى الله عليه وسلم ولا عن أحد من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم أنه لم يرفع يديه .»
[جزء رفع اليدين بخاري، ص: 132]
”ائمہ دین میں سے کسی کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک رفع الیدین کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس طرح کسی صحابی سے بھی رفع الیدین نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ “
اور رسول مکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ:
«صلوا كما رأيتموني أصلى .»
[صحيح بخاري ، كتاب الأذان، رقم: 631]
”نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔“
اگر نماز کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہیں پڑھیں گے تو قبولیت کی اہم شرط گم ہو جائے گی۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع وسجود مکمل طور پر نہیں کر رہا تھا، تو آپ نے اس سے کہا:
« ما صليت ولو مت مت على غير الفطرة التى فطر الله محمدا صلى الله عليه وسلم .»
[صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم: 791]
” تم نے نماز نہیں پڑھی، اگر تم ایسے ہی مر گئے تو اس دین فطرت پر نہیں مرو گے، جس فطرت پر اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا تھا۔ “
سنت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے بغیر کیا ہوا عمل گمراہی ہے۔ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
«لوتركتم سنة نبيكم لضللتم .»
[صحيح مسلم، كتاب الصلواة، رقم: 654/257]
”اگر تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے.“

رفع الیدین کا ثواب:

”رفع الیدین نماز کی زینت اور باعث اجر و ثواب ہے۔ چنانچہ نعمان بن ابی عیاش رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر چیز کے لیے زینت ہوتی ہے، اور نماز کی زینت رفع الیدین ہے۔ “
[ جزء رفع اليدين ، ص: 59]
ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”نماز میں رفع الیدین کرنا نماز کی تکمیل کا باعث ہے۔ “
[جزء رفع اليدين، ص: 17]
”امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جو مقصد تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کا ہے، وہی مقصد رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کا ہے اور یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے۔ “
[كتاب الأم: 91/1۔ السنن الكبرى للبيهقي: 82/2]
سیدنا عقبہ بن عامر رضی الله عنہ مرفوعاً بیان فرماتے ہیں کہ:
” نماز میں جو شخص رفع الیدین کرتا ہے تو اس کے لیے ہر ایک اشارے کے بدلے ایک انگلی پر ایک نیکی یا درجہ ملتا ہے۔ “
[الـفـوائـد للبحيرى ق2/39۔ مسند الفردوس، للديلمي: 344/4ـ معجم كبير، للطبراني: 297/7 ـ مجمع الزوائد: 103/2۔ سلسلة الصحيحة: رقم: 3286.]
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام اسحاق بن راہویہ، امام احمد بن حنبل، علامہ ہیشمی اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی رفع الیدین کے متعلق قرار دیا ہے، لہذا یہی بات صحیح ہے۔
[معرفة السنن والآثار للبيهقي: 225/1]
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” آدمی اپنی نماز میں اپنے ہاتھ کے ساتھ جو اشارہ کرتا ہے اس کے عوض اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے۔ “
[طبراني كبير: 297/17 ـ سلسلة الصحيحة، رقم: 3286]
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین نماز کی زینت ہے، ایک مرتبہ رفع الیدین کرنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں ، ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی۔
[طحاوي: 152/1]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”رفع الیدین کرنا نیکیوں کو بڑھا دیتا ہے۔ “
[كتاب الصلاة، ص: 56]
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ‎﴾
[6-الأنعام:160]
” جو شخص نیکی کرے گا تو اسے اس کا دس گنا ملے گا، اور جو برائی کرے گا تو اسے اس کے برابر سزادی جائے گی، اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔ “
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو نیکی کرے گا، اسے دس گنا یا زیادہ اجر ملے گا، اور جو برائی کرے گا اسے ویسا ہی ملے گا یا میں اسے معاف کر دوں گا، اور جو مجھ سے ایک بالشت قریب ہوگا میں اس سے دونوں ہاتھوں کی لمبائی کے برابر قریب ہوں گا، اور جو میری طرف چل کر آئے گا میں اس کی طرف دوڑ کر آؤں گا۔“
[صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء رقم: 2687۔ مسند أحمد: 153/5]
مزید برآں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿‏ مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾
[2-البقرة:261]
”جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اُن کی مثال اُس دانے کی ہے، جس نے سات خوشے اُگائے ، ہر خوشہ میں سو دانے تھے، اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے اور بڑھا دیتا ہے، اور اللہ بڑی کشائش والا اور علم والا ہے۔ “
ایک دفعہ رفع الیدین کرنے سے دس نیکیاں ملیں تو چار رکعت والی نماز میں صرف رفع الیدین کرنے سے انسان سو (100) نیکیاں حاصل کر لیتا ہے۔ جبکہ پانچوں نمازوں کی نیکیاں (430) بنتی ہیں اور اسلامی سال کے (360) دن ہوتے ہیں۔ اس حساب سے ایک سال میں (154800) نیکیاں حاصل ہوں گی۔
اگر سنن راتبہ کو دیکھا جائے تو وہ ایک دن میں بارہ رکعت ہیں۔ جن میں رفع الیدین کی تعداد (60) ہے۔ اس لحاظ سے انسان سنن راتبہ ادا کرنے پر ایک دن میں چھ سو (600) نیکیاں حاصل کرلے گا۔ جبکہ ایک سال کی نیکیاں دولاکھ سولہ ہزار (216000) بنیں گی۔
سنن راتبہ اور فرائض میں صرف رفع الیدین پر حاصل ہونے والی نیکیاں تین لاکھ ستر ہزار آٹھ سو (370800) تک پہنچ جاتی ہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ مزید اخلاص پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ ان نیکیوں کو سات سو گنا زیادہ بڑھا دیں اور یہ نیکیاں (259560000) تک پہنچ جائیں۔ اور اگر کوئی شخص نماز تہجد ، اشراق، چاشت، توابین، نماز تسبیح اور دیگر نوافل کا عادی ہے تو اس کی نیکیاں تو اور ہی زیادہ ہوں گی۔ ان الله يرزق من يشاء بغير حساب

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز میں رفع الدین کرنا:

ہوتے ہوئے مصطفیٰ کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و کردار

حدیث سید نا ابو بکر صدیق رضى اللہ عنہ:

«قال البيهقى أخبرنا أبو عبدالله الحافظ ثنا أبو عبد الله الصفار املاء من اصل كتابه قال: قال: ابو إسماعيل محمد بن إسماعيل السلمى: صليت خلف ابي النعمان محمد بن الفضل فرفع يديه حين افتتح الصلوة ، وحين ركع ، وحين رفع رأسه من الركوع ، فسألته عن ذلك فقال: صليت خلف أيوب السختياني فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ، وإذا ركع ، وإذا رفع رأسه من الركوع ، فسألته فقال: رأيت عطاء بن أبى رباح يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ، وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع ، فسألته فقال: صليت خلف عبد الله بن الزبير فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ، وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع فسألته فقال: صليت خلف أبى بكر الصديق رضى الله عنه فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ، وإذا ركع ، وإذا رفع رأسه من الركوع ، وقال أبو بكر صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رأسه من الركوع .(رواته ثقات ).»
[السنن الكبرى للبيهقي: 73/2ـ التلخيص الحبير: 219/1 ـ المهذب فى اختصار السنن الكبير للذهبي: 49/2۔ امام بیہقی نے اس کے راویوں کو ”ثقہ“ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی اور ابن حجر نے ان کی موافقت فرمائی ہے۔ ]
امام بیہقی فرماتے ہیں کہ امام حافظ ابو عبداللہ الحاکم نے ہمیں حدیث سنائی، کہا کہ ہمیں ابو عبد اللہ محمد بن الصفار الزاہد نے اپنی کتاب میں سے حدیث بیان کی کہ ابو اسماعیل محمد بن اسماعیل سلمی کہتے ہیں ، کہ میں نے ابو النعمان محمد بن فضل کے پیچھے نماز پڑھی ، تو انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے ، اور رکوع سے اُٹھتے وقت، اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے ، پھر ان سے اس بارے میں پوچھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حماد بن زید کے پیچھے نماز پڑھی ، انھوں نے نماز پڑھی تو نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، رکوع سے سر اٹھاتے وقت، اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھایا ، میں نے اس بارے میں ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا، میں نے عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ (استاد ابو حنیفہ رحتمہ اللہ علیہ ) تابعی کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھایا۔ میں نے پوچھا، تو انہوں نے کہا میں سیدنا عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اُٹھاتے تھے۔ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، میں نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت اور رکوع کرتے وقت رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اُٹھایا کرتے تھے، اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی برحق ، رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت ، اور رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھاتے تھے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں۔“
فائدہ:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے والہانہ شینفتگی میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کی آخری نماز جو مسجد میں پڑھی ، وہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھی ، اور اس حدیث میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ گواہی دے رہے ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین کرتے تھے۔ پس ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری نماز بھی رفع الیدین کے ساتھ پڑھی، لہذا نسخ کا کہنا جہالت اور مذہبی تعصب سے خالی نہیں۔
➋ یہ روایت مسلسل ہے۔ اور مسلسل اس حدیث کو کہتے ہیں: ” کہ جس کے راوی اداء کے صیغوں، صفات اور حالات میں متفق ہوں، مثلاً ہاتھوں کی انگلیوں کو ہاتھوں میں ڈالنا، مصافحہ کرنا اور ڈاڑھی کو پکڑنا وغیرہ۔ “
[معجم مصطلح الحديث.]
یہ ضروری نہیں کہ سارے رواۃ متفق ہوں بلکہ ”مسلسل “کہلانے کے لیے اکثر کا اتفاق ضروری ہے۔
مسلسل روایت راویوں کے تام الضبط ہونے پر دلالت کرتی ہے، اس لحاظ سے وہ صحت کے اعلیٰ درجے پر ہوتی ہے۔
[تيسير مصطلح الحديث، ص: 174 ـ 177 ـ علوم الحديث، از ڈاكٹر عبد الرؤف ظفر، ص: 480۔ 484 .]
اب اس روایت پر غور فرمائیں کہ یہ اوّل تا آخر مسلسل ہے۔ روایت کا ہر راوی، تابعین، تبع تابعین، صحابہ، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک سے رفع الیدین ثابت ہے، اور روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں، لہذا یہ روایت صحت کے اعلیٰ درجہ پر ہے۔
حدیث مذکور پر اعتراضات اور ان کے جوابات:
(1)اعتراض:
اس حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن فضل السد وسی عارم ابو العمان ہے، تقریباً 213ھ میں اس کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اختلاط کا شکار ہو گیا اور اس کی عقل زائل ہو گئی۔
(1)جواب:
یادر ہے کہ محمد بن فضل سدوسی نے حافظہ کے تغیر کے بعد کوئی حدیث بیان نہیں کی۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«تغير قبل موته فما حدث»
[الكاشف: 110/2 .]
”موت سے پہلے اس کا حافظہ متغیر ہو گیا، اس نے اس کے بعد کوئی حدیث بیان نہیں کی۔“
امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ما ظهر له بعد اختلاطه حديث منكر وهو ثقة»
[ميزان الإعتدال: 8/4 ، نيز ديكهيں: سير أعلام النبلاء: 267/10.]
”اختلاط کے بعد اس سے کوئی منکر روایت ظاہر نہیں ہوئی اور یہ ثقہ راوی ہے۔“
پس معترضین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ محمد بن فضل السدوسی نے حافظہ کے تغیر کے بعد یہ حدیث بیان کی ہو۔ جب اس کی کوئی روایت ثابت ہی نہیں تو جرح بالکل فضول اور عبث ہے۔
(2)جواب :
مذکورہ روایت کے مطابق محمد بن فضل السدوسی امام تھے اور محمد بن اسماعیل السلمی مقتدی تھے۔ بھلا جس شخص کی عقل زائل ہو جائے اسے امام کون بناتا ہے؟
ستیاناس ہو فرقہ بندی کا جس کی بنا پر حق کو چھپایا جاتا ہے۔

