رشوت کی ممانعت اور اس کے سنگین نتائج
رشوت کی ممانعت اسلام میں بالکل واضح ہے، اور قرآن و حدیث میں اس کی سختی سے مذمت کی گئی ہے۔ رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہیں اور یہ عمل معاشرتی برائیوں کا سبب بنتا ہے۔ آئیے اس کے بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
قرآن مجید میں رشوت کی ممانعت
اللہ تعالیٰ نے رشوت کے ذریعے مال کھانے اور ناحق فیصلے کرانے سے منع فرمایا ہے:
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
"اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ ان (مالوں) کو (رشوت کے طور پر) حکام تک پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کوئی حصہ ناحق طریقے سے کھا سکو، حالانکہ تم جانتے ہو (کہ یہ غلط ہے)”
(البقرہ: 188)
یہ آیت واضح طور پر رشوت کو باطل طریقے سے مال کھانے کا ایک ذریعہ قرار دیتی ہے اور اس سے سختی سے منع کرتی ہے۔
حدیث شریف میں رشوت کی مذمت
1. رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت
نبی کریم ﷺ نے رشوت لینے اور دینے والے دونوں پر لعنت بھیجی:
لَعَنَ اللَّهُ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ
"اللہ تعالیٰ نے رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔”
(ترمذی: 1337، ابو داؤد: 3580)
یہ حدیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ رشوت کا لین دین انتہائی سنگین گناہ ہے جس پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔
2. رشوت لینے والا جہنم میں جائے گا
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لَا يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَذَ، أَمِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ”
"لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے مال کہاں سے حاصل کیا، حلال سے یا حرام سے۔”
(بخاری: 2083)
یہ حدیث اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ رشوت اور حرام کمائی کی وبا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے اور یہ عمل انسان کو جہنم میں لے جانے والا ہے۔
رشوت دینے کی مجبوری اور اس کا حکم
بعض اوقات لوگ مجبوری میں اپنا جائز حق لینے کے لیے رشوت دیتے ہیں کیونکہ بغیر رشوت کے ان کا کام نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے علماء کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ظلم سے بچنے یا اپنا حق حاصل کرنے کے لیے رشوت دے تو اس کا گناہ رشوت لینے والے پر ہوگا، مگر پھر بھی یہ عمل ناپسندیدہ اور ناجائز رہے گا۔
ابن تیمیہؒ کا قول
مشہور عالم شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
"اگر کوئی شخص ظلم سے بچنے کے لیے رشوت دیتا ہے تو گناہ رشوت لینے والے پر ہوگا، دینے والے پر نہیں۔ لیکن اگر وہ خود کسی ناجائز فائدے کے لیے رشوت دے رہا ہو تو دونوں گناہگار ہوں گے۔”
یہ قول اس بات کو واضح کرتا ہے کہ رشوت دینے اور لینے میں نیت کا بہت عمل دخل ہے، تاہم رشوت کسی بھی صورت میں پسندیدہ عمل نہیں۔
ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ رشوت جیسی اخلاقی برائی میں بری طرح مبتلا ہو چکا ہے۔ اس کے چند تلخ حقائق درج ذیل ہیں:
◈ سرکاری دفاتر میں رشوت کے بغیر جائز کام بھی نہیں ہوتے۔
◈ بعض اہلکار رشوت کو "چائے پانی” یا "تحفہ” کہہ کر اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔
◈ غریب آدمی کا کام نہیں ہوتا جبکہ صاحبِ حیثیت شخص غیرقانونی کام بھی کروا لیتا ہے۔
◈ یہ لعنت معاشرتی ناانصافی، غربت، اور کرپشن کو بڑھاوا دیتی ہے۔
یہ تمام عوامل معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں اور اس سے پورا نظام متاثر ہو رہا ہے۔
رشوت کے خاتمے کے لیے حل
رشوت کی لعنت سے بچنے اور اسے ختم کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
◈ رشوت سے مکمل اجتناب: ہر فرد کو چاہیے کہ وہ رشوت لینے اور دینے سے گریز کرے، چاہے وہ کتنی ہی مشکل میں کیوں نہ ہو۔
◈ قانون اور سماج میں آواز بلند کرنا: اگر کسی محکمے میں رشوت کے بغیر کام نہیں ہو رہا تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے اور سماجی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔
◈ اسلامی تعلیمات کو عام کرنا: حلال و حرام کی تمیز پیدا کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے تاکہ لوگ رشوت کے سنگین گناہ سے آگاہ ہوں۔
◈ انصاف اور میرٹ کا کلچر فروغ دینا: معاشرے میں انصاف، دیانت داری، اور میرٹ کے اصولوں کو فروغ دیا جائے تاکہ کوئی بھی شخص ناجائز ذرائع سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
اختتامیہ
رشوت ایک ایسی لعنت ہے جو نہ صرف فرد کو گناہ میں مبتلا کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے کو بھی تباہ کر دیتی ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی رشوت سے بچیں اور اپنے معاشرے میں اس برائی کے خلاف آواز بلند کریں تاکہ ایک پاکیزہ اور انصاف پر مبنی سوسائٹی تشکیل پا سکے۔
اللہ ہمیں رشوت جیسی لعنت سے محفوظ رکھے اور رزقِ حلال عطا فرمائے۔ آمین۔