رفع الیدین سے متعلق 5 من گھڑت دلائل کا رد

رفع الیدین سے متعلق من گھڑت روایات اور ان کا علمی جائزہ

بعض افراد رفع الیدین کے ترک کے لیے ایک عجیب اور بے بنیاد دلیل پیش کرتے ہیں کہ:

"منافقین آستینوں اور بغلوں میں بت چھپا کر لاتے تھے، اور ان بتوں کو گرانے کے لیے رفع الیدین کیا گیا، بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا۔”

یہ دعویٰ محض ایک من گھڑت کہانی ہے، جس کی کوئی حقیقی بنیاد یا ثبوت احادیث کی کتب میں نہیں پایا جاتا۔ یہ صرف جاہل لوگوں کی زبانوں پر گردش کرنے والا افسانہ ہے۔ ذیل میں اس قول کی کمزوری واضح کرنے والے حقائق بیان کیے جا رہے ہیں:

اس افسانے کی علمی کمزوریاں

مکہ میں بت تھے، مگر جماعت فرض نہیں تھی

نماز باجماعت مدینہ میں فرض ہوئی جبکہ مدینہ میں کوئی بت نہیں تھے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدینہ کے منافقین کون سے بت بغلوں میں دبا کر مسجد میں آتے تھے؟

علم غیب کا تضاد

جاہل لوگ اس افسانے پر یقین رکھتے ہیں اور ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب بھی مانتے ہیں۔

اگر نبی اکرم صلى الله عليه وسلم عالم الغیب ہوتے تو بغیر رفع الیدین کے ہی جان لیتے کہ کون مسجد میں بت لایا ہے۔

رفع الیدین کے مخصوص وقت کی ضرورت؟

اگر مقصد صرف بت گرانا ہوتا تو یہ کام تکبیر تحریمہ یا رکوع و سجود کے دوران بھی ہو سکتا تھا۔

پھر الگ سے رفع الیدین کی سنت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔

منافقین کی "حکمت عملی”؟

سوال یہ بھی ہے کہ منافقین بتوں کو جیب میں رکھنے کے بجائے بغلوں میں کیوں لاتے تھے؟ یہ دعویٰ عقلی طور پر بھی غیر معقول ہے۔

سزا کا ذکر؟

اگر واقعی رفع الیدین کے دوران بت گرے تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ:

"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان منافقین کو کیا سزا دی؟”

مگر کہیں بھی ایسی سزا کا ذکر موجود نہیں۔

نتیجہ:

"یہ کہانی دراصل ایک خانہ ساز افسانہ ہے جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔”
(ع،ر)

رفع الیدین کے ترک پر ایک اور دلیل اور اس کا علمی رد

کچھ لوگ یہ روایت بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں:

"سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا تھا اور بعد میں چھوڑ دیا۔”

اس روایت کا ضعف:

یہ روایت مرسل اور ضعیف ہے۔

(نور العینین ص ۴۵۱،۵۵۱۔ نصب الرایۃ ۱/۴۰۴)

رفع الیدین میں نسخ کا انکار

تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ رفع الیدین کے مسئلے میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا۔ نسخ کے لیے درج ذیل شرائط ضروری ہیں:

نسخ کی شرائط:

➊ دو حدیثوں میں تصادم ہو۔

➋ دونوں احادیث مقبول ہوں۔

➌ ان کا کوئی مشترکہ مفہوم نہ نکلتا ہو۔

➍ یہ دلائل سے ثابت ہو جائے کہ کون سی حدیث پہلے ہے اور کون سی بعد کی۔

مگر رفع الیدین کے حوالے سے:

◈ رفع الیدین کرنے والی احادیث کی تعداد زیادہ اور اسناد صحیح ترین ہیں۔

◈ نہ کرنے والی احادیث کمزور اور سنداً ضعیف ہیں، جن پر محدثین کی جرح بھی موجود ہے۔

لہٰذا:

◈ ضعیف روایت سے صحیح روایت کو منسوخ کرنا جائز نہیں۔

◈ مردود اور مقبول روایات کا مشترکہ مفہوم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

رفع الیدین کے غیر منسوخ ہونے کے دلائل

صحابہ کرام کی روایت

نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے آخری دور (۹ھ، ۱۰ھ) میں صحابہ کرام نے رفع الیدین کی روایت بیان کی۔

عہد نبوت کے بعد بھی رفع الیدین پر عمل

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عہد نبوت کے بعد بھی رفع الیدین کو جاری رکھا۔

ائمہ اربعہ کا اختلاف

کہا جاتا ہے کہ چاروں امام برحق ہیں، لیکن ان میں سے تین امام رفع الیدین کے قائل ہیں۔

محدثین کا اتفاق

جن محدثین نے رفع الیدین کی احادیث مختلف صحیح سندوں سے روایت کی ہیں، کسی نے بھی یہ نہیں لکھا کہ رفع الیدین منسوخ ہے۔

ثابت ہوا کہ:

"رفع الیدین صحابہ، تابعین، فقہاء اور محدثین کے نزدیک منسوخ نہیں بلکہ سنت نبوی ہے۔”

نتیجہ:

سنت کو چھوڑنے کا عمل سنت کی مخالفت ہے۔

جو شخص سنت کو چھوڑ کر کسی امتی کے عمل کو ترجیح دیتا ہے اور رفع الیدین کو عمداً چھوڑتا ہے، اس کا دعویٰ محبتِ رسول کے شایانِ شان نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین

(ع،ر)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت اور اس پر تبصرہ

روایت پیش کی جاتی ہے:

"سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی، یہ لوگ شروع نماز کے علاوہ ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔”
(بیہقی ۲/۹۷، ۸۰)

اس روایت پر محدثین کا حکم:

امام دارقطنی لکھتے ہیں: اس کا راوی محمد بن جابر ضعیف ہے۔

علامہ ابن جوزی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس روایت کو موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے۔

یعنی یہ بات سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں بلکہ کسی نامعلوم شخص نے گھڑ کر ان کی طرف منسوب کی ہے۔

نتیجہ اور خلاصہ

رفع الیدین کی احادیث کثرت سے اور صحیح ترین اسناد سے مروی ہیں۔

عدمِ رفع الیدین کی روایات یا تو معنی کے اعتبار سے غیر واضح ہیں یا سنداً ضعیف۔

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اہلِ علم کے نزدیک کسی ایک صحابی سے بھی عدم رفع الیدین ثابت نہیں۔”
(جزء رفع الیدین: ۴۰)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1