احادیث سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ:

«عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه إذا افتح الصلاة ، وإذا كبر للركوع ، وإذا رفع رأسه من الركوع رفعهما كذلك أيضا ، وقال (سمع الله لمن حمده ربنا لك الحمد) وكان لا يفعل ذلك فى السجود»
[صحيح بخاري كتاب الاذان، باب رفع اليدين فى التكبيرة الاولى مع الافتتاح سواء رقم: 735 – صحيح مسلم، رقم: 390۔ صحيح ابن خزيمه: 1/ 232۔ صحيح ابن حبان: 3/ 168 ـ مسند ابي عوانه: 90/2۔ سنن ترمذي: 1/ 59، رقم: 200 ـ منتقي ابن الجارود، رقم: 178،177۔ شرح السنة: 30/3، رقم: 559ـ الإستذكار: 125/2.]
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اُٹھاتے ، اسی طرح جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے (تو دونوں ہاتھ اُٹھاتے) جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں تک اُٹھاتے اور سمع الله لمن حمده ربنا لك الحمد کہتے ، اور سجدوں میں رفع الیدین نہ کرتے تھے۔“
فائدہ:
حافظ عراقی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
«فـيـه فـوائد: الأولى فيه رفع اليدين فى هذه المواطن الثلاثة عند تكبيرة الإحرام وعند الركوع وعند الرفع منه وبه قال أكثر العلماء من السلف والخلف»
[طرح التثريب: 252/2 .]
”اس حدیث میں کئی فوائد ہیں: پہلا فائدہ اس میں یہ ہے کہ رفع الیدین ان تین مقامات پر ثابت ہے، نماز شروع کرتے وقت، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد، اور اکثر علماء سلف وخلف کا یہی قول ہے۔“
«عن نافع ، أن ابن عمر رضى الله عنه كان إذا دخل فى الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه وإذا قال: سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه، ورفع ذلك ابن عمر إلى النبي»
[صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم: 739.]
”نافع ( استاد امام مالک) سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب نماز میں داخل ہوتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین کرتے ، جب رکوع جاتے تو رفع الیدین کرتے ، جب سمع الله لمن حمده کہتے تو رفع الیدین کرتے اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو بھی رفع الیدین کرتے اور اس حدیث کو ابن عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع بیان کرتے تھے۔ “
«أن عبد الله بن عمر قال: صلى لنا النبى صلى الله عليه وسلم العشاء فى آخر حياته ، فلما سلم قام فقال: أرأيتكم ليلتكم هذه، فإن رأس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد»
[صحيح بخاري، كتاب العلم، رقم: 116]
”سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آخر عمر میں ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔“
فائده:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے ہیں جو اتباع سنت میں ممتاز تھے، اور جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زندگی کی آخری نمازیں پڑھیں۔ مزید برآں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین بھی روایت کرتے ہیں جیسا کہ ابھی گزرا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری زندگی میں بھی رفع الیدین کرتے تھے۔ اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخر عمر میں رفع الیدین نہ کرتے ہوتے تو وہ کبھی بھی رفع الیدین روایت نہ کرتے، بلکہ ترک رفع الیدین روایت کرتے۔ واللہ اعلم !

احادیث سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ:

مذکورہ بالا روایات سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے دو تلامذہ سے مروی ہیں۔ اور وہ ان کے بیٹے سالم اور دوسرے امام نافع ، اُستاد امام مالک رحمہ اللہ ہیں۔ امام نافع کے تلامذہ موسیٰ بن عقبہ، ایوب، عبید اللہ اور ارطاۃ بن المنذر ہیں، جبکہ سالم کے شاگرد ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ ہیں۔ یہ روایات تقریباً انہیں (19) کتب حدیث میں موجود ہیں۔ جدول کی مدد سے اس تفصیل کو خوب خوب سمجھ لیجیے گا۔

جدول احادیث ابن عمر رضی اللہ عنہ

حدیث سید نا مالک بن الحویرث رضی الله عنہ:

«عن مالك بن الحويرث رضی اللہ عنہ قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كبر رفع يديه ، وإذا ركع ، وإذا رفع رأسه من الركوع .»
[جزء رفع اليدين للبخاري، ص: 74 ، رقم: صحيح ابن خزيمه: 1/ 295۔ صحيح ابن حبان: 3/ 175]
”سیدنا مالک بن حویرث رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر تحریمہ کہتے ، اور جب رکوع کرتے ، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ “
فائدہ:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 9 ہجری میں غزوہ تبوک کے لیے تیاریوں میں مصروف تھے تو سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ منورہ تشریف لائے اور مشرف بہ اسلام ہوئے ، رخصت کرتے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تاکید فرمائی کہ تم نماز اسی طرح پڑھنا جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا۔ اور سید نا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھا تھا۔ سید نا مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ سنہ 9 ھ تک رفع الیدین ہوتا تھا اور خود سیدنا مالک رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل بھی رفع الیدین کا تھا۔ جیسا کہ آگے بیان ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ صحابی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین پر عمل کرتے تھے ، جیسا کہ ان سے جلیل القدر تابعی ابو قلابہ رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں۔

حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ :

«عن أبى هريرة رضی اللہ عنہ يقول: كان رسول الله إذا افتتح الصلاة كبر ، ثم جعل يديه حذو منكبيه وإذا ركع فعل مثل ذلك وإذا سجد فعل مثل ذلك، ولا يفعله حين يرفع رأسه من السجود وإذا قام من الركعتين فعل مثل ذلك»
[صحيح ابن خزيمه كتاب الصلاة، باب رفع اليدين عند القيام من الجلسه فى الركعتين الاولين للتشهد، رقم: 693۔ ابن خزيمه نے اس كو ”صحيح“ كها هے۔]
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تھے تو ہاتھوں کو کندھوں تک اُٹھاتے تھے، اور جب رکوع کرتے تھے تب بھی اسی طرح کرتے تھے ، اور جب سجدہ کرتے تھے، (یعنی سجدے کے لیے رکوع سے سیدھے ہوتے تھے) تب بھی اسی طرح کرتے تھے، سجدے سے اُٹھتے وقت اسی طرح نہیں کرتے تھے جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تھے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ “

حديث سيدنا على بن ابي طالب رضي الله عنہ :

«عن على بن أبى طالب رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه إذا كبر للصلاة حذو منكبيه، وإذا أراد أن يركع وإذا رفع رأسه من الركوع ، وإذا قام من الركعتين فعل مثل ذلك .»
[جزء رفع اليدين للبخارى، ص: 56 ، رقم: 1- مسند احمد: 1/ 93 – صحيح ابن خزيمه: 1/ 294۔ ابن خزيمه نے اسے ”صحيح“ كها هے۔]
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اُٹھاتے ، اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ، اور جب تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تو اسی طرح ہاتھ اوپر اُٹھاتے۔“
فائدہ:
مولوی فیض احمد مالتانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
[نماز مدلل ص: 137، 138 طبع مكتبه حقانيه، ملتان۔]

حدیث سیدنا انس رضی الله عنہ:

«عن أنس قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع .»
[مسند ابي يعلي: 424/6 – 425 – جزء رفع اليدين للبخاري: 7/8۔ سنن ابن ماجه، كتاب اقامة الصلوات والسنة فيها، رقم: 866- سنن دار قطني: 290/1۔ شيخ الباني رحمہ اللہ نے اسے ”صحيح“ كها هے۔]
”سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب وہ نماز شروع کرتے ، اور جب رکوع میں جاتے اور اسی طرح جب رکوع سے سیدھے ہوتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔“
فائدہ:
یہ حدیث حمید الطويل عن انس رضی اللہ عنہ کے طریق سے مروی ہے۔ اور بریلوی فقیہ اعظم مولوی ابو یوسف محمد شریف کو ٹلوی حمید عن انس رضی اللہ عنہ کے طریق کے بارہ میں ایک مقام پر امام دار قطنی اور مولوی نیموی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
رواته كلهم ثقات اور اسناده جيد .
[نماز حنفي بدليل ص: 95 234 طبع فريد بك سٹال، لاهور۔]

احادیث سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ:

