رات کی نماز تہجد اور تراویح وغیرہ
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
إِن نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطأ وأَقْوَمُ قِيلًا
[المزمل: 6]
”بلا شبہ رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب ہے اور بات کو بہت درست کر دینے والا ہے۔ “
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل
”فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے ۔“
[مسلم: 1163 ، كتاب الصيام: باب فضل صوم المحرم ، ابن ماجة: 1742 ، أبو داود: 2429 ، ترمذي: 437 ، نسائي: 206/2 ، أبو عوانة: 290/2 ، أحمد: 303/2]
➌ حدیث نبوی ہے کہ :
صلوا باليل و الناس نيام
”رات کو اُس وقت نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2630 ، ترمذي: 2485 ، كتاب صفة القيامة ، باب منه ، ابن ماجة: 3251]
➍ حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عليكم بقيام الليل فإنه دأب الصالحين قبلكم ، وهو قربة لكم إلى ربكم ، مكفرة للسيأت، منهاة عن الإثم
”تہجد پڑھا کرو کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے ، تمہارے لیے اللہ کے قرب کا سبب ہے ، برائیوں سے دور ہونے کا ذریعہ ہے اور گناہوں سے باز رکھنے والا عمل ہے ۔“
حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں حدیث مروی ہے۔
[حسن: إرواء الغليل: 199/2 ، 452 ، بيهقي: 502/2 ، ابن خزيمة: 1135 ، ترمذي: 3549 ، بيهقي: 502/2]
➎ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنی دیر قیام فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم سوج گئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ اتنی دیر کیوں قیام فرماتے ہیں حالانکہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گذشتہ و آئندہ تمام گناہ معاف فرما دیے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أفلا أحب أن أكون عبدا شكورا ”کیا پس میں پھر شکر گزار بندہ بننے کی خواہش و رغبت نہ کروں؟“
[بخاري: 4837 ، كتاب تفسير القرآن: باب ليغفر لك الله ما تقدم مسلم: 2820]
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ فلاں شخص کی طرح نہ ہو جانا:
كـان يـقــوم مـن الليل فترك قيام الليل
”وہ قیام اللیل (یعنی تہجد ) کیا کرتا تھا پھر اس نے قیام اللیل چھوڑ دیا ۔“
[بخاري: 1152 ، مسلم: 1159 ، نسائي: 1763 ، ابن خزيمة: 1129]
(امیر صنعانیؒ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیام اللیل پر مداومت مستحب ہے ۔
[سبل السلام: 540/2]
➐ قیام اللیل کے لیے اٹھنا اور پھر اللہ تعالیٰ سے اس وقت دعائیں اور مناجات کرنا اس لیے بھی بہت بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ رات کے پچھلے پہر آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ :
انا الملك من ذى الذى يدعوني فأستجيب له ، من ذى الذى يسألني فأعطيه ، من ذى الذى يستغفرني فأغفر له ، فلا يزال كذلك حتى يضيئ الفحر
”میں بادشاہ ہوں جو مجھے پکارے گا میں اس کی دعا کو قبول کروں گا ، جو مجھ سے مانگے گا میں اسے عطا کروں گا ، جو مجھ سے بخشش طلب کرے گا میں اسے بخش دوں گا ، اور اللہ تعالیٰ فجر روشن ہونے تک اسی طرح رہتے ہیں ۔
[بخاري: 1145 ، مسلم: 758 ، أبو داود: 1315 ، ابن ماجة: 1366 ، ابن حبان: 920 ، بيهقي: 2/3]
اس کی زیادہ سے زیادہ تیرہ رکعتیں ہیں
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلى من الليل ثلاث عشرة ركعة
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعت نماز ادا فرماتے ان میں پانچ وتر ہوتے تھے اور ان پانچ وتروں میں تشہد کے لیے صرف آخری رکعت میں بیٹھتے ۔ “
[مسلم: 737 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب صلاة الليل ، أحمد: 230/6 ، دارمي: 371/1 ، أبو داود: 1338 ، ترمذي: 459 ، نسائي: 240/3 ، بيهقي: 27/3]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گیارہ رکعت قیام اللیل بھی ثابت ہے بلکہ اکثر اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد فجر تک احدى عشرة ركعة ”گیارہ رکعت نماز پڑھتے تھے ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔
[مسلم: 736 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب صلاة الليل وعدد ركعات النبي ، بخاري: 626 ، مؤطا: 120/1 ، أحمد: 35/6 ، أبو داود: 1335 ، ترمذي: 440 ، نسائي: 234/3 ، شرح معاني الآثار: 283/1]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس رکعتیں پڑھتے تھے اور ان کے بعد ایک وتر پڑھتے اور اس کے بعد فجر کی دو رکعتیں ادا فرماتے: فتلك ثلاث عشرة ركعة ”یہ سب ملا کر کل تیرہ رکعتیں ہوئیں ۔“
[مسلم: 738 أيضا ، بخارى: 1140]
رات کی نماز دو دو رکعتیں ہے
➊ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ :
يسلم بين كل ركعتين
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد پڑھتے ہوئے ہر دو رکعتوں میں سلام پھیرتے تھے ۔“
[مسلم: 736]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلاة الليل مثني مثني
”رات کی نماز دو دو رکعت کی صورت میں پڑھی جائے ۔“
[بخارى: 990 ، كتاب الجمعة: باب ما جاء فى الوتر ، مسلم: 749 ، أبو داود: 1326 ، ترمذي: 437 ، نسائي: 227/3 ، ابن ماجة: 1320 ، أحمد: 5/2 ، موطا: 123/1 ، دارقطني: 417/1 ، ابن خزيمة: 1210]
قیام اللیل میں طویل سجدہ کرنا مستحب ہے
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچاس آیتوں کی تلاوت کے برابر سجدہ کرنا منقول ہے۔
[بخاري: 1123 ، كتاب التهجد: باب طول السجود فى قيام الليل]
تہجد کی رکعات میں طویل قیام کرنا مستحب ہے
جیسا کہ یہ بات ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان رکعتوں میں طویل قیام فرماتے اور انہیں خوب اچھی طرح ادا کرتے ۔
[بخاري: 1135 ، 1147 ، كتاب التهجد: باب طول القيام فى صلاة الليل]
قیام اللیل میں سری اور جہری قراءت
دونوں طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسا کہ ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
ربما أسر وربما جهر
”بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سری قراءت فرماتے اور بعض اوقات جہری قراءت فرماتے ۔“
[صحيح: صحيح أبو دود: 1274 ، كتاب الصلاة: باب فى وقت الوتر ، أبو داود: 1437 ، نسائي: 99/1 ، ترمذي: 2924 ، ابن خزيمة: 259]
تہجد کا وقت
تہجد کا وقت عشاء کے بعد سے فجر تک ہے۔
[مسلم: 736 ، بخاري: 626]
البتہ افضل رات کا آخری وقت ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإن صلاة آخر الليل مشهودة وذلك أفضل
”بلاشبہ رات کے آخری حصے کی نماز میں (فرشتوں کو) حاضر کیا جاتا ہے اور وہی افضل ہے۔“
[مسلم: 755 ، كتاب صلاة المسافرين و قصرها: باب من خاف أن لا يقوم من آخر الليل فليوتر أوله ، أحمد: 315/3 ، ترمذي: 455 ، ابن ماجة: 1187 ، ابن خزيمة: 1086]
(ابن حزمؒ) اس کے قائل ہیں ۔
[المحلى بالآثار: 91/2]
قیام اللیل کی ثابت رکعات سے تجاوز درست نہیں
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں مذکور ہے کہ تین آدمیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت سے تجاوز کرنے کی کوشش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا:
فمن رغب عن سنتي فليس مني
”جو میری سنت سے بے رغبتی اختیار کرے گا وہ مجھ سے نہیں ۔“
[بخاري: 5063 ، كتاب النكاح: باب الترغيب فى النكاح ، مسلم: 2487 ، أحمد: 2188 ، دارمي: 2075]
◈ قيام اليل نماز تہجد اور نماز تراویح ایک ہی چیز ہے۔ مزید تفصیل آگے متفرقات میں آئے گی۔
ان کے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھے
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الوتر ركعة من آخر الليل
”وتر رات کے آخر میں ایک رکعت ہے ۔“
[مسلم: 752 – 753 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب صلاة الليل مثنى مثنى ، أحمد: 31131 ، نسائي: 439/1]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
ويوتر بواحدة
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک وتر پڑھتے تھے ۔“
[مسلم: 736 أيضا ، بخارى: 626 ، أبو داود: 1335]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإذا خفت الصبح فأوتر بواحدة
”جب تمہیں صبح ہونے کا خدشہ ہو تو ایک وتر پڑھ لو۔“
[بخاري: 1137 ، مسلم: 749 ، مؤطا: 123/1 ، أبو داود: 1326 ، ترمذي: 437]