سوال : کیا صاحب قربانی کے لیے ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں بال اور ناخن اتروانا جائز ہے ؟ جس نے قربانی نہ کرنی ہو اس کے لیے کیا حکم ہے ؟
جواب : جو آدمی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد بال یا ناخن کاٹنے سے باز رہنا چاہیے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
”جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہارا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو بالوں اور ناخنوں کو تراشنے سے رک جاؤ۔ “ [ صحيح مسلم، كتاب الأضاحي : باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة۔۔۔ إلخ 1977 ]
اور جس شخص نے قربانی نہ کرنی ہو وہ عید والے دن اگر ناخن تراش لے، بال اتار لے، مونچھیں کاٹ لے، زیرِ ناف بال اتار لے تو اسے بھی قربانی کا ثواب مل جاتا ہے۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
”مجھے یوم الاضحیٰ کو عید کا حکم دیا گیا ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے مقرر کیا ہے۔“ ایک آدمی نے کہا: ”آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر میں قربانی کے لیے دودھ دینے والی بکری کے سوا نہ پاؤں تو کیا اس کی قربانی کروں ؟“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”نہیں، لیکن تم اپنے بال، ناخن تراش لینا اور اپنی مونچھیں کاٹنا اور شرمگاہ کے بال مونڈ دینا، اللہ کے ہاں یہ تیری پوری قربانی شمار ہو گی۔“ [أبوداؤد، كتاب ما جاء فى ايجاب الأضاحي2789، نسائي، كتاب الضحايا : باب من لم يجد الاضحية 4370 ]
اسے امام ابن حبان رحمہ اللہ (2043)، امام حاکم رحمہ اللہ (223/4) اور امام ذہبی نے صحیح کہا ہے، اس کی سند میں عیسیٰ بن ہلال الصدفی صدوق ہے۔ جس کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے۔ [ تقريب مع تحرير : 3/ 145 ]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس نے قربانی نہ کرنی ہو وہ عید والے دن اپنے بال اور ناخن تراش لے تو اس کو بھی اللہ کے ہاں سے پوری قربانی کا ثواب مل جائے گا۔