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ حضرموت (یمن ) کے شہزادے تھے۔ وہ اسلام کی محبت لے کر مدینہ آ گئے ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے ساتھ منبر پر بٹھایا، اور ان کے لیے اپنے علاقہ میں زمین کا حصہ مقرر فرمایا ، اور ان کو لکھا ہوا حکم نامہ دیا۔ اور فرمایا یہ اپنے قبیلے کا سردار ہے۔
[الاصابة: 595/3]
«عن وائل بن حجر أنه رأى النبى صلى الله عليه وسلم رفع يديه حين دخل فى الصلوة ، كبر وصف همام حيال أذنيه ثم التحف بثوبه ثم وضع يده اليمنى على اليسرى ، فلما أراد أن يركع أخرج يديه من الثوب ثم رفعهما ، ثم كبر فركع فلما قال: سمع الله لمن حمده رفع يديه فلما سجد سجد بين كفيه»
[صحيح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: 896 .]
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ جب نماز میں داخل ہوئے تو رفع الیدین کیا، اور الله اَكْبَرُ کہا ، پھر اپنے آپ کو کپڑے میں لپیٹا ، پھر اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، پھر جب رکوع کا ارادہ کیا تو کپڑے سے ہاتھ نکال کر رفع الیدین کیا ، اور اللَّهُ اَكْبَر کہہ کر رکوع کیا، اور جب سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَه کہا تب بھی رفع الیدین کیا، اور سجدہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا۔“
«عن وائل بن حجر الحضرمى قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة، رفع يديه ، وإذا ركع وبعد ما يرفع رأسه من الركوع قال وائل: ثم أتيتهم فى الشتاء فرأيتهم يرفعون أيديهم فى البرانس»
[مسند حميدي: 342/2]
سیدنا وائل بن حجر الحضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے نماز شروع کرتے وقت، اور جب رکوع کیا، اور جب رکوع سے سیدھے کھڑے ہوئے تو رفع الیدین کیا۔
سیدنا وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
”میں دوبارہ آپ کے پاس سردی کے موسم میں آیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے چادریں اوڑھی ہوئی تھیں ، اور میں نے دیکھا کہ وہ ان کے اندر سے رفع الیدین کر رہے تھے۔“
فائدہ:
سید نا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زندگی میں مسلمان ہوئے۔ اور سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رفع الیدین کرتے تھے، سید نا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس 9 اور 01 ہجری میں تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رفع الیدین کرتے تھے۔ پس جو بھی رفع الیدین کی منسوخیت کا قائل ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ اس کے بعد کی کوئی حدیث پیش کرے۔ کیونکہ ناسخ منسوخ سے متاخر ہوتا ہے۔ اب اگر سنہ 10ھ کے بعد کی کوئی ترک یا منسوخیت رفع الیدین کی حدیث ہے تو پھر بات بنتی ہے، وگر نہ خالی منسوخیت کا دعوی کرنے سے منسوحیت ثابت نہیں ہوتی۔
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ یمن کے شہزادے تھے اور بادشاہوں کی اولا د میں سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے آنے سے تین دن پہلے ہی آپ کی بشارت دے دی تھی۔
[كتاب الثقات ابن حبان: 425، 424/3]
9 ہجری میں جو وفو د سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان میں سیدنا وائل رضی اللہ عنہ کی آمد کا بھی ذکر کیا ہے۔
[البداية والنهاية: 71/5]
سید نا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 01 ہجری میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوبارہ آئے تھے۔
[صحيح ابن حبان: 3/ 168 .]
10 ہجری کو بھی سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے رفع الیدین کا ہی مشاہدہ فرمایا۔
[سنن ابي داؤد، رقم: 727- سنن نسائي، رقم: 1158 ۔ محدث الباني رحمہ الله نے اسے صحيح كها هے۔]
چنانچہ علامہ ابو الحسن السندھی الحنفی رقم طراز ہیں:
”سید نا مالک بن الحویرث اور سیدنا وائل بن حجر بن رضی اللہ عنہ رفع الیدین بیان کرنے والے وہ راوی ہیں، جنھوں نے آپ کی آخری عمر میں آپ کے ساتھ نماز ادا کی ہے۔ پس ان دونوں صحابہ کا عــنــد الركوع والرفع منه کے وقت رفع الیدین بیان کرنا، رفع الیدین کے تاخر اور اس کے دعوئی نسخ کے بطلان کی دلیل ہے۔ ہاں ! اگر نسخ مانا ہی ہے تو ترک رفع الیدین کو منسوخ مانا جائے۔ “
[حاشيه ابن ماجه: 1/ 282۔ طبع دار الجيل، بيروت.]

حدیث فلطان بن عاصم جری رضی الله عنہ:

سیدنا فلطان بن عاصم جری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«أتيت النبى صلى الله عليه وسلم فوجدتهم يصلون فى البرانس والأكيفية يرفعون أيديهم الخ»
[فوائد تمام للرازي: 102/1۔ طبقات محدثى أصبهان: 76/2۔ تاريخ أصبهان: 162/2 .]
”میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ سمیت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ “
تنبيه:
ہمارے مسلمان بھائی ! ان احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھنے کے بعد آئندہ صفحات میں آنے والی نماز میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے کا عملی اظہار بھی ہونا چاہیے۔ وگرنہ زبانی محبت کا دعویٰ بغیر عملی ثبوت کے اللہ عز وجل قبول نہیں فرماتا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ﴾
[47-محمد: 33]
”اے ایمان والو! اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد نه کرو۔ “

خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا رفع الیدین کرنا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عضوا، عليها بالنواجذ .»
[سنن ابن ماجه، الـمـقدمه، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، رقم: 42 ـ سنن ترمذي، رقم: 2671 ـ سنن أبو داؤد، رقم: 4607 ـ إرواء الغليل، رقم: 2455 . المشكاة، رقم: 165 ـ صلاة التراويح، رقم: 88 ، 89۔ الباني رحمہ الله نے اسے ”صحيح“ كها هے۔]
”میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، بلکہ اسے اپنی داڑھوں سے مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں خلفاء راشدین، خلفاء اربعہ، سیدنا ابوبکر صدیق ، عمر ، عثمان اور علی رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل کرنا فرض ہے، اور ذیل کی احادیث مبارکہ میں دیکھیں ، تو پتا چلے گا کہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم رفع الیدین کرتے تھے، اب حق چار یار کا نعرہ لگانے والے رفع الیدین کے تارک کیوں ہیں؟ بات سمجھ سے باہر ہے۔ حقیقی طور پر محبان صحابہ واہل سنت والجماعت وہی لوگ ہیں جو فہم وعمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر عمل پیرا ہیں۔

سیدنا ابو بکر صدیق رضي الله عنہ :

سید نا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”میں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انھوں نے نماز شروع کرتے، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا۔“
[السنن الكبرى للبيهقي: 73/2.]

سیدنا عمر بن خطاب رضي الله عنہ:

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی دونوں ہاتھ اٹھاتے۔
[السنن الكبرى للبيهقي: 23/2.]
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ جس وقت نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ، رفع الیدین کرتے اور سید نا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ایسے ہی ثابت ہے اور اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔
[السنن الكبرى للبيهقى۔ الكنى للدولابي، ص: 73 .]
عبد اللہ بن قاسم سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ لوگ مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور انہوں نے کہا: لوگو! ذرا اپنے چہرے میری طرف کرلو، میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر بتاتا ہوں، جو آپ خود پڑھتے تھے، اور ویسی ہی نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے، پس سیدناعمر رضی اللہ عنہ قبلہ رو کھڑے ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا یہاں تک کہ دونوں کو اپنے کندھوں کی سیدھ میں برابر کیا۔ پھر اللہ اکبر کہا، پھر رکوع کیا اور اسی طرح رکوع سے سر اٹھاتے وقت کیا تو قوم کے لوگوں سے کہا کہ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تھے، شیخ نے کہا کہ اس کی سند کے راوی معروف ہیں۔
[تخريج الهداية، ص: 216.]

سیدنا عثمان بن عفان رضي الله عنہ:

امام بیہقی اور حاکم نے کہا ہے کہ:
« فَقَدْ رُوِيَ هَذِهِ السُّنَّةُ عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وعلي. »
[التعليق المغني، ص: 111۔ جزء رفع يدين سبكي، ص: 9 .]
” سنت رفع الیدین ابوبکر صدیق ، عمر ، عثمان اور علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے۔ “
امام بیہقی فرماتے ہیں:
«لأن رفع اليدين قد صح عن النبى صلى الله عليه وسلم ثم عن الخلفاء الراشدين ثم عن الصحابة والتابعين .»
[السنن الكبرى: 81/2.]
” یعنی رفع الیدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء الراشدین پھر تمام صحابہ اور تابعین سے ثابت ہے۔ “

سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ :

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہتے تو دونوں ہاتھوں کو اونچا اور کاندھوں کی سیدھ اور محاذ میں کر لیتے۔ اسی طرح جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے اور دو رکعت پڑھ کر اٹھتے رفع الیدین کرتے تھے۔
[جزء القرأة للبخاري، ص: 6۔ سنن ابو داؤد، رقم 739۔ مسند أحمد: 165/3 ـ سنن ابن ماجه، ص: 62 ـ صحيح ابن خزيمه، رقم: 584 .]
نیز امام بخاری رحمہ اللہ جزء رفع الیدین کے شروع میں یہ حدیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: سترہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«أنهم كانوا يرفعون أيديهم عند الركوع وعند الرفع منه»
”بے شک وہ رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔“
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رفع الیدین کرتے تھے:
ہر کسی کو چاہیے کہ وہ اسی ایمان سے متصف ہو جائے ، جس ایمان سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم متصف تھے اور جس کا ذکر قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں ہے، تو وہ بندہ صراط مستقیم پر گامزن ہو جائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾
[2-البقرة:137]
”پس اگر یہ تمہاری طرح ایمان لے آئیں، تو راہ راست پر آگئے ، اور اگر انہوں نے حق سے منہ پھیر لیا، تو وہ مخالفت وعداوت پر آگئے ، پس اللہ آپ کے لیے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا، اور وہ بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:
«إقتدوا باللذين من بعدى من أصحابي ، أبى بكر وعمر، واهتدوا بهدي عمار ، وتمسكوا بعهد ابن مسعود»
[صحيح الجامع الصغير، رقم: 1143، 1144، 2511 ـ سلسلة الصحيحة، رقم: 1233.]
” تم میرے بعد میرے صحابہ کی اقتداء کرنا، جیسے ابوبکر وعمر ہیں، اور عمار کی سیرت کو اپناؤ اور ایسے ہی ابن مسعود کی بیان کردہ باتوں کو مضبوطی سے تھام لو۔“ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جماعت قابل اتباع واقتداء ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو صحابہ کے فہم وعمل کے مطابق سمجھ کر اس پر عمل کریں گے تو بات بنے گی وگر نہ سنت رسول کو نہ تو صحیح معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء اربعہ کی طرح دوسرے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی رفع الیدین کرتے تھے۔ لہذا رفع الیدین کرنا سنت ہے جو کہ منسوخ نہیں ہوئی۔ اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حنفی ، مالکی ، شافعی اور حنبلی نماز پڑھی، جس کا اس وقت وجود تک نہ تھا، بلکہ تقلید آباء کی راہ کی بجائے اتباع رسول اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اختیار کی ، اور یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ، حسن بصری ، حمید بن ہلال اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ بغیر کسی استثنی کے فرماتے ہیں: ”تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز کی ابتداء میں ، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کیا کرتے تھے۔
[جزء رفع اليدين: 48، 34 49 – السنن الكبرى للبيهقي: 75/2 ، رقم: 2525، 2524 .]
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ”تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رفع الیدین کیا کرتے تھے۔“
[ المحلى، مسألة رفع اليدين عند: 580/2.]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنے استاد حافظ ابوالفضل رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:
«أنه تتبع من رواه من الصحابة فبلغوا خمسين رجلا»
[فتح البارى: 220/2 .]
”انھوں نے صحابہ کرام کے متعلق تتبع کیا تو وہ پچاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جو رفع الیدین کی روایت بیان کرتے ہیں۔ “
«عن الحسن قال: كان أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم كأنما أيديهم المراوح يرفعونها إذا ركعوا ، وإذا رفعوا رؤوسهم .»
[ جزء رفع اليدين، ص: 108 ـ مصنف ابن ابي شيبه: 435/1۔ سنن الكبرى للبيهقي: 75/2۔ المحلي، لابن حزم: 89/4]
” حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ہاتھ پنکھوں کی طرح ہوتے تھے کہ رکوع کرنے اور رکوع سے سیدھے ہونے کے وقت ہاتھ اوپر اٹھاتے تھے۔“
«عن حميد بن هلال قال: كان أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم إذا صلوا كان أيديهم حيال آذانهم كأنها المراوح .»
[جزء رفع اليدين، ص: 108.]
”حمید بن ہلال رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نماز میں رفع الیدین کرتے تھے، ان کے ہاتھ پنکھوں کی طرح اوپر نیچے ہوتے تھے۔“
«عن أبى موسى الأشعري قال: هل أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر ورفع يديه ، ثم كبر ورفع يديه ، ثم قال: سمع الله لمن حمده ثم رفع يديه ، ثم قال هكذا فاصنعوا ، ولا يرفع بين السجدتين .»
[سنن دار قطني، كتاب الصلاة: 1/ 292 – الاوسط، لابن المنذر: 138/3 – حافظ ابن حجر نے كها هے كه اس كے راوي ثقه هيں۔]
”سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ یہ روایت کرتے ہیں انھوں نے کہا: کیا تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بتاؤں اور سکھاؤں؟ پھر الله اكبر کہہ کر اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے ، پھر رکوع کے لیے تکبیر کہہ کر دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے ، پھر سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہہ کر ہاتھ اوپر اٹھائے ، پھر کہا اسی طرح کیا کرو اور سجود میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ “
«عن أبى قلابة أنه رأى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه ، وإذا أراد أن يركع رفع يديه ، وإذا رفع رأسه من الركوع رفع يديه ، وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا . »
[ تلخيص الحبير: 1/ 219. صحيح بخاري، كتاب الاذان، باب رفع اليدين فى الاولى مع الافتتاح سواء، رقم: 737 ـ صحيح مسلم: 158/1 – صحيح ابن خزيمه: 295/1 – صحيح ابن حبان: 3/ 175 .]
”ابو قلابہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انھوں نے سید نا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب انھوں نے نماز شروع کی تو تکبیر کہی ، اور رفع الیدین کیا، اور جب رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو رفع الیدین کیا، اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو رفع الیدین کیا، اور انھوں نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔“
«عن عبد ربه بن سليمان بن عمير قال: رأيت أم الدرداء رضى الله عنه ترفع يديها فى الصلاة حذو منكبيها حين تفتتح الصلاة ، وحين تركع ، فإذا قالت سمع الله لمن حمده رفعت يديها،وقالت ربنا ولك الحمد . »
[جزء رفع اليدين، ص: 100، رقم: 35.]
”عبد ربہ سلیمان بن عمیر سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا کودیکھا نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اُٹھاتی تھیں، جب نماز شروع کرتی تھیں اور جب رکوع کرتی تھیں ، اور جب سمع الله لمن حمده کہتی تھیں تو ربنا ولك الحمد بھی کہتی تھیں۔
«عن عباس بن سهل قال اجتمع أبو حميد وأبو أسيد وسهل بن سعد و محمد بن حمد بن مسلمة فذكروا صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أبو حميد: أنا أعلمكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فكبر فرفع يديه ، ثم رفع يديه حين كبر للركوع فوضع يديه على ركبتيه .»
[جزء رفع اليدين للبخاري، ص: 73، رقم: 5.]
”عباس بن سہل فرماتے ہیں کہ ابو حمید ، ابو اسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہا اکٹھے ہوئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کرنے لگے۔ ابوحمید نے کہا: میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو جانتا ہوں ، پس وہ کھڑے ہوئے ، تکبیر کہی اور رفع الیدین کیا۔ پھر جب رکوع کے لیے تکبیر کہی تو رفع الیدین کیا، اور اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے۔“
فائدہ:
یہ روایت سنن ابو داؤد (730) اور سنن ترمذی (304) میں موجود ہے، اس میں ہے کہ ابوحمید الساعدی نے دس صحابہ کی مجلس میں کہا کہ میں تم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جانتا ہوں۔ پھر انہوں نے نماز پڑھ کر دکھائی تو تمام صحابہ نے اس پر کہا کہ «صدقت هكذا يصلى » ”آپ نے سچ کہا؛ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔“
اس میں بھی رکوع سے سر اٹھاتے ، اور دو رکعتوں سے اُٹھ کر رفع الیدین کرنا موجود ہے۔ اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کی بات ہے کہ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پر گفتگو کرتے ہیں ورنہ وہ کہہ دیتے چلو سامنے چل کر دیکھ لیتے ہیں۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن یحیی کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص حدیث ابوحمید سننے کے باوجود رکوع میں جاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین نہیں کرتا تو اس کی نماز ناقص ہوگی۔ “
[صحيح ابن خزيمه: 1/ 298۔ ابن خزيمه نے اسے صحيح كها هے۔]
«عن أبى حمزة قال: رأيت ابن عباس رضى الله عنه يرفع يديه حيث كبر، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع .»
[جزء رفع اليدين للبخارى، ص: 94 ، رقم: 21]
”ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کودیکھا کہ آپ تکبیر تحریمہ کہتے اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔“
«عن عطاء قال: رأيت جابر بن عبد الله ، وأبا سعيد و ابن عباس وابن الزبير يرفعون أيديهم حين يفتتحون الصلاة ، وإذا ركعوا ، وإذا رفعوا رؤوسهم من الركوع .»
[جزء رفع اليدين للبخاري، ص: 152.]
” (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اُستاد ) عطاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن زبیر، سیدنا ابوسعید اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہم اجمعین کو دیکھا کہ نماز شروع کرنے کے وقت ، اور رکوع کے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ “
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب کسی کو رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھتے دیکھتے تو اسے کنکریاں مارتے اور فرماتے کہ رفع الیدین نماز کی زینت ہے۔
[جزء رفع اليدين، ص: 86 – مسند حميدي: 277/2.]
«عن نافع أن ابن عمر كان إذا دخل فى الصلوة رفع يديه، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال سمع الله لمن حمده رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه ، ورفع ذلك ابن عمر إلى النبى صلى الله عليه وسلم»
[ صحيح بخارى، كتاب الأذان، رقم: 739 ـ صحيح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: 390.]
(اُستاد امام مالک رحمہ اللہ ) نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نماز میں داخل ہوتے وقت تکبیر کہتے ، اور رفع الیدین کرتے۔ اور جب سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے تھے تو رفع الیدین کرتے ، اور جب دورکعتوں سے اُٹھتے تھے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اسے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع بیان کرتے ہیں۔“
فائدہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بنا پر مسلمانوں کے لیے رفع الیدین کرنا ضروری ہے۔
[ التلخيص الحبير: 1/ 218.]
«عن أبى الزبير أن جابر ابن عبد الله كان إذا افتح الصلوة رفع يديه ، وإذا ركع ، وإذا رفع رأسه من الركوع فعل مثل ذلك ويقول: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل مثل ذلك .»
[سنن ابن ماجه، كتاب اقامة الصلوات ، رقم: 868- مسند مسند السراج، ص: 62 – الباني رحمہ الله نے اسے "صحيح” كها هے۔]
” ابو زبیر سے روایت ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھاتے تھے، اور جب رکوع کرتے تھے اور رکوع سے سر اوپر اُٹھاتے تھے، تب بھی اسی طرح ہاتھ اوپر اُٹھاتے تھے، اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح ہاتھ اوپر اٹھاتے تھے۔ “
عبداللہ بن القاسم فرماتے ہیں کہ:
«بينما الناس يصلون فى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ خرج عليهم عمر بن الخطاب رضى الله عنه فقال: أقبلوا على بوجوهكم أصلى بكم صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم التى كان يصلي ويأمر بها ، فقام مستقبل القبلة ورفع يديه حتى حاذا بهما منكبيه ، كبر ثم غض بصره ، ثم رفع يديه حتى حاذا بهما منكبيه ، ثم ركع وكذلك حين رفع قال للقوم هكذا كان رسول الله يصلي بنا.»
[نصب الراية 416/1 ـ مسند الفاروق، لابن كثير، ص: 165، 166 ـ شرح ترمذي، لابن سيد الناس 217/2 ، واللفظ له.]
لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ان کے پاس عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا: ”لوگو! اپنے چہرے میری طرف کرو، میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر دکھاتا ہوں، جو آپ پڑھتے تھے، اور جس کا حکم دیتے تھے۔ پس آپ قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے ، اور اپنے کندھوں تک رفع الیدین کیا، اور اللهُ أَكْبَرُ کہا۔ پھر آپ نے اپنی نظر جھکالی، پھر آپ نے رفع الیدین کیا۔ حتی کہ آپ کے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر ہو گئے ، پھر آپ نے تکبیر کہی ، پھر رکوع کیا، اور اسی طرح رفع الیدین کیا ، جب آپ رکوع سے کھڑے ہوئے۔ آپ نے نماز کے بعد لوگوں سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس طرح نماز پڑھاتے تھے۔“
«عن عاصم قال رأيت آنس بن مالك رضى الله عنه إذا افتتح الصلاة كبر ورفع يديه، ويرفع كلما ركع ، ورفع رأسه من الركوع»
[جزء رفع اليدين، رقم: 56، 20، ص: 93 .]
”عاصم سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ جب انھوں نے نماز شروع کی تکبیر کہی ، اور رفع الیدین کیا ، اور جب رکوع کیا کرتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔“
سیدنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین شروع نماز میں ، رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین کرتے تھے۔ اس کی سند بالکل صحیح ہے۔
[السنن الكبرى للبيهقي: 75/2.]
ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے:
➊ ابو بکر صدیق
➋ عمر بن خطاب
➌ عثمان بن عفان
➍ علی بن ابی طالب
➎ مالک بن حویرث
➏ ابو موسیٰ اشعری
➐ عبداللہ بن زبیر
➑ انس بن مالک
➒ عبد اللہ بن زبیر
➓ عبد اللہ بن عباس
⓫ وائل بن حجر
⓬ جابر بن عبد الله
⓭ ابو سعید
⓮ ابوحمید اور
⓯ فلطان بن عاصم جری رضی اللہ عنہم اجمعین .
یہ وہ بارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین کی روایت کرتے ہیں۔ مذکورہ احادیث کا خلاصہ اس جدول کی مدد سے سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے:

