سوال
آپ کا کہنا ہے کہ جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے وہ غلط ہے۔ فی زمانہ جو چیزیں استعمال ہو رہی ہیں، جیسے گھڑی، سائیکل، گاڑی وغیرہ، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا یہ سب ناجائز ہیں؟ اگر ناجائز ہیں تو ان کی دلیل قرآن و حدیث سے بیان کریں۔
جواب
میرے عزیز بھائی!
جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، وہ واقعی غلط ہے، لیکن یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ "چیزوں” سے مراد دنیاوی استعمال کی چیزیں، جیسے گھڑی، سائیکل، گاڑی وغیرہ نہیں ہیں۔ ان کے استعمال میں اصل حکم اباحت (اجازت) کا ہے، اور یہ زندگی کا حصہ ہیں؛ ان کے بغیر انسان مشکلات میں پڑ سکتا ہے۔
یہاں "غلط چیزوں” سے مراد بدعات ہیں۔ بدعات ان اعمال کو کہا جاتا ہے جو دین کے نام پر ثواب کی نیت سے دین میں شامل کرلیے جاتے ہیں، جن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔ ایسی بدعات کے حرام ہونے کے بارے میں درج ذیل دلائل ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«كُلُّ بَدْعَةٍ ضَلالَةٌ وَكُلُّ ضَلالَةٍ فِي النَّارِ»
(رواہ النسائی: 1560)
"ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے۔”
ایک اور حدیث میں ہے:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»
(صحیح مسلم: 1718)
"جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں تو وہ مردود ہے۔”
یہ دونوں احادیث بدعت کے موضوع میں اصل ہیں، اور علماء کرام نے انہی احادیث کی بنیاد پر بدعت کی تعریف، حدود و قیود، اور اصول وضع کیے ہیں۔ جب ان احادیث کو دیگر احادیث کے ساتھ ملایا جائے تو موضوع کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد حسین جیزانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ سنت مطہرہ میں ایسے فرامین نبوی وارد ہیں جو بدعت کے شرعی معنی کی وضاحت کرتے ہیں، جیسے کہ:
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچو؛ کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
(سنن ابو داود: 4067)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے:
"سب سے زیادہ سچی بات اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، اور سب سے برے امور نئے ایجاد کردہ ہیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی آگ میں ہے۔”
(سنن النسائی: 3/188)
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ بدعت دین میں نئے امور کو شامل کرنا ہے، اور یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دین میں کوئی بھی نیا اضافہ کرنا بدعت کہلاتا ہے۔ ان احادیث کی بنیاد پر علماء کرام نے بدعت کو تین شرائط کے ساتھ مخصوص کیا ہے:
بدعت کے اصول اور قیود
کوئی چیز اس وقت تک بدعت شمار نہیں ہوگی جب تک یہ تین شرائط یا قیود اس میں نہ پائی جائیں:
➊ احداث: یعنی نیا کام ایجاد کرنا۔
اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جس کسی نے نیا کام ایجاد کیا” اور "کل محدثة بدعة” (ہر نیا ایجاد کردہ کام بدعت ہے)۔
➋ دینی اضافے کا ارادہ: اس نئے کام کا مقصد دین میں اضافہ ہو۔
بدعت میں شامل امور کو دین کی طرف منسوب کرنا یا تقرب کی نیت سے اختیار کرنا۔
➌ بغیر دلیل کے دینی عمل: یہ کام کسی شرعی دلیل سے ثابت نہ ہو، نہ تو کسی خاص دلیل سے اور نہ ہی کسی عمومی دلیل سے۔
ان شرائط کے ساتھ دنیاوی ایجادات، جیسے گھڑی، سائیکل، گاڑی وغیرہ، بدعت سے خارج ہیں، کیوں کہ ان کا دین کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن جب کسی عمل کو تقرب یا دین کا حصہ سمجھا جائے اور اس کی دلیل نہ ہو تو یہ بدعت بن جاتی ہے۔
علماء کرام کے اقوال
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ہر وہ شخص جس نے کوئی چیز دین کی طرف منسوب کرکے نئی ایجاد کی اور اس کی دین میں کوئی دلیل نہ ملتی ہو، تو وہ گمراہی ہے۔”
(جامع العلوم والحکم: 2/128)
ابن حجر رحمہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تشریح میں فرمایا:
"بدعت سے مراد ہے کوئی ایسا نیا کام جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو۔”
(فتح الباری: 13/254)
بدعت کی شرعی تعریف
ان اصولوں کی روشنی میں، بدعت کی جامع تعریف یہ ہے:
"اللہ کے دین میں کوئی نیا عمل ایجاد کرنا جس پر کوئی خاص یا عام دلیل نہ ہو۔”