پندرہ صحابہ سے رفع یدین کی احادیث مروی ہیں
تابعین کا رفع الیدین کرنا :

تابعین عظام رحمہ اللہ کا گروہ بھی قابل اقتداء ہے۔ کیونکہ وہ خیر القرون میں شامل ہیں اور انہوں نے علم بالواسطہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سیکھا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر وردہ آغوش رسالت تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک ہے:
«خيركم قرني ، ثم الذين يلونهم ، ثم الذين يلونهم .»
[صحيح بخاري، كتاب الشهادات، رقم: 2651.]
” تم میں سے بہتر لوگ میرے زمانے کے ہیں، (یعنی صحابہ کرام ) پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی تابعین ) پھر وہ لوگ جو اس کے بعد آ ئیں گے۔ “ (تبع تابعین )
چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رفع الیدین کے قائل و فاعل تھے، تو تابعین عظام رحمہ اللہ نے اس سنت کو اپنایا اور ہمیشہ اس پر عمل پیرار ہے۔
(1) «عن الربيع بن صبيح قال: رأيت محمدا والحسن وآبا نضرة والقاسم بن محمد وعطاء وطاؤسا ومجاهدا والحسن بن مسلم ونافعا وابن أبى نجيح إذا افتحوا الصلوة رفعوا أيديهم وإذا ركعوا ، وإذا رفعوا رووسهم من الركوع. »
[جزء رفع اليدين، ص: 67۔ التمهيد: 218/9.]
ربیع بن صبیح کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن سیرین، حسن بصری، ابونضرة، قاسم بن محمد (سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے ) عطاء بن ابی رباح (ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاد ) طاؤس یمانی ، مجاہد ، حسن بن مسلم، نافع (امام مالک کے استاد ) اور عبداللہ بن ابی نجیح رحمہ اللہ کو دیکھا کہ جب نماز شروع کرتے ، اور جب رکوع کرتے ، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔“
(2) «عن ابن عجلان قال: سمعت النعمان بن أبى عياش يقول: لكل شيء زينة وزينة الصلاة أن ترفع يديك إذا كبرت ، وإذا ركعت ، وإذا رفعت رأسك من الركوع.»
[جزء رفع اليدين، ص: 59 .]
” محمد بن عجلان سے روایت ہے کہ نعمان بن ابی عیاش سے میں نے سنا ، کہتے تھے کہ ہر چیز کے لیے زینت ہوتی ہے، اور نماز کے لیے زینت یہ ہے کہ جس وقت تکبیر تحریمہ کہو، جس وقت رکوع کرو اور جس وقت رکوع سے سیدھے کھڑے ہو تو دونوں ہاتھ اوپر اٹھا ؤ یعنی رفع الیدین کرو۔ “
(3) «عن داود بن إبراهيم قال: رأيت وهب بن منبة إذا كبر فى الصلاة رفع يديه حتى تكونا حذو أذنيه ، وإذا ركع ، وإذا رفع رأسه من الركوع .»
[مصنف عبدالرزاق: 69/22۔ التمهيد: 228/9.]
”داؤد بن ابراہیم سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے وہب بن منبہ تابعی کو دیکھا کہ جب پہلی تکبیر کہتے اور جس وقت رکوع کرتے ، اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو کانوں کے برابر رفع الیدین کرتے۔“
(4) «عن عكرمة بن عمار قال: رأيت سالم بن عبد الله والقاسم بن محمد وعطاءا ومكحولا يرفعون أيديهم فى الصلاة إذا ركعوا وإذا رفعوا .»
[جزء رفع اليدين، رقم: 62 .]
”عکرمہ بن عمار سے روایت ہے، کہتے ہیں: میں نے سالم بن عبداللہ، قاسم بن محمد ، عطاء (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اُستاد ) اور مکحول کو دیکھا کہ نماز میں رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔ “
(5) «عن عبد الملك قال: سألت سعيد بن جبير عن رفع اليدين فى الصلاة فقال: هو شيء تزين به صلاتك .»
[جزء رفع اليدين، رقم: 108۔ السنن الكبرى للبيهقي: 75/2.]
”عبد الملک بن سلیمان سے روایت ہے کہ میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے نماز میں رفع الیدین کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ ایک ایسا عمل ہے، جس سے تو اپنی نماز کو مزین کرتا ہے۔ “

سید نا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ اور رفع الیدین:

امام بخاری رحمہ اللہ جزء رفع الیدین میں لکھتے ہیں:
«عمروا بن المهاجر قال: كان عبد الله بن عامر ليسألني أن استأذن على عمر بن عبد العزيز، فاستأذنت له عليه فقال: الذى جلد أخاه فى أن يرفع يديه أن كنا لنودب عليه ونحن غلمان بالمدينة ، فلم يأذن له . »
[جزء رفع اليدين، رقم: 17 .]
” عمرو بن مہاجر نے کہا: عبداللہ بن عامر مجھے کہتے ہیں کہ میں انہیں خلیفہ المسلمین عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس لے جاؤں، میں نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے جب اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: یہ عبداللہ بن عامر وہی ہے جس نے اپنے بھائی کو رفع الیدین کرنے پر کوڑا مارا تھا۔ ہمیں تو رفع الیدین سکھایا جاتا تھا، جب کہ ہم مدینہ میں بچے تھے۔ پس عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اسے اپنے پاس آنے کی اجازت نہ دی۔ “
درج ذیل تابعین، فقہاء سے بسند صحیح رکوع سے پہلے اور بعد میں رفع الیدین کرنا ثابت ہے:
➊ حسن بصری
➋ عطاء بن ابی رباح (استاد امام ابوحنیفہ )
➌ طاؤس (شاگرد ابن عباس رضی الله عنہ )
➍ مجاہد
➎ نافع (مولی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ استادامام مالک
➏ سالم
➐ سعید بن جبير رحمہ اللہ
[سنن ترمذي، كتاب الصلاة، باب رفع اليدين عند الركوع، رقم: 256 .]
➑ ابو قلابه
➒ ابن ابی نجحیح
➓ حسن بن مسلم
⓫ عبد اللہ بن دینار
⓬ قاسم بن محمد
⓭ عمر بن عبد العزيز
⓮ قیس بن سعد
⓯ محمد بن سیرین
⓰ مکحول رحمہ اللہ
[جزء رفع اليدين للإمام البخاري: 63، 56، 64 .]
⓱ نعمان بن ابی عیاش
جدول:
قارئین کرام! تابعین عظام رحمہ اللہ نے علم نبوت ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حاصل کیا تھا، اور جو کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں بتلایا ، وہ اُس پر عمل پیرا رہے۔ رفع الیدین کرنا تابعین عظام رحمہ اللہ سے ثابت ہے۔ ذیل میں دیے گئے جدول کی مدد سے آپ کو بات اچھی طرح سمجھ آ جائے گی کہ تابعین نے یہ سنت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اخذ کی اور انہوں نے اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔ پس اگر کوئی شخص تابعین کی اقتداء کرنے والا ہو تو بھی رفع الیدین کا تارک نہیں ہو سکتا۔ اس جدول میں آپ دیکھیں گے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاد محترم جناب عطاء ابن ابی رباح رحمہ اللہ رفع الیدین کی حدیث کے راوی ہیں اور وہ خود بھی رفع الیدین کرتے تھے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے کہ صحیح حدیث میرا مذہب ہے تو ایسی عظیم ہستی کی تقلید کرتے ہوئے رفع الیدین نہ کرنا ریت کی دیوار پر عمارت قائم کرنے کے مترادف ہے۔ واللہ اعلم !

رفع یدین جدول

تبع تابعین اور ائمہ کرام کے عمل کی روشنی میں رفع الیدین:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾
[4-النساء:59]
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور تم میں سے اقتدار والوں کی ، پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہو جائے ، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اسی میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے۔“
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من أطاعنى فقد أطاع الله ، ومن عصاني فقد عصى الله، ومن أطاع أميرى فقد أطاعني ، ومن عصى أميري فقد عصاني»
[صحيح بخاري، كتاب الأحكام، رقم: 7137.]
” جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی ، اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی ، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی ، اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی ، اس نے میری نافرمانی کی۔ “
امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت عبد اللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ امام احمد نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کی قیادت میں ایک فوجی دستہ بھیجا۔ دستہ کے امیر کسی بات پر لوگوں سے ناراض ہو گئے ، تو انہوں نے ایک آگ جلوائی اور لوگوں کو اس میں کودنے کے لیے کہا، دستہ کے ایک نوجوان نے لوگوں سے کہا کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں۔ جب انہوں نے واپس آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے کہا کہ اگر تم لوگ اُس میں کود جاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے ، امیر کی اطاعت بھلائی کے کام میں ہوتی ہے۔
[صحيح بخاري، كتاب التفسير، رقم: 4584 .]
علامہ طیبی لکھتے ہیں کہ وأطيعوا الرسول میں فعل کا اعادہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول کی اطاعت مستقل ہے۔ اور وأولى الامر میں فعل کا عدم اعادہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی اطاعت مشروط ہے۔ اگر ان کا حکم قرآن وسنت کے مطابق ہوگا تو اطاعت کی جائے گی ، ورنہ نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک اولي الامر سے مراد اہل فقہ و دین ہیں اور مجاہد ، عطا اور حسن بصری وغیر ہم کے نزدیک اس سے مراد علماء ہیں۔
لیکن بظاہر حق یہ ہے کہ تمام اہل حل و عقد ، امراء اور علماء مراد ہیں۔
[تيسير الرحمن، ص: 269 .]
پس تبع تابعین اور ائمہ ھدی کا وہ عمل جو کتاب وسنت کے مطابق ہوگا قابل اقتداء ہے۔ ذیل کی بحث سے معلوم ہوگا کہ ائمہ ھدی اور تبع تابعین بھی رفع الیدین کرتے تھے۔ جو کہ سنت رسول علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ہے۔ پس متبعین ائمہ کو رفع الیدین سے انکار کیوں ہے؟
❀ امام عبد الله بن مبارک (شاگر دامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں کہ:
«كأني أنظر إلى النبى صلى الله عليه وسلم وهو يرفع فى الصلاة لكثرة الأحاديث وجودة الأسانيد »
[السنن الكبرى للبيهقي: 79/2]
”یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی زیادہ احادیث صحیح وعمدہ اسانید کے ساتھ مروی ہیں کہ گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ “
❀ امام بیہقی رحمہ اللہ عطاء بن ابی رباح (استاد ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) کے متعلق لکھتے ہیں: ایوب رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے عطاء کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔
«يرفع يديه إذا افتتح الصلوة ، وإذا ركع ، وإذا رفع رأسه من الركوع .»
[السنن الكبرى للبيهقي: 73/2]
”کہ وہ جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اُٹھاتے تو رفع الیدین کرتے۔ “

امام مالک رحمہ اللہ:

امام مالک رحمہ اللہ بھی تکبیر تحریمہ اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنی نمازوں میں رفع الیدین کیا کرتے تھے۔
[فتح الباري شرح صحيح بخاري للحافظ ابن حجر: 220/1، باب رفع اليدين.]
امام مالک اپنی موطا میں یہ حدیث مبارک نقل کرتے ہیں ؛ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
«أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا افتتح الصلوة رفع يديه حدو منكبيه ، وإذا كبر للركوع ، وإذا رفع رأسه من الركوع رفعهما كذلك أيضا ، وقال سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، وكان لا يفعل ذلك فى السجود .»
[موطا امام مالك برواية ابن القاسم، ص: 113 ، رقم: 59۔ والموطا بالرواية الثمانية 170 375/1، 376 بتـحـقـيـق الشيخ سليم الهلالي حفظه الله ـ والموطا، ص: 80، رقم: 78، بتحقيق عبدالمجيد تركي، بيروت.]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تھے ، تو دونوں ہاتھ دونوں مونڈھوں کے برابر اُٹھاتے تھے ، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے ، تب بھی دونوں ہاتھوں کو اس طرح اُٹھاتے ، اور کہتے ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ“ اور سجدوں میں ہاتھ نہ اُٹھاتے ، نہ سجدے کو جاتے وقت۔“
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«روى ابن وهب والوليد بن مسلم وسعيد بن أبى مريم وأشهب وأبوا المصعب عن مالك أنه كان يرفع يديه على حديث بن عمر هذا إلى أن مات.»
[التمهيد: 222، 213/2.]
” یعنی امام ابن وہب، امام ولید بن مسلم، امام سعید بن ابی مریم ، امام اشھب اور امام ابومصعب امام مالک کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے موافق نماز میں رفع الیدین کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ “
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وبه يقول مالك ومعمر والأوزاعي وابن عيينة وعبد الله بن المبارك والشافعي وأحمد وإسحق.»
[سنن ترمذي: 27/2، طبع بيروت.]
”امام مالک ، معمر، اوزاعی، ابن عیینہ، ابن المبارک، امام شافعی ، احمد اور اسحق رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔ “
امام عبد اللہ بن وہب المصری رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے امام مالک بن انس کو دیکھا، آپ نماز شروع کرتے وقت، رکوع سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، اس کے راوی ابو عبد اللہ محمد بن جابر بن حماد المروزی الفقیہ رحمہ اللہ نے کہا: میں نے محمد بن عبد اللہ بن الحکم سے یہ ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: یہ امام مالک کا قول اور فعل ہے جس پر وہ فوت ہوئے ہیں ، اور یہی سنت ہے، میں اسی پر عمل کرتا ہوں اور حرملہ بھی اس پر عمل کرتا ہے۔
[تاريخ دمشق: 134/55.]
امام مالک بن انس رحمہ اللہ کا رفع الیدین کے بارے ذکر مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے:
➊ جامع ترمذی ، مع عارضة الأحوذي 2/ 57 ، جامع ترمذی مع تخریج احمد شاکر 2/37
➋ طرح التثريب للعراقي: 2/ 253/ 254 .
➌ التمهيد لابن عبدالبر: 9/ 213 ، 222 223 ، ورواه بأسانيد من طرق عنه .
➍ الاستذكار: 2/ 124 .
➎ شرح صحیح مسلم للنوى: 4 / 95 .
➏ المجموح شرح المهذب: 3/ 399 .
➐ المغني لابن قدامه 2941۔
➑ نيل الأوطار للشوكاني: 2 / 180، 4 / 180 .
➒ معالم السنن للخطابي: 1/ 193 ۔
➓ شرح السنة للبغوى: 3/ 23۔
⓫ المحلى لابن حزم 87/4 ۔
⓬ المفهم للقرطبى بحواله تحفة الاحوذی: 1/ 220 وغيرهم ۔
[بحواله نور العينين، ص: 170 ، طبع مكتبه اسلاميه، فيصل آباد.]
⓭ مؤطا امام محمد ص: 89۔
بعض الناس کا مالکیوں کی غیر مستند کتاب ”المدونہ“ کے حوالے سے امام مالک کا مسلک عدم رفع یدین بیان کرنا درست نہیں۔ کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ کے قریبی ومشہور تلامذہ ان سے رفع الیدین بیان کرتے ہیں جیسا کہ بیان ہو چکا ہے۔ بلکہ موطا میں امام مالک رحمہ اللہ سے بسند صحیح رفع الیدین کی حدیث ثابت ہے۔ اور امام مالک کے اساتذہ اور تلامذہ بھی رفع الیدین کیا کرتے تھے۔

امام شافعی رحمہ اللہ:

امام شافعی رحمہ اللہ احادیث صحیحہ کی روشنی میں کیا خوب فرماتے ہیں:
«لا يحل لأحد سمع حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رفع اليدين فى افتتاح الصلوة، وعند الركوع ، والرفع من الركوع أن يترك الاقتداء بفعله صلى الله عليه وسلم .»
[طبقات الشافعية الكبرى: 242/1.]
”جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شروع نماز، رکوع سے پہلے ، اور بعد میں رفع الیدین والی حدیث سن لے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اس پر عمل نہ کرے، اور اقتداء سنت کو چھوڑ دے۔“
علامہ سبکی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ رفع الیدین کو واجب، اور ضروری قرار دیتے ہیں۔ ربیع کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ رفع الیدین کا کیا معنی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:
«تعظيم الله واتباع سنة نبيه صلى الله عليه وسلم »
[ كتاب الأم: 91/1.]
”کہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور سنت نبوی سے علم کی اتباع ہے۔ “
السنن الكبرى للبيهقى (2/82) پر لکھا ہے کہ؛ امام الربیع نے ان سے عندالرکوع ، رفع الیدین کے متعلق سوال کیا تھا تو انہوں نے یہ جواب دیا:
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«تارك رفع اليدين عند الركوع والرفع منه تارك للسنة»
[اعلام الموقعين، ص: 257 .]
”رفع الیدین کا تارک سنت کا تارک ہے۔ “
مزید برآں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وبهذا نقول فنأمر كل مصل ، اماما وماموما ، أو منفردا رجلا أو امرأة أن يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، وإذا كبر للركوع، وإذا رفع رأسه من الركوع»
[كتاب الأم، للشافعي: 1/ 126 .]
”ہمارا مذ ہب یہی ہے ، اور ہم ہر نماز پڑھنے والے، خواہ وہ امام ہو، یا مقتدی یا منفرد، مرد ہو یا عورت سب کو نماز شروع کرتے ، رکوع میں جاتے ، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کا حکم دیتے ہیں۔“
امام شافعی رحمہ اللہ قریشی النسل تھے، فقہ حنفی، مالکی اور حنبلی کو بھی جانتے تھے، امام ما لک رحمہ اللہ کے شاگرد اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اساتذہ میں سے تھے، کتاب وسنت، فہم و عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین و تبع تابعین پر گہری نظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ رفع الیدین کا حکم دیا کرتے تھے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ:

مسائل الامام احمد ، لابی داود السجستانی (رقم: 234 ، 235، ص: 50) پر ہے کہ:
«رأيت أحمد يرفع يديه عند الركوع ، وعند الرفع من الركوع كرفعه عند استفتاح الصلوة يحاذيان أذنيه وربما قصر عن رفع الافتتاح، قال: سمعت أحمد قيل له: رجل سمع هذه الأحاديث عن النبى صلى الله عليه وسلم ثم لا يرفع ، هو تام الصلوة؟ قال: تمام الصلوة لا أدري ولكن هو عندي فى نفسه متغرض»
[المنهج لأحمد: 1/ 159]
”میں نے امام احمد کو دیکھا ہے وہ رکوع سے پہلے، اور بعد میں بھی شروع نماز کی طرح رفع الیدین کانوں تک کرتے تھے، اور بعض اوقات شروع نماز والے رفع الیدین سے ذرا تقصیر کر کے رفع الیدین کرتے تھے۔ اور میں نے امام احمد رحمہ اللہ کو کہتے سنا جب ان سے کہا گیا کہ؛ ایک شخص رفع الیدین کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث سنتا ہے اور پھر بھی رفع الیدین نہیں کرتا۔ کیا اس کی نماز پوری ہوتی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پوری نماز ہونے کا تو مجھے معلوم نہیں ہے، ہاں وہ فی نفسہ نقص والی نماز ہے۔“
فائدہ:
جولوگ رفع الیدین نہیں کرتے ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ان کی نمازوں کو ناقص قرار دیا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ جاننے والا کون ہو سکتا ہے؟ جنھوں نے امام اہل السنہ کا لقب پایا، اور حدیث کی سب سے ضخیم کتاب مسند لکھنے کا شرف بھی حاصل کیا۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
”امام احمد بن حنبل بلاشبہ تمام ائمہ سے زیادہ حدیثوں کے جامع اور عالم تھے۔ آپ کا حال یہ تھا کہ آپ ایسی کتابوں کی تالیف کو ناپسند کرتے تھے ، جن میں مسائل کی تفریح اور رائے کو جمع کیا گیا ہو۔ “
[ مناقب ابن الجوزي، ص: 192.]
امام احمد بن حنبل اللہ رحمہ اللہ بھی رفع الیدین کے قائل و فاعل تھے اور اپنی زندگی کی آخری نماز مرض الموت میں رفع الیدین کے ساتھ ادا کی۔

امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمتہ اللہ علیہ:

امام بخاری رحمہ اللہ بھی رفع الیدین کے قائل و فاعل تھے۔ درج ذیل نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔
➊ قرآن مجید کے بعد” اصح الکتب“ صحیح بخاری شریف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ رفع الیدین کی پانچ روایات صحیح بخاری میں لائے ہیں جو کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبر دست دلیل ہیں۔
➋ امام بخاری رحمہ اللہ کا جزء رفع الیدین لکھنا اُمت مسلمہ کے لیے دلیل ہے کہ یہ سنت ثابت اور متواترہ ہے۔ لہذا نسخ رفع الیدین کا دعوی بلا دلیل اور تاویلات فاسدہ پر مبنی ہے۔
➌ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”کسی ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ رفع الیدین نہ کرتا ہو اور اس روایت کی سند رفع الیدین کرنے والی روایات سے زیادہ صحیح ہو۔ “
[جزء رفع اليدين: 560 ، السنن الكبرى للبيهقي: 74/2 ، رقم: 2523 .]
➍ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ازواج ان رفع الیدین نہ کرنے والوں سے زیادہ جاننے والی تھیں کیونکہ وہ نماز میں رفع الیدین کرتی تھیں۔
[جزء رفع اليدين، ص: 100 ، رقم: 35.]
➎ امام بخاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ائمہ دین میں سے کسی کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ترک رفع الیدین کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اسی طرح کسی صحابی سے بھی رفع الیدین نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔
[ جزء رفع اليدين، ص: 132.]
➏ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”کہ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ (شاگرد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) رفع الیدین کیا کرتے تھے اور اپنے وقت کے مشہور علماء میں سے تھے۔ پھر اگر کسی کوسلف سے علم نہ ہو تو وہ کم از کم ابن المبارک کی اتباع ہی کرلے۔ جس میں انھوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور تابعین کی اتباع کی ، بہ نسبت اس شخص کے جس کو علم ہی نہ ہو۔ “
[ انسائيكلو پيڈيا آف اثبات رفع اليدين، ص: 217، 218 .]
➐ امام بخاری رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ: ”علماء مکہ، اہل حجاز ، عراق، شام، بصرہ اور یمن کی ایک بڑی تعداد سے (رفع الیدین کی ) روایات ہم تک پہنچی ہیں۔“
[جزء رفع اليدين، ص: 34 .]
➑ امام بخاری رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ: ”عبد الله بن الزبیر (الحمیدی ) علی بن عبد الله (المد ینی ) یحیی بن معین ، احمد بن حنبل، اسحاق بن ابراہیم (راھویہ ) رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث کو رفع یدین کے بارے مروی ہیں حق اور ثابت سمجھتے تھے۔ اور یہ لوگ اپنے زمانے کے (بڑے) علماء میں سے تھے۔ اور اس طرح عبد اللہ بن عمر بن خطاب سے روایات کیا گیا ہے۔“
[جزء رفع اليدين، ص: 35.]
➒ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”علی بن عبد اللہ (المدینی ) جو کہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے نے کہا: زہری عن سالم عن ابیہ کی روایت کی وجہ سے مسلمانوں پر یہ حق (اور ضروری ) ہے کہ رفع یدین کریں۔“
[سير اعلام النبلاء: 465/12 .]
➓ امام بخاری رحمہ اللہ کے اصحاب ، اہل حدیث بھی رفع الیدین کرتے تھے، چنانچہ امام حاکم فرماتے ہیں:
«يظهرون فى آراء أهل الحديث من إفراد الإقامة ورفع الأيدي من الصلوات وغير ذلك»
[جزء رفع اليدين، ص: 35-36.]
”اصحاب بخاری رفع الیدین اور اکہری اقامت کے قائل تھے۔“
ان علماء اہل سنت ، ائمہ کرام اور فقہائے عظام رحمہ اللہ سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے:
➊ امام مالک
➋ امام ابن عیینه
➌ امام شافعی
➍ ابوالزبیر
➎ امام معمر
➏ امام اوزاعی
➐ امام عبد الله بن مبارک (شاگرد امام ابوحنیفہ)
➑ امام احمد بن حنبل
➒ امام اسحاق بن راھویہ
[سنن ترمذي، كتاب الصلاة، رقم: 256 .]
➓ الليث بن سعد
⓫ يحيى بن سعید القطان
⓬ عبد الرحمن بن مہدی
⓭ يحيی بن یحی الاندلسی (شاگرد خاص امام مالک) اور
⓮ امام بخاری رحمہ اللہ
[السنن الكبرى للبيهقي، باب رفع اليدين عند الركوع وعند رفع الأس منه، رقم: 2356 .]
جدول
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ تابعین اور ائمہ کرام رحمہ اللہ رفع الیدین کرتے تھے جو کہ انہوں نے تابعین عظام سے اخذ کی اور انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سنت مطہرہ کو بیان کیا اور اس پر عامل رہے۔ زیل میں دیئے گئے جدول سے بات کو سمجھنے میں آسانی ہو گی:

رفع یدین کی مروی روایات

امام ابن قیم رحمہ اللہ کا قول:

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”جو شخص رکوع کو جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین نہ کرے وہ سنت رسول کا تارک ہے۔
[اعلام الموقعين (اردو): 523/1.]
تفصیلی جدول:
قارئین کرام! مذکورہ بالا بحث سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ، آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمین ، تابعین عظام اور تبع تابعین ، اور ائمہ کرام رحمہ اللہ رفع الیدین کرتے تھے۔
ذیل میں دیے گئے تمثیلی جدول میں گیارہ صحابہ کرام، سیدنا ابوبکر صدیق ، عبد اللہ بن زبیر علی بن ابی طالب، عبد اللہ بن عمر، عمیر بن حبیب، انس بن مالک، ابو ہریرہ، وائل بن حجر، مالک بن حویرث، ابو موسیٰ اشعری اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ بارہ تابعین جیسے عطاء بن ابی رباح، عبید اللہ بن ابی رافع ، سالم بن عبد اللہ نافع ، عبیداللہ بن عمیر حمید ، ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث، علقمہ بن وائل نصر بن عاصم، ابو قلابہ، حطان بن عبد اللہ اور ابوالزبیر رحمہ اللہ ہیں۔ اور پھر تبع تابعین جیسے ایوب سختیانی، عبد الرحمن بن الاعرج، ابن شہاب الزہری، اوزاعی، عبیداللہ عبد الوہاب، عبد الجبار بن وائل ، شعبہ، خالد، ازرق بن قیس اور ابراہیم بن طھمان ہیں اور ائمہ کرام کی کثیر تعداد جیسے محمد بن الفضل محمد بن اسماعیل، ابوعبد الله الصفار، عبد اللہ بن الفضل، موسیٰ بن عقبہ، عبد الرحمن بن ابی زناد، سلیمان بن داؤد، یونس، عبد الله محمد بن مقاتل، عبد الاعلیٰ، عیاش، محمد بن بشار، یحیی بن ایوب، شعیب بن یحی التحبیبی ، ابوزہیر عبد المجید، ابوبکر، ابوطاہر محمد بن حماده، همام، عفان، زهیر بن حرب، یحی بن سعید القطان، یحیی بن یحی، حماد بن سلمہ، نضر بن شمیل، اسحاق بن راھویہ، عبد الله بن شیرویه دعلج بن احمد ، ابوحذیفہ محمد بن یحیی بیہقی ، احمد بن حنبل، بخاری، ابن خزیمہ، مسلم، دار قطنی، اور ابن ماجہ سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جو رفع الیدین کی حدیث بیان کرتی ہیں اور خود بھی رفع الیدین کرتی تھیں۔

اس جدول کو اور بھی کھولا جا سکتا ہے لیکن بطور نمونہ اختصار و جامعت کے ساتھ پیش خدمت قارئین ہے:

رفع یدین کا تفصیلی جدول

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا قول:

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”جس نے رفع الیدین چھوڑ دیا ، بے شک اس نے نماز کا ایک رکن چھوڑ دیا۔ “
[عيني: 7/3.]

شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ محدث دہلوی کا فتوی:

پاک و ہند میں اہل سنت والجماعت میں کوئی گروہ بھی ہو، شاہ صاحب کا بڑا احترام کرتے ہیں، ادب و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے اقوال وفتاوی کو حرز جاں بنایا جائے۔ ان فتاویٰ جات میں سے فتوی رفع الیدین بھی ہے ، لہذا ان کے محترمین کو چاہیے کہ وہ اس فتویٰ پر عمل کریں۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:
«والذي يرفع أحب إلى ممن لا يرفع فإن أحاديث الرفع اكثر واثبت»
[حجة الله البالغه: 2/ 10.]
”رفع الیدین کرنے والا میرے نزدیک نہ کرنے والے سے زیادہ محبوب ہے، کیونکہ رفع الیدین کی احادیث زیادہ اور صحیح ہیں۔ “

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا فتویٰ:

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«رفع اليدين عند الافتتاح والركوع والرفع منه»
[غنية الطالبين.]
”نماز میں تکبیر اولیٰ کے وقت، اور رکوع میں جاتے وقت، اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا چاہیے۔ “
فائدہ:
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی طرف لوگوں نے طرح طرح کے جھوٹے واقعات اور شرکیہ عقائد منسوب کر کے کتابوں کے اوراق سیاہ کر رکھے ہیں، جن کا تعلق آپ سے قطعی نہیں ہے۔ مگر جو آپ کا عمل اور جو آپ کی دعوت ہے انہی لوگوں نے اس کو تعصب کی وجہ سے ترک کر رکھا ہے۔

مجد دالف ثانی شیخ احمد بن عبد اللہ رحمہ اللہ کا عمل:

حضرت مجدد الف ثانی بھی نماز میں رفع الیدین کرتے تھے۔
[تسهيل القارى .]

رفع الیدین علمائے احناف کی نظر میں

حقیقت پسند علمائے احناف بھی رفع الیدین کے قائل ہیں۔ ذیل کی سطور میں چند کا ذکر موجود ہے:
❀ امام عصام بن یوسف حنفی رکوع میں جاتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔
[الفوائد البهية، ص: 116 .]
فائدہ:
یہی امام عصام بن یوسف بلخی رحمہ اللہ جو امام محمد (شاگرد امام ابوحنیفہ ) کے تلامذہ اور امام یوسف (شاگرد امام ابو حنیفہ ) کے رفقاء سے ہیں، وہ اکثر مسائل میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف فتوی دیا کرتے تھے۔ اس لیے کہ جب انہیں امام ابوحنیفہ کے قول کے موافق دلیل نہ ملتی تو وہ ان کے خلاف دلیل کی روشنی میں فتویٰ صادر فرماتے۔
[صلاة النبى صلی اللہ علیہ وسلم للألباني، ص: 52 – حاشيه ابن عابدين: 74/1ـ الفوائد البهية، ص: 116 ـ البحر الرائق: 93/6 .]
❀ علامہ سندھی حنفی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی احادیث رفع الیدین کے متعلق رقمطراز ہیں:
«مالك بن الحويرث ووائل بن حجر ممن صلى مع النبى صلى الله عليه وسلم فى آخر عمره فروايتهما الرفع عند الركوع والرفع منه دليل على بقائه وبطلان دعوى نسخه كيف وقد روى مالك هذا جلسة الإستراحة فحملوها على أنها كانت فى آخر عمره فى سي الكبر فهي ليس مما فعلها النبى صلى الله عليه وسلم قصدا فلا يكون سنة وهذا يقتضى أن يكون الرفع الذى رواه ثابت لا منسوحا لكونه فى آخر عمره عندهم فالقول بأنه منسوخ قريب من التناقض وقد قال لمالك هذا وأصحابه صلواكما رأيتموني أصلى . ” والله تعالى أعلم .»
”مالک بن حویرث اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی آخری عمر میں نماز پڑھی ہے ان دونوں کی رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کی روایت کردہ رفع الیدین کی حدیثیں اس کے بقاء و دوام اور رفع الیدین کی منسوخیت کے دعوی کو باطل کرنے کی دلیل ہیں۔ یہی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے جلسہ استراحت کی حدیث بھی بیان کی ہے اور حنفی حضرات نے اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ یہ آپ کی آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے تھا۔ آپ نے قصداً ایسے نہیں کیا اور نہ ہی یہ سنت ہے۔ یہ توجیہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ رفع الیدین جسے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے ثابت ہے منسوخ نہیں، اس لیے کہ جلسہ استراحت ان کے ہاں آپ کی آخری عمر میں تھا رفع الیدین کی منسوخیت کا قول تناقض کے قریب ہے اور اسی مالک کو اور اس کے ساتھیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا: نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو“ ”واللہ تعالیٰ اعلم۔ “
[حـاشـيــه ســنــدهـى عـلـى النسائي: 458/1 ، مطبوعه دارالمعرفة بيروت۔ شرح سنن ابن ماجه: 282/1، مطبوعة دار الجيل، بيروت.]
مولانا انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں کہ:
«أن الرفع متواتر إسنادا ، أو مما لا يشك فيه ولم ينسخ ولا حرف منه».
[نيل الفرقدين، ص: 22 .]
”یعنی رفع الیدین کی حدیث سند اور عمل دونوں لحاظ سے متواتر ہے۔ جس میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا، اس میں سے ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔“
❀ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”حق یہ ہے کہ رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کثیر صحابہ کرا رضی اللہ عنہم سے قوی طرق اور اخبار صحیحہ کی بناء پر رفع الیدین کے ثبوت میں کوئی شک نہیں۔ “
[التعليق الممجد: 91]
نیز فرماتے ہیں: ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین کرنے کا ثبوت بہت زیادہ اور نہایت عمدہ ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ ہے، ان کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے، ان کے پاس کوئی تسلی بخش دلیل نہیں ہے۔“
[سعاية: 213/1، مطبوعه مصطفائي.]
❀ ان کے علاوہ علامہ رشید گنگوہی نے فتاوی رشیدیہ (5/2) میں اور مولانا اشفاق الرحمن نے نور العینین (85) میں رفع الیدین کے صحیح اور ثابت ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
❀ عبد الحمید سواتی دیوبندی نے رفع الیدین کے بارے میں لکھا ہے کہ ”اور اگر کر لے تو جائز ہے۔ “
[نماز مسنون كلان، ص: 369.]
ان کے علاوہ بھی کئی ایک حنفی علماء نے رفع الیدین کے اثبات کا اعتراف کیا ہے۔
اُن میں سے چند علمائے کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
❀ میجر عبد السلام علوی کی مولانا مودودی کے ساتھ مسئلہ رفع الیدین کے بارے میں خط و کتابت کا خلاصہ:
ميجر صاحب:
مکرمی مولانا صاحب السلام علیکم !
میرے ایک سوال کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ رفع الیدین کرنے والی حدیثیں بھی ہیں اور نہ کرنے والی حدیثیں بھی ہیں۔ براہ کرم! رفع الیدین کرنے والی حدیثیں بھی لکھ دیں اور نہ کرنے والی حدیثیں بھی تحریر فرما دیں۔
مودودی صاحب کا جواب:
مکرمی السلام علیکم !
جواباََ گزارش ہے کہ رفع الیدین نہ کرنے والی ایک ہی حدیث ہے جو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، ابوداؤد میں ہے اور وہ ضعیف ہے۔ اور رفع الیدین کرنے والی کئی احادیث ہیں جوسب قوی ہیں۔
والسلام
ابو الاعلیٰ مودودی
[قائلين و فاعلين رفع اليدين ، ص 85-86، توحيد پبلي كيشنز ، بنگلور۔ انڈيا]
❀ شیخ الحدیث مولانا عبد اللہ رحمہ اللہ کے سوال پر مولانا مودودی نے رفع الیدین کے بارے جواب دیا کہ:
بات اصل میں یہ ہے کہ رفع الیدین کرنے سے لوگ متوحش ہوتے ہیں اور بدک جاتے ہیں۔ اس لیے میں عام جگہوں پر جب نماز پڑھتا ہوں تو رفع الیدین نہیں کرتا۔ لیکن جب میں گھر میں تہجد کی نماز پڑھتا ہوں تو رفع الیدین کر لیتا ہوں۔
[نماز مسنون كلان، ص: 85، 84 .]
❀ اور مولانا مودودی کے شاگرد اور ساتھی ڈاکٹر اسرار احمد عام جگہوں پر بھی رفع الیدین کیا کرتے تھے۔
❀ مولانا طاہر القادری نے اپنے ایک خطاب میں کہا: ”بھائی رفع الیدین کرنے والے بھی جنت میں ہوں گے، آپ جا کر دیکھ لینا۔ امام بخاری ہوں گے کہ نہیں جنت میں ، امام مسلم ہوں گے کہ نہیں جنت میں، امام ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ سب ہوں گے کہ نہیں، ارے! نیچے آجائیں۔ حضور غوث یاد رہے کہ حقیقت میں غوث اللہ تعالیٰ ہے، نہ کہ شیخ عبد القادر جیلانی ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ﴾
[8-الأنفال:9]
”جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمھاری فریاد سن لی اور کہا کہ میں ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ تمھاری مددکروں گا جو یکے بعد دیگرے اترتے رہیں گے۔“
الاعظم ، میرے اور آپ کے ، کل دنیا کے شیخ عبد القادر جیلانی ہوں گے جنت میں کہ نہیں۔ یہ سب رفع یدین کرتے تھے۔ “
[خطاب: دفاع شان سيدنا صديق اكبر و فاروق اعظم ، نشست سوم، مورخه: 2010/6/11، كينيڈا، تكبير T . V۔]
ان کے علاوہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی (مالا بدمنہ )، حاجی امداداللہ مہاجر مکی (ملفوظات حکیم الامت ، جلد 12، صفحه 65) ، مولانا اشرف علی تھانوی (ملفوظات، جلد 12 ، صفحہ 65)، مولاناحسین احمد مدنی (تقریر ترمذی ، ص: 401 ) ، مفتی محمد شفیع عثمانی ماہنامہ الشریعہ ، نومبر (2005)، مولانا فخر الدین دیوبندی (مجموعه مقالات: 93/3 ) اور مولانا تقی عثمانی (درس ترمذی: 26/2) بھی رفع الیدین کے قائلین تھے۔

آخری گزارش
پیارے بھائیو اور بہنو! ہر شخص دنیا میں نفع کا سودا چاہتا ہے۔ اگر آپ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کر کے نماز میں رفع الیدین کر لیں اور آپ کے رفع الیدین پر کڑوڑوں نیکیاں حاصل ہوجائیں۔ بتائیے ، آپ کو اور کیا چاہیے؟ کیا آپ یہ منافع کا سودا ہاتھ سے جانے دیں گے، اور کیا آپ چاہیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے محبت کا ثبوت دینے کے بجائے اپنے ائمہ کی بات کو ترجیح دیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ائمہ کا مرتبہ بڑھائیں؟ نہیں، آپ قطعی طور پر ایسا کرنے کی جسارت نہیں کریں گے، ہمارا آپ کے متعلق یہی حسن ظن ہے کہ آپ پیارے پیغمبر علیہ اسلام کی اس محبوب اور باعث اجر و ثواب سنت مطہرہ کو اپنا کر آپ نے علم سے اظہار محبت و مودت کریں گے، کیونکہ ایک مسلمان کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ:
﴿ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
[24-النور:51]
” مومنوں کو جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ ان کے درمیان فیصلہ کر دیں، تو کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات سن لی اور اسے مان لیا، اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“
﴿ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴾
[57-الحديد:21]
”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، اللہ بڑے فضل والا ہے۔ “
پیارے بھائیو اور بہنو! رفع الیدین کرنے پر تو ثواب ملتا ہے، مگر نہ کرنے پر انسان ثواب سے بھی محروم رہ جاتا ہے اور مزید برآں وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتا ہے اور نماز کی قبولیت کی بہت بڑی شرط اتباع سنت رسول کا اہتمام بھی نہیں کرتا اور سنت نبوی سے تعلیم کے بغیر کیا ہوا عمل گمراہی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾
[24-النور:63]
”پس جو لوگ رسول اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی بلا نہ نازل ہو جائے ، یا کوئی دردناک عذاب نہ انہیں آگھیرے۔“
زندگی کے تمام امور کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اور آپ کی سنت کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«(( من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد . )) »
[صحيح بخاري ، كتاب الصلح، رقم: 2697.]
”جس کسی نے کوئی ایسا کام کیا جو ہماری سنت کے مطابق نہیں ہے، وہ مردود اور ناقابل قبول ہے۔ “
آئیے ! سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیجئے ، آپ کو اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نصیب ہوگی اور مزید یہ کہ آپ جنت کے حق دار بن جائیں گے۔
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد و آله وصحبه وسلم .

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

One Response

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے