دین اسلام میں تقلید شخصی کی حیثیت
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

تقلید کی لغوی تعریف :

”تقلید“ کسی چیز کے لٹکانے اور گردن میں کوئی چیز ڈالنے کو کہتے ہیں۔ اسی سے ماخوذ ہے تقليد ولاة الاعمال ”ذمہ داروں کی گردن میں کام کی ذمہ داری لگانا “ یا تقليد البدنة شيئا يعلم به أنه هدي اونٹ یا گائے کی گردن میں کوئی چیز اس غرض سے لٹکا نا کہ اس کے هدي یعنی ” قربانی کا جانور ہونے کا پتا چلے۔“

تقلید کی اصطلاحی تعریف:

«قبول قول من ليس قوله إحدى الحجج بلاحجة»
لسان العرب: 365/3.
”جس شخص کی رائے حجت شرعی نہ ہو، اس کی بات کو بغیر دلیل کے قبول کرنا تقلید کہلاتا ہے۔ “
شرح الكوكب المنير ص: 408۔ ارشاد الفحول، ص: 265.
علامہ محمد امین الشنقیطی فرماتے ہیں:
” تقلید یہ ہے کہ کسی کے قول کو بغیر دلیل کے قبول کرنا تو جان لینا چاہیے کہ غیر کے قول کا معنی اس غیر کا اپنا اجتہاد ہے، مگر جس مسئلے میں کتاب وسنت کے نصوص ہوں اس میں کسی کے قول یا مذہب کا سوال ہی نہیں، کیونکہ ہر شخص پر نصوص شریعت کا اتباع لازم ہے، لہذا اس کا نام اتباع ہے نہ کہ تقلید ۔ “
مذكرة اصول الفقه، ص : 490.
یہی وجہ ہے کہ کتاب وسنت اور اجماع کے متبع کو مقلد نہیں کہا جائے گا کیونکہ وہ دلیل کی اتباع کر رہا ہے، فقہاء مذاہب کے کئی علماء نے اس کی تصریح کی ہے۔ چنانچہ ابن ہمام حنفی کہتے ہیں : ” تقلید یہ ہے کہ بغیر حجت و دلیل کی ایسے شخص کے قول پر عمل کرنا جس کا قول حجت نہیں ہے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ۔ “
التحرير لابن الهمام: 453/3 ۔
ابن امیر الحجاج اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک چاروں دلیلوں میں سے شرعی دلیل ہے۔
بعینہ اسی طرح عامی کا مفتی کے قول پر عمل اور قاضی کا گواہوں کے قول پر عمل کرنا بھی تقلید نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں اگرچہ چاروں دلیلوں میں سے نہیں ہیں مگر یہ عمل دلیل کے ساتھ ہوا بلا دلیل نہیں، کیونکہ نص شرعی واجب ہے کہ عامی مفتی کے قول کو لے، اور قاضی سچے گواہوں کے قول کو قبول کر کے فیصلہ کرے ۔
التقرير والتحبير : 453/3.

اتباع اور تقلید میں فرق:

ذیل میں مذکورہ آیت کریمہ میں اتباع اور تقلید کے فرق کو واضح کردیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ
(7-الأعراف:3)
”تم اس کی اتباع کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، اور اس کے علاوہ اولیاء کی اتباع مت کرو، تم بہت تھوڑی نصیحت حاصل کرتے ہو۔ “
﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم﴾ اتباع کی دلیل ہے اور تقلید کی تعریف گزرچکی ہے کہ بلا دلیل کسی ایسے شخص کے قول کو قبول کیا جائے جس کا قول حجت نہیں ہے ﴿وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ﴾ کا مصداق ہے۔
امام ابو داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: اتباع یہ ہے کہ آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے آئے ہوئے احکام کی پیروی کرے! تابعین کے اقوال میں لوگوں کو اختیار ہے، آپ نے یہ بھی فرمایا: کہ میری یا مالک ، ثوری اور اوزاعی، کسی کی تقلید نہ کرو، اور جہاں سے انھوں نے مسائل کو لیا ہے، وہیں سے لو ۔
آپ نے مزید ارشاد فرمایا:
«من قلة فقه الرجل أن تقلد دينه الرجال»
مسائل ابی داؤد، ص: 113۔ أعلام الموقعين : 469/3
”آدمی کے قلت فقہ کی دلیل یہ ہے کہ اپنے دین کو لوگوں کی رائے کے تابع کر دے۔“
خويز منداد مالکی فرماتے ہیں: ”تم کسی ایسے شخص کی اتباع کرو جس کی رائے دلیل کے بغیر حجت نہیں تو تم اس کے مقلد ہوئے اور اللہ کے دین میں تقلید جائز نہیں اور جس کی اتباع تمھارے اوپر واجب ہے، تم اس کی اتباع کرو، تم اس کے متبع ہوئے ، پس اتباع دین میں جائز ہے، اور تقلید ممنوع ہے۔
التحرير مع التقرير والتحبير : 353/3.

تقلید کی مذمت قرآن مجید کی روشنی میں :

ذیل میں مذکورہ آیات میں بغیر حجت و برہان آبا ؤ اجداد کی اتباع سے روکا گیا ہے جو در حقیقت شیطان ہی کی اتباع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو دین اتارا ہے اس کی اتباع کرو، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو وہی کریں گے جو ہمارے آباؤ اجداد کرتے تھے، یعنی بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی پرستش کریں گے۔ اللہ نے ان کی تردید کی کیا تم اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کرو گے، چاہے انھوں نے دین کو بالکل نہ سمجھا ہو اور حق سے دوررہے ہوں؟
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ
(2-البقرة:170)
” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اس کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء کو پایا، تو کیا اگرچہ اُن کے آباء کچھ نہ سمجھتے ہوں اور نہ راہ راست پر ہوں ( انھی کا اتباع کریں گے؟)“
اس آیت کریمہ میں اس بات کی شدید نکیر کی گئی ہے کہ صریح قرآن وسنت کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی بات مانی جائے اور قرآن وسنت کے مقابلے میں اسے دلیل بنایا جائے، اور حجت یہ پیش کی جائے کہ ہمارے امام، ہمارے پیر، ہمارے مرشد، ہمارے بزرگ اور ہمارے فقہاء زیادہ سمجھتے تھے، اور یقینا یہ احادیث ان کے علم میں رہی ہوں گی لیکن کسی اقوی دلیل ہی کی وجہ سے انھوں نے ان احادیث کا انکار کیا ہوگا۔
اور ستم بالا ستم یہ کہ ان حضرات نے انکار حدیث کے ان واقعات سے فقہی اصول کشید کیے اور انھی کتابوں میں مدون کر دیا کہ جب بھی کوئی حدیث ان اصولوں اور قواعد کے خلاف پڑے گی تو اسے رد کر دیا جائے گا، لہذا یا تو وہ ضعیف ہوگی یا مرجوح یا منسوخ ہوگی۔
حنفیوں کے مشہور امام ابو الحسن عبید اللہ بن الحسین الکرخی ( المتوفی 340ھ) فرماتے ہیں:
«إن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها تحمل على النسخ أو على الترجيح والأولى أن تحمل على التاويل من جهة التوفيق»
اصول الكرخي مع اصول البزدوی، ص: 373 سطر 3،4، مطبوعه قدیمی کتب خانه کراچی.
اس کا ترجمہ جناب عبدالرحیم اشرف بلوچ یوں فرماتے ہیں:
”ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہو تو اسے نسخ یا ترجیح پرمحمول کیا جائے گا اور بہتر یہ ہے کہ اسے تاویل پر محمول کیا جائے ۔ تا کہ توافق ظاہر ہو جائے ۔ “
اصول الکرخی اردو ص: 24 نمبر : 28، مطبوعه اداره تحقیقات اسلامی اسلام آباد.
امام ابوالحسن عبید اللہ بن الحسین الکرخی مزید فرماتے ہیں :
«إن كل خبر تجيئ بخلاف قول أصحابنا فإنه يحمل على النسخ أو على أنه معارض بمثله»
اصول الكرخي مع اصول البزدوی، ص: 373 سطر: 16، 15.
”ہر وہ حدیث جو ہمارے اصحاب اصول کے قول کے خلاف ہو۔ اسے نسخ پر محمول کیا جائے گا۔ یا یہ سمجھا جائے گا کہ وہ معارض ہے اپنے ہم پلہ حدیث کے ۔“
اصول الكرخى اُردو ص: 25، نمبر : 29۔
قرآن وسنت کے حق میں اس جرم عظیم کا بدترین نتیجہ یہ سامنے آیا کہ امت کے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت سی کمزور اور واہیات قسم کی روایات رائج ہوگئیں، اور وہ صحیح حدیثیں جو بخاری و مسلم نے روایت کی ہیں اور جن پر عمل نہ کرنے کا کوئی جواز امت کے پاس موجود نہیں، کئی صدیوں سے مسلمانوں کا منہ تک رہی ہیں اور پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہم پر عمل کرو ، ہم اللہ کے رسول کی صحیح احادیث ہیں، لیکن اہل تقلید انھیں درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔
مشہور فقیہ ابو الفلاح عبدالحی بن العماد المتوفی (1089ھ) مقلدین احناف کے مشہور قاضی امام جمال الدین یوسف بن موسیٰ حنفی کے متعلق رقمطراز ہیں :
«وإنه كان يقول من نطر فى كتاب البخاري تزندق»
شذرات الذهب في اخبار من ذهب : 40/4.
”یعنی بلاشبہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب بخاری شریف کو دیکھے گا زندیق ہو جائے گا۔ “
اپنے مشائخ کی بات حجت ماننے والوں پر رد کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے:
أقول قال الله وقال رسوله
فتجيب: شيخي إنه قد قال

”میں کہتا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول نے کہا، اور تو جواب دیتا ہے کہ میرے شیخ نے یوں کہا ہے؟ “
اسلام میں تمام گمراہ فرقوں کا وجود، شرک و بدعت کا رواج، قبروں، مزاروں اور درگاہوں کی پرستش اور عقائد کی تمام بیماریاں اس چور دروازے سے داخل ہوئی ہیں کہ قرآن وسنت کو چھوڑ کر اپنے بزرگوں، پیروں، مشائخ اور خود ساختہ معبودوں کی بات کو ترجیح دی ، ان کی تقلید کی اور کہا کہ یہ حضرات جو کرتے آئے ہیں۔ آخر ان کے پاس بھی تو کوئی دلیل رہی ہوگی، اس لیے ہم وہی کریں گے جو ہمارے بزرگ کرتے آئے ہیں ۔ اور ان حدیثوں کو ہم نہیں مانیں گے اس لیے کہ ہم اپنے بزرگوں سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ یہ روش مشرکین کی سی ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِيرِ ‎
(31-لقمان:21)
”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کی اتباع کرو، تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے، کیا وہ انھی کی اتباع کریں گے اگر چہ شیطان انھیں بھڑکتی آگ کے عذاب کی طرف بلاتا رہا ہے۔ “
اس آیت کریمہ میں بیان ہوا کہ جب ان مشرکین مکہ سے کہا جاتا ہے کہ اللہ عز وجل نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو دین و شریعت اور جو آسمانی کتاب نازل کی ہے، اس کا اتباع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے آباو اجداد کا اتباع کریں گے، اگر چہ شیطان انھیں اس شرک اور بت پرستی کی طرف بلا رہا ہو ۔ وہ جو جہنم میں داخل ہونے کا سبب ہو، اور جو آبا و اجداد کے ساتھ اُنھیں بھی وہیں پہنچا دے؟

تقلید کی مذمت آثار صحابہ کی روشنی میں :

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سچے متبعین رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، تقلید سے شدید نفرت کرتے تھے۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
«أما العالم فإن اهتدى فلا تقلدوه دينكم»
حلية الأولياء : 97/5 ، وقال أبو نعيم الأصبهاني وهو ”الصحيح.“
”عالم راہ ہدایت پر بھی ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید مت کرنا ۔ “

سید نا عبد اللہ بن مسعود رضى الله عنہ :

سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
«لا تقلدوا دينكم الرجال»
السنن الكبرى للبيهقي : 10/2.
” تم اپنے دین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو “

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ :

سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
”قریب ہے کہ تم لوگوں پر آسمان سے پتھر برسیں، میں تمھیں بتاتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اور تم اس کے مقابلے میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہا کے اقوال پیش کرتے ہو۔ “
بحواله كتاب التوحيد باب: 38، ص: 296.
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ بتاؤ معاویہ رضی اللہ عنہ کے دین پر ہو یا علی رضی اللہ عنہ کے دین پر؟ تو سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :
«بل أنا على ملة رسول الله صلى الله عليه وسلم»
مصنف عبدالرزاق مصنف ابن ابی شیبه
”ان دونوں کے دین پر نہیں، بلکہ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ہوں ۔“

تقلید کی مذمت ائمہ ھدی کے اقوال کی روشنی میں :

ائمہ ہدایت قرآن و حدیث کو اپنی بات اور رائے پر مقدم کرتے تھے اور جو بات خلاف قرآن و سنت ہوتی ، اس سے رجوع کر لیتے تھے۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ :

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ :
«اذا قلت قولا يخالف كتاب الله وخبر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فاتركوا قولى»
ايقاظ همهم أولى الابصار، ص : 50.
” جب میں کوئی ایسی بات کہوں جو کہ کتاب اللہ اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو تو میری بات کو چھوڑ دو۔“

امام مالک بن انس رحمہ اللہ :

امام مالک بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«إنما بشر أخطئ وأصيب، فانظروا فى رأيي فكل ما وافق الكتاب والسنة فخذوه، وكل ما يخالف الكتاب والسنة فاتركوه»
الجامع لا بن عبد البر : 32/2ـ أصول الاحکام لابن حزم: 149/6 – الايقاظ ص: 72۔ صفة صلاة النبي للالباني، ص: 48۔
”بے شک میں ایک بشر ہوں، میری بات غلط بھی ہو سکتی ہے اور صحیح بھی۔ پس تم میری رائے میں غور کرو۔ اگر تمھیں کتاب وسنت کے موافق لگے تو اسے لے لو، اور اگر کتاب و سنت کے مخالف ہو تو اسے چھوڑ دو ۔“

امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ :

امام شافعی رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا:
«كل ما قلت وكان عن النبى صلى الله عليه وسلم خلاف قولى مما يصح فحديث النبى صلی اللہ علیہ وسلم أولى، ولا تقلدوني»
آداب الشافعي و مناقبه لا بن أبي حاتم ص: 51.
” میری کوئی بھی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث زیادہ لائق اتباع ہے۔ پس تم میری تقلید نہ کرنا “

امام احمد بن حنبل رحمہ الله :

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا:
«لا تقلد دينك أحدا من هولاء الخ»
مسائل ابی داؤد، ص: 277 بحواله صفة صلاة النبي ، ص: 53.
”تم اپنے دین میں کسی کی تقلید نہ کرنا “

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ :

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«من قال: يجب إتباع إمام عينه فإن تاب وإلا قتل، ومن قال ينبغي اتباع فلان فإنه جاهل ضال»
منهج سلف صالحین، ص: 134.
”جو شخص یہ کہے کہ فلاں پر خاص امام کی اتباع واجب ہے تو اس سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا (اگر وہ توبہ نہیں کرے گا) تو اس کو قتل کر دیا جائے گا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فلاں شخص کی اتباع کرنا بہتر ہے تو وہ جاہل وگمراہ ہے۔ “
مزید فرمایا:
«وإما أن تقول قائل: إنه يجب على العامة تقليد فلان أو فلان، فهذا لا يقوله مسلم»
مجموع فتاوی ابن تیمیه: 249/22
”اور اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے تو یہ قول کسی مسلمان کا نہیں ہے۔ “
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ خود بھی تقلید نہیں کرتے تھے۔
دیکھئے : اعلام الموقعین : 241/2، 242۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
«ولا يجب على أحد من المسلمين تقليد شخص بعينه من العلماء فى كل ما يقول، ولا يجب على أحد من المسلمين الترام مذهب غير الرسول الله صلى الله عليه وسلم فى كل ما يوجبه ويخبره»
مجموع فتاوی: 209/20.
” کسی ایک مسلمان پر بھی علماء میں سے کسی ایک متعین عالم کی ہر بات میں تقلید واجب نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی شخص متعین کے مذہب کا التزام کسی ایک مسلمان پر واجب نہیں ہے کہ جس چیز میں اسی کی پیروی شروع کر دے ۔ “
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
«من نصب إماما فأوجب طاعته مطلقا اعتقادا أوحالا فقد ضل فى ذلك كأئمة الضلال الرافضة الإمامية»
مجموع فتاوی: 29/19.
”جس شخص نے امام مقرر کر کے مطلقاً اس کی اطاعت واجب قرار دے دی، چاہے عقیدتا ہو یا عملا تو ایسا شخص گمراہ رافضیوں امامیوں کے سرداروں کی طرح گمراہ ہے۔ “
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اجماع کا معنی یہ ہے کہ علماء اسلام کسی حکم پر متفق ہو جا ئیں اور جب کسی حکم پر اجماع ثابت ہو جائے تو اس کی مخالفت جائز نہیں۔ اس لیے کہ پوری امت گمراہی پر متفق نہیں ہوسکتی۔ لیکن بہت سے مسائل ایسے ہیں جن میں اجماع کا دعوی کیا جاتا ہے مگر ان میں اجماع ہوتا نہیں ہے۔ بلکہ اس دعوی اجماع کے خلاف جو قول ہوتا ہے وہ کتاب وسنت کی رو سے راجح ہوتا ہے۔ اس پر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ بعض ائمہ جیسا کہ فقہاء اربعہ ہیں ان کے اقوال نہ حجت لازمہ ہیں اور نہ ہی اجماع ہیں۔ بلکہ ان سے یہ ثابت ہے کہ انھوں نے اپنی تقلید سے منع کیا تھا اور یہ حکم دیا تھا کہ ان کے اقوال کو کتاب وسنت ( قرآن مجید و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مقابلے میں چھوڑ دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اکابر ساتھی اور پیروکار ہمیشہ جب ان کو کتاب وسنت سے دلیل مل جاتی تو وہ ان کے اقوال کو چھوڑ دیتے تھے اور کتاب و سنت ( قرآن مجید و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کرتے تھے۔ اس کی مثال مسافت قصر ہے تین دن یا سولہ فرسخ کی تحدید ایک ضعیف قول ہے۔ اس لیے کئی حنبلی علماء اور دیگر علماء نے یہ کہا کہ سفر کی حد اس سے بھی کم ہو تو نماز قصر کرنا جائز ہے جیسا کہ اہل مکہ نے عرفہ اور منی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز قصر کی تھی ۔ “
فتاوی ابن تیمیه: 10/25.

حافظ ابن حزم رحمہ الله :

امام ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا:
«والتقليد حرام»
النبذة الكافية في احکام اصول الدين، ص: 70.
” اور تقلید حرام ہے۔ “
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد صح إجماع جميع الصحابة رضي الله عنهم ، أولهم عن آخرهم، وإجماع جميع التابعين، أولهم عن آخرهم على الامتناع والمنع من أن يقصد منهم أحد إلى قول إنسان منهم أو ممن قبلهم فيأخذه كله فليعلم من أخذ بجميع قول أبى حنيفة أو جميع قول مالك أو جميع قول الشافعي أو جميع قول أحمد بن حنبل ممن يتمكن من النظر، ولم يترك من اتبعه منهم إلى غيره قد خالف إجماع الأمة كلها من آخرها واتبع غير سبيل المؤمنين، نعوذ بالله من هذه المنزلة وأيضا فإن هؤلاء الآفاضل قد منعوا عن تقليدهم وتقليد غيرهم خالفهم من قلدهم »
النبذة الكافية في احكام اصول الدين، ص: اح الرد على من اخلد الى الارض، للسيوطي، ص: 132،131۔
”اول سے آخر تک تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اول سے آخر تک تمام تابعین کا اجماع ثابت ہے کہ ان میں سے یا ان سے پہلے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) کسی انسان کے تمام اقوال قبول کرنا منع اور نا جائز ہیں ۔ جولوگ ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد رحمہ اللہ میں سے کسی ایک کے اگر سارے اقوال لے لیتے (یعنی تقلید ) کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ علم بھی رکھتے ہیں اور ان میں سے جس کو اختیار کرتے ہیں اس کے کسی قول کو ترک نہیں کرتے ، وہ جان لیں کہ وہ پوری امت کے اجماع کے خلاف ہیں ۔ انھوں نے مومنین کا راستہ چھوڑ دیا ہے۔ ہم اس مقام سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان تمام فضیلت والے علماء نے اپنی اور دوسروں کی تقلید سے منع کیا ہے، پس جو شخص ان کی تقلید کرتا ہے وہ ان کا مخالف ہے۔“

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ:

امام ابن قیم رحمہ اللہ قصيده نونيه میں فرماتے ہیں:
والخوف كل الخوف فهو على الذى
ترك النصوص من أجل قول فلان

”جس شخص کے بارے میں بہت زیادہ ڈر ہے (عذاب کا گمراہ ہونے کا) وہ ایسا شخص ہے، جو نصوص ( دلائل قرآن وسنت) کو کسی کے قول کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔“
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ارشاد باری تعالٰی:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ
(9-التوبة:31)
”انھوں نے اپنے احبار (مولویوں ) اور رہبان (پیروں) کو، اللہ کے سوا رب بنالیا۔ “
سے متعلق رقمطراز ہیں:
«قد احتج العلماء بهذه الآيات فى ابطال التقليد ولم يمنعهم كفر أولنك من الاحتجاج بها، وإنما وقع التشبيه بين المقلدين بغير حجة للمقلد»
اعلام الموقعين: 191/2.
”علماء نے ان آیات کے ساتھ ابطال تقلید پر استدلال کیا ہے۔ انھیں ( ان آیات میں مذکورین کے ) کفر نے استدلال کرنے سے نہیں روکا، کیونکہ تشبیہ کسی کے کفر یا ایمان کی وجہ سے نہیں ہے، تشبیہ تو مقلدین میں بغیر دلیل کے (اپنے) مقلد (امام، راہنما) کی بات ماننے میں ہے۔“
اس آیت کریمہ سے درج ذیل علماء نے تقلید کے رد پر استدلال کیا ہے۔
1 : ابن عبد البر۔
( جامع بیان العلم وفضله : 2/ 190)
2 : ابن حزم۔
(الاحکام فی اصول الاحکام : 6 / 283)
3 :ابن القیم۔
(اعلام الموقعین : 2/ 190)
4 : السیوطی ۔
(با قراره، الرد علی من اخلد الی الارض، ص: 120)
5 : الخطیب البغدادی۔
(الفقيه والمتفقه : 2/ 66)
علامہ ابن قیم مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ:
ماذا ترى فرضا عليك معينا
ان كنت ذا عقل وذا ايمان
عرض الذى قالوا على اقواله
او عكس ذاك فذانك الامران
هي مفرق الطرقات بين طريقنا
وطريق اهل الزيغ والعدوان

”اگر تم ذی عقل اور ذی ایمان ہو تو امامان دین کی جن باتوں کو تم نے اپنے اوپر فرض عین سمجھ لیا ہے اُن کو احادیث رسول پر پیش کر دو لیکن اس کے برعکس اگر تم احادیث رسول کو اماموں کے اقوال پر پیش کرو گے تو یہ ہمارے اور اہل زیخ و ظلم کے درمیان باہمی فراق ہے۔“
کیونکہ ہم احادیث رسول کے مقابلے میں کسی امام کے اقوال کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دیتے ۔
ورسوله فهو المطاع وقوله
المقبول اذ هو صاحب البرهان
والامر منه الحتم لا تخيير فيه
عند ذي عقل وذى ايمان
من قال قولا غيره قمنا
على اقواله بالسير والميزان
ان وافقت قول الرسول وحكمه
فعلى الرؤس تشال كالتحيان
او خالفت هذا رددناها علي
من قالها من كان من انسان
او اشكلت عنا توقفنا ولم
نحزم بلا علم ولا برهان
هذا الذى ادى اليه علمنا
ويه ندين الله كل آوان

اشعار کا خلاصہ:

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کی تابعداری کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو ماننا واجب ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ احکامات کا انکار کرے یا اپنے مذہب کے موافق احکام مانے باقی سب چھوڑ دے۔ امت کے علماء کے اقوال سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترازو میں اگر شریعت نبویہ کے مطابق ہوئے تو اس کو مان لیا جائے اور اگر وہ شریعت محمدیہ سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو ان کو چھوڑ دیا جائے چاہے وہ قول کسی کا بھی ہو ( کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے مقابلے میں کسی کی طرف دیکھنا بھی مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا) اور اگر کسی عالم کی بات مجمل ہو تو اس پر توقف کرنا چاہیے دلیل اور وضاحت کے بغیر اس کو نہیں اپنانا چاہیے ۔“
اور علامہ ابن القیم رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
«ثم جاءت الأئمة من القرن الرابع المفضل فى إحدى الروايتين كما ثبت فى الصحيح من حديث أبى سعيد وابن مسعود وأبي هريرة وعائشة وعمران بن حصين فسلكوا على آثارهم اقتصاها واقتبسوا هذا الأمر عن مشكاتهم اقتباسا ، وكان دين الله سبحانه أجل فى صدورهم وأعظم فى نفوسهم من أن تقدموا عليه رأيا أو معقولا أو تقليدا أوقياسا فطار لهم الثناء الحسن فى العالمين، وجعل الله سبحانه لهم لسان صدق فى الآخرين، ثم سارعوا على آثارهم الرعيل الأول من أتباعهم ودرج على منها جهم الموفقون من أشياعهم زاهدين فى التعصب للرجال واقفين مع الحجة والإستدلال، يسيرون مع الحق أين سارت ركائبه، ويستقلون مع الصواب حيث استقلت مضاربه، إذا بدا لهم الدليل بأخذته طاروا إليه زرافات ووحدانا، وإذا دعاهم الرسول إلى أمر انتدبوا إليه ولا يسألونه عما قال برهانا، ونصوصه أجل فى صدورهم وأعظم فى نفوسهم من أن يقدموا عليها قول أحد من الناس أو يعارضوها بر أى أوقياس. ثم خلف من بعدهم خلوف فرقوا دينهم وكانوا شيعا كل حزب بما لديهم فرحون، وتقطعوا أمرهم بينهم زبرا وكل إلى ربهم راجعون، جعلوا التعصب للمذاهب ديانتهم التى بها يدينون، ورأس أموالهم التى يتجرون، وآخرون منهم قنعوا بمحض التقليد وقالوا: إنا وجدنا آباءنا على أمة وإنا على آثارهم مقتدون.»
أعلام الموقعين عن رب العالمين: 6/1-7.
” پھر چوتھی صدی آئی جو دو روایتوں میں سے ایک روایت کے مطابق فضیلت والی صدی ہے، جیسا کہ ابوسعید، عبد اللہ بن مسعود، ابوہریرہ، عائشہ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے صحیح بخاری ومسلم میں مروی ہے، اس صدی کے ائمہ دین اپنے پیش رو ائمہ دین کے نقش قدم پر چلے اور انہی کے نور سے مستنیر ہوئے ، ان کی ذات اور ان کے سینے دین الہی کے پیغام سے معمور تھے اور ان کے نزدیک اللہ کا دین اس سے کہیں بلند تھا کہ وہ عقل، رائے ، قیاس اور تقلید کو اس پر مقدم جانتے ، جس کی وجہ سے ان کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر جمیل ان کے بعد بھی رکھا، پھر ان کے تابعداروں کا ہر اول دستہ اللہ کی توفیق سے ان ہی کے نقش قدم پر گامزن رہا، وہ شخصیات میں غلو اور تعصب کی راہ اختیار کرنے سے بالکل کنارہ کش رہے اور اپنے ماسبق بزرگوں کی طرح دلیل و برہان کی اتباع کرتے ، حق کا دامن ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹا ، ان کا ہر عمل اسی کے اردگرد گھومتا رہا، دلیل کے واضح ہو جانے کے بعد تنہا اور باجماعت اسے مضبوطی سے تھام لیتے ، حدیث رسول سنتے ہی پروا نہ وار اس پر لپکتے اور اسے دل و جان سے لگا لیتے اور اس کے خلاف کسی مزید دلیل اور حجت کی قطعاً کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے ، ان کے دل و دماغ اور ان کی ذات پر کتاب وسنت کی نصوص کی حکمرانی ہوتی ، ان کا معارضہ اور مقابلہ کسی انسان کے قول ، اس کی رائے اور قیاس سے نہیں کرتے ۔ زمانے نے کروٹ لی ، ایسے لوگ یکے بعد دیگرے آئے جنھوں نے دین الہی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور ہر فرقہ اپنے قائم کردہ اصول و فروع پر خوشی خوشی جم گیا اور ان کی اصل پونچی مذہب تعصب ہوگئی، ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے گئے جنھوں نے صرف تقلید پر قناعت کر لی اور صدا لگائی کہ ہم نے اپنے آباء واجداد اور بزرگوں کو اسی مذہب پر پایا ہے، اس لیے ہم ان ہی کے نقش قدم پر چلیں گے۔“

علامہ عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ :

علامہ عبد الوہاب بن احمد بن علی شعرانی المتوفی (973 ھ) رقمطراز ہیں :
«ومن قال لا أعمل بحديث إلا أخذ بة إما من فاته خير كثير كما عليه كثير من المقلدين لأئمة المذاهب وكان الأولى لهم العمل بكل حديث صح بعد امامهم تنفيذ الوصية الائمة»
الميزان الكبرى: 28/1.
” اور جس شخص نے کہا کہ وہ حدیث جس کو میرے امام نے نہیں لیا میں تو اس پر عمل نہیں کروں گا تو وہ شخص خیر کثیر سے ہاتھ دھو بیٹھا جیسا کہ اکثر مقلدین کا حال ہے حالانکہ ان مقلدین کے لیے مناسب یہ تھا کہ وہ ہر اس حدیث پر عمل کرتے جو ان کے امام کے بعد صحیح طور پر ان کے پاس پہنچ گئی ۔“
دوسری جگہ مقلدین کی باطل اور گمراہ کن روش کا ذکر بایں الفاظ قلم بند کرتے ہیں :
«خلاف ما عليه بعض المقلدين حتى إنه قال لي لو وجدت حديثا فى البخاري ومسلم لم يأخذ به إما من لا أعمل به وذلك جهل منه بالشريعة واول من تتبرأ منه امامه»
الميزان الكبرى: 10/1.
”یعنی بر خلاف اس کے بعض مقلدین کا حال تو یہ ہے کہ انھوں نے مجھ سے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر میں کوئی حدیث بخاری و مسلم میں پاؤں جسے میرے امام صاحب نے نہ لیا ہو تو میں اس پر عمل نہیں کروں گا۔ یا د رکھو! یہ طرز عمل شریعت سے نا واقفیت اور جہالت کا نتیجہ ہے اور سب سے پہلے اس کا امام ہی اس طرز عمل سے بیزار ہوگا۔ “

علامہ سیوطی رحمہ الله :

”امام جلال الدین سیوطی نے کتاب الرد على من اخلد الي الارض میں لکھا ہے: کیا امام مالک، ابوحنیفہ اور شافعی رحمہ اللہ نے کبھی کسی کے لیے اپنی تقلید کرنے کو جائز ٹھہرایا؟ حاشا لله کبھی نہیں، بلکہ انھوں نے تو اس سے روکا ہے اور کسی کو بھی اس میں گنجائش پیدا نہیں کرنے دی . “
معيار الحق الظفر المبين، ص:57.

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ :

شاہ ولی الله رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :
«وبعد القرنين حدث فيهم شنى من التخريح غير أن أهل المائة الرابعة لم يكونوا مجتمعين على التقليد الخالص على مذهب واحد والتفقه له والحكاية لقوله كما يظهر من التتبع بل كان فيهم العلماء والعامة. وكان من خير العامة أنهم كانوا فى المسائل الإجتماعية التى لا اختلاف فيها بين المسلمين وجمهور المجتهدين لا يقلدون إلا صاحب الشرع، وكانوا يتعلمون صفة الوضوء والغسل والصلاة والزكاة ونحو ذلك من آبائهم أو معلمي بلدانهم فيمشون حسب ذلك، وإذا وقعت لهم واقعة استفتوا فيها أى مفت وجدوا من غير تعيين مذهب»
حجة الله البالغة: 152/1-153.
” دوصدیوں کے بعد مسائل کے استنباط واستخراج کا قدرے رواج ہونے لگا لیکن چوتھی صدی ہجری تک کسی ایک مذہب کی نری تقلید، اس راہ میں فقہی تک بندی اور اس کی نقل و حکایت پر امت اسلام جمع نہ ہوئی تھی، جیسا کہ اس وقت کے حالات و ظروف سے واضح ہوتا ہے، بلکہ ان میں بلا تفریق مذاہب علماء اور عوام ایک دوسرے کے تعاون سے دین اسلام پر قائم و دائم تھے۔ عام لوگ مسلمانوں اور جمہور مجتہدین کے درمیان غیر مختلف فیه اجتماعی مسائل میں صرف صاحب شریعت محمد کی تقلید و اتباع کرتے تھے، وضوء ،نسل، نماز اور زکاۃ وغیرہ کی تعلیم اپنے ماں باپ اور اپنے شہروں کے اساتذہ اور معلمین سے سیکھ کر اس کے مطابق عمل کیا کرتے تھے، جب ان کے درمیان کوئی واقعہ اور مسئلہ پیدا ہوتا تو وہ بغیر کسی مذہب کی تعیین کے جس مفتی کو پاتے ان سے مسئلہ دریافت کر لیتے ۔“
تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خیر القرون کے زمانہ میں لوگ قرآن وسنت فہم و عمل صحابہ کرام و تابعین ہی عمل پیرا تھے۔

خیر القرون کا زمانہ:

”سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سب سے بہتر میرا زمانہ ہے اس کے بعد ان لوگوں کا جو اس کے بعد ہوں گے پھر جو ان کے بعد ہوں گے اور اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے کبھی گواہی سے پہلے قسم کھا ئیں گے ۔ “
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: 6429 .
«عن عمران بن حصين رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "خير القرون قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم قال عمران: فلا أدري أقال بعد قرنه مرتين أو ثلاث»
صحیح بخاری، کتاب الشهادات ، رقم: 2651۔ صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم: 2475.
”سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرا زمانہ سب سے بہتر زمانہ ہے، پھر اس کے بعد کا زمانہ اور پھر اس کے بعد کا زمانہ۔ سید نا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں یاد نہ رکھ سکا کہ اللہ کے رسول نے اپنی صدی کے بعد دوصدیوں کا ذکر فرمایا تھا یا تین کا۔ “
اس حدیث کے مطابق خیر القرون کا زمانہ اتباع تابعین تک بنتا ہے۔
1 : عہد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد صحابہ کرام (110 ھ) تک آخری صحابی سید نا ابو الطفیل رضی اللہ عنہ ۔
2: عہد تابعین عظام :
(110ھ) سے دوسری ہجری کے آخر تک ۔
3 : عہد تبع تابعین کرام :
دوسری صدی سے (241 ھ) تک ( احمد بن حنبل )
4: اتباع تبع تابعین کرام :
تیسری صدی کے آخر سے چوتھی صدی تک۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی الانصاف (ص:59) میں فرماتے ہیں:
«قال ابن الهمام فى آخر التحرير: كانوا يستفتون مرة واحدا ، ومرة غيره، غير ملتزمين مفتيا واحدا»
علامہ ابن الہمام نے اپنی کتاب التحریر کے آخر میں لکھا ہے کہ:
”اسلاف کبھی کسی سے فتوی پوچھتے اور کبھی کسی سے ایک مفتی کو انھوں نے لازمی نہیں پکڑا ہوا تھا۔ “
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ :
«إن آمنتم بنبيكم فاتبعوه خالف مذهبا أو وافقه»
تفهیمات : 202/1.
” اگر تم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت کرو خواہ وہ مذہب ( حنفی، مالکی ، شافعی، حنبلی) کے خلاف ہو یا موافق “
اسی لیے فقہ حنفی، مالکی ، شافعی، حنبلی اور جعفری کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے کیونکہ ان سب مذاہب کا آپس میں حلال و حرام تک کا اختلاف ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ فقہی مذاہب مختلف آراء تو ہیں، شریعت اسلامیہ ہر گز نہیں ہے۔
شاہ ولی اللہ حنفی محدث دہلوی المتوفی (1176ھ) مزید رقمطراز ہیں :
« فإن شئت أن ترى أنموذج اليهود فانظر إلى علماء السوء من الذين يطلبون الدنيا وقد اعتادوا تفليد السلف وأعرضوا عن نصوص الكتب والسنة وتمسكوا بتعمق عالم وتشدده واستحسانه فأعرضوا عن كلام الشارع المعصوم وتمسكوا بأحاديث موضوعة وتأويلات فاسدة»
الفوز الكبير في اصول التفيس ص: 10 ، 11.
”یعنی اگر یہودیوں کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہو تو ان بدترین علماء کو دیکھ لو جو دنیا طلبی میں مشغول ہیں جن میں تقلید کی بیماری گھر کر گئی ہے جنھوں نے کتاب وسنت سے منہ موڑ لیا ہے اور ایک ہی امام کے پیچھے لگ گئے اور شارع معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو چھوڑ رکھا ہے (اور اپنے امام کے قول کو تو ) موضوع حدیثوں اور فضول تاویلوں سے مضبوط بنا بنا کر اسی پر تمسک کئے بیٹھے ہیں بس (یہی باطل اور گمراہ کن ) روش ان کی ہلاکت کا سبب بنی۔ “

تقلید کی مذمت علماء احناف کی نظر میں :

انصاف پسند علماء احناف نے بھی اس تقلید کو انتہائی مذموم اور برا جانا ہے۔ ذیل میں چند علماءاحناف کے اقوال بطور ثبوت دعوی پیش خدمت قارئین ہیں:
شرح مسلم الثبوت میں مرقوم ہے:
«أجمع الصحابة على أن من استفتى أبا بكر وعمر أميرى المؤمنين فله أن يستفتي أبا هريرة ومعاذ بن جبل وغيرهما ويعمل بقولهم من غير نكير»
”یہ اجماع صحابہ کا ہے کہ کوئی اگر حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہا جو اہل ایمان کے امیر ہیں۔ ان سے فتویٰ پوچھے تو وہ سیدنا ابوہریرۃ اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہا اور ان کے سوا دوسروں سے فتوی پوچھ کر بھی بغیر کسی ملامت کے عمل کر سکتا ہے۔ “

علامہ ابن الہمام رحمہ الله :

شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قال ابن الهمام فى آخر التحرير: كانوا يستفتون مرة واحدا ومرة غيره غير ملتزمين مفتيا واحدا»
الانصاف، ص: 59.
”ابن اہمام التحریر کے آخر میں لکھتے ہیں : لوگ کبھی کسی سے فتوی پوچھتے تھے اور کبھی کسی سے کسی ایک مفتی کا التزام نہیں کرتے تھے ۔“

ملاعلی قاری حنفی :

ملاعلی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ولا يجب على أحد من هذه الأمة أن يكون حنفيا أوشافعيا أو مالكيا أو حنبليا»
معیار حق، ص: 75.
”اس امت کے کسی بھی فرد پر حنفی ، شافعی، مالکی یا حنبلی بننا واجب نہیں ہے۔ “
ملا علی القاری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ :
«ومن المعلوم أن الله تعالى ما كلف أحدا أن يكون حنفيا أو مالكيا أو شافعيا أوحنبليا بل كلفهم أن تعملوا بالسنة»
شرح عين العلم، ص: 326، طبع عامرہ استنبول انتصار الحق، ص: 238.
”یعنی یہ ظاہر وباہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اس بات کا مکلف نہیں ٹھہرایا کہ وہ حنفی ، شافعی، مالکی، یا حنبلی بنے ، بلکہ سب بندوں کو اس کا مکلف بنایا ہے کہ وہ سنت نبويه عليه التحية والسلام پر عمل کریں۔ “

مولانا عبدالحی لکھنوی:

مولا نا لکھنوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
«والحاصل أن من ادعى بأنه قد انقطع مرتبة الإجتهاد المطلق المستقل بالأئمة الأربعة انقطاعا لا يمكن عوده فقد غلط وخبط فإن الإجتهاد رحمة من الله سبحانه ورحمة الله لا تقصر على زمان دون زمان، ولا على بشر دون بشر. ومن ادعى انقطاعها فى نفس الأمر مع إمكان وجود فى كل زمان فإن أراد أنه لم يوجد بعد الأربعة مجتهد اتفق الجمهور على إجتهاد وسلموا استقلاله كاتفاقهم على اجتهادهم فهو مسلم وإلا فقد وجد بعدهم أيضا أرباب الإجتهاد المستقل كابي ثور البغدادى وداؤد الظاهرئ ومحمد بن إسماعيل البخاري وغيرهم على ما لا يخفى على من طالع كتب الطبقات»
النافع الكبير ص: 9 .
”حاصل کلام یہ ہے کہ جو اس بات کا مدعی ہے کہ اجتہاد مطلق و مستقل کا مرتبہ ائمہ اربعہ کے بعد ختم ہو چکا ہے یہ مرتبہ اب کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا تو وہ غلطی اور خبط میں مبتلا ہے کیونکہ مرتبہ اجتہاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ کسی زمانہ پر منحصر ہے اور نہ ہی کسی انسان پر رک سکتی ہے، اور جو امکان کے باوجود اس کے انقطاع کا نفس الامر میں مدعی ہے تو اس کا منشا اگر یہی ہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد کوئی ایسا مجتہد نہیں جس کے اجتہاد پر جمہور کا اتفاق ہو اور انہوں نے اسے اسی طرح مستقل مجتہد تسلیم کیا ہو جیسے ائمہ اربعہ ہیں تو یہ بات قابل تسلیم ہے ورنہ ائمہ اربعہ کے بعد بھی مجتہد مستقل ہوئے ہیں جیسے امام ابو ثور بغدادی، امام داؤد ظاہری، امام محمد بن اسماعیل بخاری وغیرہ کتب طبقات کا مطالعہ کرنے والا اسے اچھی طرح جانتا ہے۔“

مولانا اشرف علی تھانوی:

مولوی اشرف علی خاں تھانوی دیوبندی فرماتے ہیں کہ:
”ہم خود ایک غیر مقلد کے معتقد اور مقلد ہیں کیونکہ امام اعظم ابوحنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے۔ “
مجالس حکیم الامت از مفتی شفیع دیوبندی، ص: 345۔ حقیقت حقیقت الالحاد از امدادالحق شیوی، ص : 80۔
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ :
”حنفی و شافعی ہونا جزو ایمان نہیں، ورنہ صحابہ و تابعین کا غیر مومن ہونا لازم آئے گا۔ “
امداد الفتاوی: 300/5.

مولانا مفتی کفایت اللہ :

مولانا مفتی کفایت اللہ حنفی فرماتے ہیں کہ :
”محض ترک تقلید سے اسلام میں فرق نہیں پڑتا اور نہ اہل سنت والجماعت سے تارک تقلید باہر ہوتا ہے۔ “
کفایت المفتی: 325/1.

امام طحاوی رحمہ اللہ :

”امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تمام اقوال کو قبول کرلوں کیونکہ تقلید تو متعصب اور بے وقوف کا کام ہے۔ “
الايقاظ ص: 52.

امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ الله :

امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ الله (شاگرد خاص امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں:
«ما من أحد إلا وهو ما خوذ من كلامهو مردود عليه إلا رسول الله»
”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ہر شخص کی بات لی بھی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات تسلیم کی جائے گی ۔“
امام محمد رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
«ولو جاز التقليد كان من قطى من قبل أبى حنيفة مثل الحسن البصري وإبرابيم النخمي أخرى أن يقلدوا»
اصول سرخسي: 28/1.
” اگر تقلید جائز ہوتی تو جو ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے پہلے گزر چکے ہیں جیسے، حسن بصری اور ابراہیم نخعی (استاد امام ابوحنیفہ) تو وہ زیاد حقدار تھے کہ ان کی تقلید کی جاتی ۔ “

قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ :

قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ بیہقی زمان المشہور رقم طراز ہیں : جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی ایک کے متعلق عقیدہ رکھتا ہے کہ اس کی ہر بات درست اور واجب الاتباع ہے وہ گمراہ اور جاہل ہے۔
تفسیر مظهری طریق محمدی، ص: 159.

مفتی احمد یارنعیمی :

احمد یار نعیمی (بریلوی) لکھتے ہیں:
”شریعت و طریقت دونوں کے چار چار سلسلے یعنی حنفی ، شافعی ، مالکی، حنبلی اسی طرح قادری چشتی، نقشبندی، سہروردی یہ سب سلسلے بالکل بدعت ہیں ۔ “
جاء الحق 222/1، طبع قدیم، بدعت کی قسموں کی پہچانئیں اور علامتیں ۔

مولانا مفتی تقی عثمانی :

تقلید شخصی کے بارے میں محمد تقی عثمانی حنفی لکھتے ہیں :
”یہ کوئی شرعی حکم نہیں تھا، بلکہ ایک انتظامی فتوی تھا۔ “
تقلید کی شرعی حیثیت ج : 65 طبع ششم 1413ھ۔ ۔

تقلید کی مذمت عصر حاضر کے اہل علم کی نظر میں :

مختار احد شنقیطی رحمہ الله :

مختار احمد شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”تقلید اور اتباع کے درمیان جو فرق ہے اس فرق کو جاننا ضروری ہے، جہاں اتباع ہوگی وہاں تقلید ہرگز جائز نہیں ہے، اس بات کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ جس مسئلہ میں کتاب اللہ یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا پھر مسلمانوں کے اجماع میں سے اگر کوئی دلیل اس مسئلہ میں مل جاتی ہے ( ظاہر ہو جاتی ہے ) تو اس مسئلہ میں کسی بھی صورت میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ جو اجتہاد (نص کے مخالف ہو ) وہ اجتہاد باطل وفاسد ہے اور کسی کے اجتہاد پر عمل صرف اجتہادی مسئلہ میں جائز ہے، کیونکہ نصوص (دلائل) کتاب وسنت مجتہدین پر حاکم (و فیصل ) ہیں ان (مجتہدین) میں سے کسی کو بھی لائق وزیبا نہیں کہ وہ ان دونوں کی مخالفت کرے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔“

شیخ سلیمان بن عبد الله آل شیخ رحمہ الله :

شیخ سلیمان بن عبدالله آل شیخ رحمہ اللہ کتاب التوحید کے اسی باب کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”بلکہ ہر مومن پر فرض ہے کہ اسے جب کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حکم معلوم ہو تو وہ اس پر عمل کرے، خواہ اس کی کسی بھی امام نے مخالفت کی ہو، کیونکہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا حکم دیا ہے، اور اس پر تمام علماء کا اجماع ہے، سوائے جاہل اور خشک مقلدین کے کہ جن کے نزدیک ہدایت یافتہ شخص وہ ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرتے ہوئے کسی فقہی مذہب یا کسی عالم پر اعتماد کرے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے جو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے، فرمایا: وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا یعنی اگر تم نے اس (رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی تو تم ہدایت یافتہ ہوگئے، اور افسوس اس بات پر ہے کہ اس حرام تقلید میں آج بہت ساری خلقت مبتلا ہے۔“

شیخ ابن باز رحمہ الله :

سعودی عرب کے مفتی شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ نے فرمایا :
«وأنا الحمد لله لست بمتعصب ولكني أحكم الكتاب والسنة وأبني فتاواى على ما قاله الله ورسوله لا على تقليد الحنابلة ولا غيرهم»
المجلة رقم : 806، تاریخ 25 صفر 1416ه، ص: 23 ۔ الاقناع، ص: 92.
”الحمد للہ ! میں متعصب نہیں، میں کتاب وسنت کو حاکم مانتا ہوں اور اپنے فتاویٰ کی بنیاد ”قال الله وقال الرسول“ پر رکھتا ہوں نہ کہ حنابلہ اور دوسروں کی تقلید پر “

الشیخ مقبل بن ہادی رحمہ اللہ :

یمن کے مشہور سلفی عالم شیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«التقليد حرام لا يجوز لمسلم أن تقلد فى دين الله»
تحفة المجيب على اسئلة الحاضر والغريب، ص: 205.
”تقلید حرام ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے دین میں (کسی کی ) تقلید کرے۔ “
شیخ مقبل رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
«فالتقليد لا يجوز والذين يبيحون تقليد العامي للعالم نقول لهم: أين الدليل؟»
ايضاً، ص : 26 .
”پس تقلید جائز نہیں ہے اور جو لوگ عامی ( جاہل) کے لیے تقلید جائز قرار دیتے ہیں ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ (اس کی) دلیل کہاں ہے؟ “
شیخ مقبل بن ہادی رحمہ اللہ طالب علموں کو نصیحت فرماتے ہیں:
«نصيحتي للطلبة العلم الإبتعاد عن التقليد، قال الله سبحانه وتعالى ﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ﴾ »
غارة الاشرطة على اهل الجهل والسعسطة، ص: 12 ، 11 .
طالب علموں کو میری یہ نصیحت ہے کہ وہ تقلید سے دور رہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” اور جس کا تجھے علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ چل ۔“

تقلید کے نقصانات :

قارئین کرام گزشتہ صفحات میں آپ نے تقلید کی تعریف، اور قرآن وسنت، صحابہ کرام وائمہ ھدی کے اقوال کی روشنی میں تقلید کی مذمت پڑھ لی، اب ہم تقلید شخصی کے نقصانات زیر قلم لا رہے ہیں۔ تاکہ تقلید سے بچنے میں مدد مل سکے۔ اور ہماری آخرت بہتر بن جائے ۔ یادر ہے کہ اس سے ہمارا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں، بلکہ اصلاح انسانیت ہے.اِنَّ أُرِيدُ اِلَّا الْإِصْلَاحَ.

بہتان باندھنا:

جب کوئی انسان کسی کا مقلد ہو جاتا ہے تو وہ دوسروں پر بہتان باندھنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ چنانچہ حنفیوں کی کتاب ہدایہ میں امام مالک پر یہ بہتان موجود ہے:
«وقال مالك : هو جائز لانه مباح»
هدایه، کتاب النکاح: 392/2.
” یعنی رافضیوں کی طرح امام مالک بھی نکاح متعہ کو حلال جانتے ہیں ۔“
اور اسی طرح فقہ حنفی کی کتاب ہدایہ میں كتاب الصلوة، باب صلوة الكعبه، میں امام شافعی پر افترا کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”کہ امام شافعی کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کونا جائز کہتے ہیں ۔ “

مذہب کی خاطر جھوٹ بولنا:

مقلدین اکثر اپنے اپنے مذاہب کی خاطر جھوٹ بولتے ہیں۔ چنانچہ فقہ حنفی کی کتاب در مختار میں مرقوم ہے:
امام صاحب (ابو حنیفہ) کے والد گرامی ثابت رحمہ اللہ اپنے بیٹے امام ابو حنیفہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے اور دعا کروائی۔
در مختار: 36/1.
حالانکہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ چالیس ہجری میں وفات فرما گئے تھے۔ اور امام صاحب کی پیدائش (80 ھ) میں ہوئی۔
یوسف بن موسی الملطی حنفی کہتا تھا:
”جو شخص امام بخاری کی کتاب ( صحیح بخاری) پڑھتا ہے وہ زندیق ہو جاتا ہے۔“
شذرات الذهب: 20/7۔ دین میں تقلید کا مسئله، ص: 75.
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ:
”حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلاة والسلام نزول کے بعد امام اعظم رضی اللہ عنہ کے مذہب کے موافق عمل کریں گے ۔“
مکتوبات اردو ج 1 ،ص:585، مکتوب: 282.
اگر کوئی شخص کسی عورت پر یہ دعوی کر دے کہ یہ میری بیوی ہے اور وہ عورت انکار کرے پھر یہ شخص جھوٹے گواہ پیش کر کے اپنے حق میں قاضی سے فیصلہ لے لے تو ایسی صورت میں اس کے لیے عورت سے جماع جائز ہوگا اور اس عورت کا اپنے آپ کو اس کے قابو میں کر دینا جائز ہوگا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ جائز ہے اور ابو یوسف کے ایک قول کے مطابق بھی جائز ہے۔
فتاوی عالمگیری: 350/3-351۔

مذہب کی خاطر غلو :

مقلدین اپنے ائمہ کی شان میں اکثر غلو سے کام لینے لگتے ہیں۔ چنانچہ درمختار میں ہے:
«أن سائر الأنبياء يفتخرون بي وأنا أفتخر بأبي حنيفة من أحبه فقد احبني ومن أبغضه فقد أبغضني»
در مختار.
”یعنی تمام انبیاء کو مجھ پر فخر ہے اور مجھے ابوحنیفہ پر ۔ جس نے اس سے محبت کی اس نے میرے ساتھ محبت کی ، اور جس نے اس سے بغض کیا اس نے میرے ساتھ بغض کیا “
امام صاحب کی شان میں یہ حدیث بھی گھڑی گئی ہے:
«لقول عليه السلام من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف النبي»
هداية كتاب الصلوة باب الامامة ج: ص: 101 .
”جس نے متقی امام کی اقتدا میں نماز با جماعت ادا کی تو اسے اتنا اجر وثواب میسر ہوگا جس قدر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے ہوتا ہے۔ “
یہ حدیث بھی گھڑ لی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
«إن آدم افتخر بي وأنا أفتخر برجل من أمتي اسمه نعمان وكيتته ابو حنيفة هو سراج أمتي»
مقدمه در مختار مع ردالمختار: 52/1.
”یعنی آدم علیہ السلام کو میری ذات پر فخر ہے اور مجھے اپنے ایک امتی کے سبب سے فخر ہے جس کا نام نعمان اور کنیت ابو حنیفہ ہے جو کہ میری امت کا روشن چراغ ہے۔ “
اور یہ بھی آتا ہے کہ:
”امام صاحب نے اپنے آخری حج میں کعبہ شریف کے خادموں سے ایک رات اندر داخل ہونے کی اجازت لی۔ ایک رکعت میں ایک ٹانگ پر آدھا قرآن شریف ختم کیا پھر رکوع اور سجدہ کیا پھر دوسری رکعت میں کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ دوسری ٹانگ پر باقی آدھا قرآن ختم کیا۔ “
در مختار: 30/1.

قرآن و حدیث اور حتی کہ شان رسالت میں گستاخی :

مقلدین نے قرآن وحدیث کی توہین کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ حتی کہ بعض دفعہ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ذیل میں دیئے گئے اقوال کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ درمختار میں مرقوم ہے:
1 : فقہ کا سیکھنا افضل ہے باقی قرآن سیکھنے سے۔
ادر مختار: 19/1۔ عالمگیری: 129/9.
2 : پورا قرآن پڑھنے سے فقہ پڑھنا افضل ہے ۔
عالمگیری: 129/9 ايضا.
3: کتاب در مختار باذن نبوی تالیف ہوئی ۔
درمختار: 11/1.
4 : جو اہل قبلہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی دینا جائز سمجھے وہ کافر نہیں ۔
در مختار: 292/1.
5 : مولوی محمود حسن دیوبندی نے لکھا ہے کہ ”قول مجتہد بھی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی شمار ہوتا ہے۔ “
الورد الشذى: 30/2۔ تقاریر حضرت شیخ الهند، ص: 24.
مفتی احمد یار خان گجراتی نے لکھا ہے:
”چار مذہبوں کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں، اگرچہ وہ صحابہ کے قول صحیح حدیث اور آیت کے موافق ہی ہو، جو ان چار مذہبوں سے خارج ہے وہ گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے کیونکہ حدیث و قرآن کے محض ظاہری معنی لینا کفر کی جڑ ہے ۔ “
جاء الحق: 24، مطبوعہ ضیاء القرآن پہلی کیشنز، لاہور ۔
6 : نکسیر پھوٹ پڑے تو پیشانی اور ناک پر سورۃ فاتحہ کو خون اور پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔
در مختار، ج:1، ص: 194.
7 : اشرف علی خاں تھانوی نے بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ :
”یہ آیت بسم اللہ سمیت لکھ کر ناف کی جگہ باندھیں ناف اپنی جگہ آجائے گی اور اگر بندھا رہنے دیں تو پھر نہ ٹلے گی ۔ الله يُمُسِكُ السَّمَوَاتِ
بهشتی زیور جھاڑ پھونک کا بیان نوان حصه 756 .
8 : برہان الدین مرغینانی لکھتا ہے:
«أن الهداية كالقرآن قد نسخت ما صنفوا قبلها فى الشرع من كتب»
مقدمه هدایه اخیرین، ص: 3.
”بے شک ہدایہ قرآن کی طرح ہے، جس طرح قرآن مجید نے پہلی شرائع کو منسوخ کر دیا ایسے ہی ہدایہ نے اس سے قبل مرقوم کتب کو منسوخ کر دیا ۔ “
9: «ومن امتنع من الجزية أو قتل مسلما أو سب النبى عليه السلام أوزنى بمسلمة لم ينتقض عهده»
هداية : 578/1 ۔
”جو ذمی جزیہ دینے سے انکار کر دے یا کسی مسلمان کو قتل کرے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا کسی مسلمان عورت سے زنا کرے تب بھی اس کا عہد (ذمہ) نہیں ٹوٹے گا “

مذہب کی خاطر حدیث کے ساتھ ظلم اور نا انصافی :

دیوبندی عالم محمود الحسن صاحب کا خیار مجلس کے مسئلہ میں قول ملاحظہ ہو:
«الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي فى هذه المسئلة ونحن مقلدون يجب علينا تقليد ما منا أبى حنيفة»
تقریر ترمذی، ص: 40.
”حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ (البيعان بالخيار مالم يتفرقا) میں امام شافعی کے قول کو ترجیح حاصل ہے۔ اور ہم مقلد ہیں لہذا ہم پر اپنے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید واجب ہے۔ “
ابن نجیم الحنفی شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا کے بارے میں لکھتے ہیں :
«نفس المؤمن تميل إلى قول المخالف فى مسئلة السب لكن اتباعا للمذهب واجب»
البحر الرائق 125/5.
”مسئلہ شاتم رسول میں مومن کا نفس قول مخالف (امام شافعی رحمہ اللہ ) کی طرف مائل ہوتا ہے کہ ( کافر شاتم رسول کا ذمہ ٹوٹ جاتا ہے) لیکن ہم پر اپنے مذہب کی اتباع ضروری ہے۔ “

نفس پرستی :

”ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رمضان میں عورتوں کی امامت کرتی تھیں۔ “
امام محمد نے کہا کہ ہمیں پسند نہیں کہ عورت امامت کرے۔
کتاب الآثار ص: 214.

تعصب اور بغض وعناد :

مقلدین میں تعصب اور بغض وعناد بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ فقہ حنفی کی کتب میں مرقوم ہے:
لعنت ہو ہمارے رب کی اس شخص پر بقدر ریت کے ذرات کے جو ابوحنیفہ کے قول کو رد کرے، یعنی قبول نہ کرے۔
در مختار: 33/1.
صاحبین یعنی امام ابو حنیفہ کے شاگردوں امام محمد و ابو یوسف نے دو ثلث سے زیادہ مسائل میں امام ابو حنیفہ کا خلاف کیا ہے۔
در مختار: 36/1.
صاحب شرح مسلم الثبوت رقمطراز ہیں :
«شدد بعض المتكلمين، قالوا : الحنفى إذا ترك مذهب إما مه يعزر ، والحق أنه تعصب، لا دليل عليه، وإنما هو تشريع من عند نفسه، قال فى التيسير شرح التحرير : هو الأصح، إذ لا واجب إلا ما أوجبه الله وبالجملة لا يجب تقليد مذهب معين، بل جاز الإنتقال لكن لا بد أن لا يكون ذلك قصد التلهي وتوهين كبار المجتهدين»
”کچھ متکلمین اہل علم نے شدت سے کام لیا اور کہہ دیا کہ : ”حنفی اگر اپنے امام کے مذہب کو ترک کر دے تو اسے کوئی سزا دی جائے۔ “ حق تو یہ ہے کہ ایسی متعصبانہ بات ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ اپنی طرف سے شریعت سازی ہے۔ ”التیسیر“ میں ہے کہ : ”بالکل یہ تعصب ہے کیونکہ واجب وہی ہے جسے اللہ نے واجب قرار دیا، ( ہم کون ہوتے ہیں تقلید کو واجب کرنے والے، اور اس کے ترک پر تعزیر دینے والے) القصہ کسی مذہب معین کی تقلید واجب نہیں۔ بلکہ ایک مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف مسئلہ کی تلاش میں جانا بھی جائز ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ایسا کرنا محض خواہش نفس کی بنیاد پر نہ ہو اور نہ ہی مجتہدین کرام کی توہین مقصود ہو ۔“
قاضی ابو یوسف ( شاگرد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) نے فرمایا:
”اس کذاب یعنی محمد بن الحسن ( شاگر د امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) سے کہو الخ .“
تاریخ بغداد: 180/2.
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے دین میں تحریف اور بدعت کے سات اسباب ذکر کیے ہیں جن میں ایک موذی مرض تقلید ہے اور بلاشبہ تقلید لفظ اتنا ردی اور نا کارہ ہے اور کیسا بے نور لفظ ہے جو قرآن وسنت کے مقدس اوراق میں نوع بشر کے لیے کہیں مستعمل نہیں ہوا اور البتہ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ صرف اور صرف ائمہ اربعہ کی تقلید سے عالم اسلام مختلف فرقوں کی نذر ہو چکا ہے اور باہمی آویزش و منافرت، مشاجرات و اختلافات کی کبھی نہ ختم ہونے والی لامتنا ہی خلیج حائل ہو چکی ہے اور مقلدین احناف اصحاب الحدیث کے بارہ میں ہمیشہ دلی کدورت رکھتے ہیں، خصوصاً دیوبند سے وابستہ حنفی دوست حدیث اور اہل حدیث سے” مخلصانہ“ بغض وعنادر رکھتے ہیں سب سے سبقت لے گئے ہیں۔
شیخ بکر ابوزید حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
«فأهل الحديث حشرنا الله معهم لا يتعصبون لقول شخص معين مهما علاوسما حاشا محمدا بخلاف غيرهم ممن لا ينتمي إلى أهل الحديث والعمل به، فإنهم يتعصبون لأقوال أيقتهم وقد نهرهم عن ذلك، كما يتعصب أهل الحديث لأقوال نبتهم، فلا عجب أن تكون أهل الحديث هم الطائفة المنصورة والفرقة الناجية»
مجموع رسائل التوجيهات الإسلامية: 194/1.
”سواہل حدیث کسی خاص شخص کے قول کے لیے تعصب نہیں کرتے ، چاہے وہ کتنا بڑا امام ہو، سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ، جبکہ وہ لوگ جو اہل حدیث کی طرف اپنی نسبت نہیں کرتے ، وہ اپنے ائمہ کے اقوال کے لیے تعصب کرتے ہیں، حالانکہ ائمہ نے انہیں اس سے روکا ہے، اور اہل حدیث صرف اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کے لیے تعصب کرتے ہیں، اس لیے کوئی عجب نہیں کہ طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ یہی اہل حدیث ہوں ۔ “
الشيخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ
«التعصب للآراء والرجال : يحول بين المرء واتباع الدليل ومعرفة الحق، قال تعالى: ﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ تَتَّبِعُ مَا اَلفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَ نَا﴾ وهذا هو الشان فى المتعيبين اليوم من بعض اتباع المذاهب الصوفية والقبوريين إذا دعوا إلى اتباع الكتاب والسنة ونبد ما هم عليه فما يخالفهما احتجوا بمذاهبهم ومشائخهم وآباعهم وأجدادهم»

”آراء اور اشخاص کے لیے تعصب، جو کہ انسان کو اتباع دلیل اور حق کی معرفت سے روک دیتا ہے، ( بھی ظہور بدعات کے اسباب میں سے ایک ہے ) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ” اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جس چیز کو اتارا ہے اس کی پیروی کرو، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ نہیں ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا“ اور یہی حال آج ان متعصب لوگوں کا ہے جن کا تعلق صوفیاء اور قبر پرستوں کے ساتھ ہے، اور وہ مذاہب کی پیروی کرتے ہیں، تو انہیں جب کتاب وسنت کی پیروی کی طرف دعوت دی جائے اور انھیں کہا جائے کہ تمہارے اندر کتاب وسنت سے ٹکرانے والی جو باتیں ہیں انہیں چھوڑ دو، تو یہ اس کے مقابلے میں اپنے مذاہب، مشائخ اور آبا واجداد کو دلیل بناتے ہیں ۔“
کتاب التوحيدي ص: 110 .
ذہبی نے سمعانی سے نقل کیا ہے کہ آخر میں (احمد بن محمد حنفی ) اُن کو مذہبی تعصب بہت ہو گیا تھا یہاں تک اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علماء کو وحشت ڈال دی اور قوموں میں عداوت پھیلا دی حتی کہ منبروں پر بیٹھ کر لعنت کی نوبت پہنچتی ۔
الا ارشاد إلى سیل الرشاد، تالیف علامه حافظ ابو یحیی ص: 228 ۔
امیر کاتب عمید کے بارے میں فوائد یہیہ میں لکھتے ہیں:
”حنفیوں کے اندر سردار تھے لغت وفقہ میں پیش پیش تھے۔ اپنے آپ کو بہت بڑا جانتے تھے ۔ مخالفین کے ساتھ سخت تعصب رکھتے تھے۔ چنانچہ اُن کے الفاظ جوان کی تصانیف مثل شرح منتخب حسامی اور شرح ہدایہ میں واقع ہیں وہ اس پر دلالت کرتے ہیں۔ اپنے مخالف کے ساتھ زبان درازی کرنے والے تھے۔ شافعیہ کے ساتھ عداوت رکھتے تھے۔ اس میں انہوں نے بڑی کوشش کی۔ رفع الیدین کرنے سے نماز کے فاسد ہو جانے کا حکم لگادیا تھا۔ آخر عظیم محدث سیکی رحمہ اللہ نے ان کا رد کیا تب انہوں نے اس مسئلہ سے رجوع کیا۔“
الارشاد إلى سبيل الرشاد، تالیف علامه حافظ ابو یحیى، ص: 229۔ فوائد ييهية.

خیانت برتنا :

مقلدین اکثر مسائل بتلاتے وقت خیانت علمی سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ ان کتابوں میں لکھا ہوا ہے:
”فتوی طلب کرنے والا پوچھے کہ اس مسئلہ میں شافعی رحمہ اللہ کا کیا قول ہے تو مفتی جواب میں ابوحنیفہ رحمہ کا قول بیان کردے “
در مختار: ۔ 272/4

شرم و حیا کی رخصتی :

مقلدین ائمہ کتاب وسنت کو خیر آباد کہتے ہیں تو شرم و حیا کو بھی ساتھ ہی رخصت کر دیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے لکھا ہے:
1 : اپنے ذکر کو یا دوسرے کے ذکر کو پکڑنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
عالمگیری: 18/1.
2: زندہ یا مردہ جانور یا کم عمر لڑکی سے جماع کیا تو وضو نہیں ٹوٹتا۔
عالمگیری: 22/1۔ درمختار: 96/95.
3 : جانور یا مردہ یا کم عمر لڑکی سے جماع کرے اور انزال نہ ہو تو غسل فرض نہیں۔
در مختار: 95/1 – عالمگیری: 22/1- هدایه: 87/1 ۔
4 : کسی جانور کا ذکر فرج یا دبر میں داخل کرے تو غسل لازم نہیں۔
در مختار: 95/1.
5 : نفاس والی کے چالیس دن گزرنے کے بعد بغیر غسل کے صحبت جائز ہے۔
شرح وقایه: 25 .
6 : نجاست بھرا کپڑا اس قدر چاٹے کہ نجاست کا اثر جاتا رہے تو پاک ہے۔
هدايه : 1/ 278۔ عالمگیری: 70/1.
7 : جس عضو پر نجاست لگی ہو وہ تین بار چاٹنے سے پاک ہوجاتا ہے۔
عالمگیری: 70/1 ۔
8 : چھری پر نجاست لگے تو چاٹنے سے پاک ہے۔
عالمگیری: 70/1- هدایه: 282/1 ۔
9: بہشتی زیور میں جناب اشرف علی خاں تھا نوی لکھتا صاحب لکھتے ہیں کہ :
” کسی کے لڑکا پیدا ہورہا ہے لیکن ابھی سب نہیں نکلا کچھ باہر ہے اور کچھ نہیں نکلا ایسے وقت میں بھی اگر ہوش و حواس باقی ہوں تو نماز پڑھنا فرض ہے قضا کر دینا درست نہیں، البتہ اگر پڑھنے سے بچہ کی جان کا خوف ہو تو نماز قضا کر دینا درست ہے ۔ “
بہشتی زیور، مسئلہ باب نماز کا بیان، حصہ دوم، ص: 184 ۔
10 : بہشتی زیور میں اشرف علی خاں تھانوی صاحب نے لکھا ہے کہ مردہ عورت کا دودھ دوہ کرکسی بچہ کو پلا دیا تو اس سے بھی سب رشتے حرام ہو گئے۔
بہشتی زیور ، مسئلہ 11، باب دودھ پینے اور پلانے کا بیان، حصہ چہارم : 318۔
11 : ردالمختار 1 / 139 میں ہے کہ:
«قال مشايخنا من صلى وفي كته جر وتجوز صلاته وقيده الفقيه أبو جعفر الهندواني بكونه مشدود الفم»
”یعنی ہمارے مشائخ نے فرمایا ہے: جو اس حالت میں نماز پڑھے کہ اس کی آستین میں کتے کا پلا ہو تو ایسی صورت میں نماز پڑھنا جائز ہے، فقیہ ابو جعفر ہندوانی نے یہ شرط لگائی ہے کہ کتے کا منہ بندھا ہونا چاہیے۔“
12 : اگر تشہد میں ہوا سبقت لے جائے تو دوبارہ وضو کرے، پھر سلام پھیرے کیونکہ سلام پھیرنا واجب ہے اور سلام پھیر نے کے لیے وضو ضروری ہے۔ لیکن اگر اس حالت میں جان بوجھ کر ہوا خارج کر دے یا گفتگو شروع کر دے یا نماز کے منافی کام کرے تو اس کی نماز مکمل ہوگی۔
هداية اولين، ص: 110 .
13 : ابن عابدین شامی حنفی کے نزدیک امام کی شرطوں میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ :
«ثم الاكبر رأسا و الأصغرعضوا»
ردالمختار: 375/1.
”وہ بڑے سر والا اور چھوٹے عضو والا ہو ۔ “
14 : «وكذلك لو تزوج بذات رحم محرم نحو البنت والأخت والأم والعمة والخالة وجامعها لا حد عليه فى قول أبى حنيفة رحمه الله تعالى وأن قال علمت أنها على حرام»
فتوی عالمگیری: 468/3.
”اس طرح اگر کوئی محرمات ابدیہ سے نکاح کرے، مثلاً بیٹی ، بہن، ماں، پھوپھی یا خالہ اور پھر ان سے جماع بھی کرے تو امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق اس پر کوئی حد نہیں چاہے، وہ یہ جانتا بھی ہو کہ یہ کام مجھ پر حرام ہے۔ “
فتاوی عالمگیری: 468/3۔

حلال وحرام میں تمیز ختم :

تقلید کا ثمرہ یہ بھی ہے کہ مقلدین ائمہ کی تقلید میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینے لگتے ہیں۔ چنانچہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ میں مرقوم ہے:
1 : حرام چیز سے دوا کرنا اگر شفا کا یقین ہو تو جائز ہے۔
هدایه: 139/1.
2 : جو گوشت شراب میں پکا یا گیا ہو وہ تین بار جوش دینے اور خشک کرنے سے پاک ہے۔
در مختار: 172/1 ۔
3: سور نمک سار میں گر کر نمک ہو جائے تو پاک ہے۔
عالمگیری: 69/1۔ درمختار: 170.
4: کتے کی ہڈی اور بال اور پٹھے پاک ہیں اور کتے کی کھال کا ڈول اور جائے نماز بنانا جائز ہے۔
در مختار: 119/1- هدایه: 135/1.
5 : سور یا کتے کی پیٹھ پر غبار ہو تو تیمم جائز ہے۔
ابوحنيفه – هدايه: 182/1.
6 : روزہ میں ہاتھ سے منی نکالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ۔
در مختار 564/1_هدایه: 112/1.
7 : خلیفہ اور امام اور بادشاہ زنا کرے تو حد نہیں۔
در مختار: 476/2۔ عالمگیری: 270/3- هدایه: 463/2۔ شرح وقایه: 96/2.
8 : جانور سے جماع کرنے پر حد نہیں آتی۔
در مختار: 472/2۔ عالمگیری: 268/3- هدایه: 535/2_ شرح وقایه: 95،96/2۔
9 : زوجه مفقود الخبر نوے برس انتظار کرے۔
عالمگیری: 511،510/3- هدایه: 936/4 – شرح وقایه: 122/2.

حیرت و اضطراب :

متقلدین کی زندگی بس حیرت و اضطراب کی حالت میں ہی گزرتی ہے۔

ایک مصری عالم کا حال دل سینے :

”جامع ازہر میں ہم نے باب وضوء تین ماہ میں پڑھا۔ مگر وضوء کی حقیقت و سہولت سمجھ نہ آئی۔ یہاں تک کہ فقہ السنہ نے آنکھوں پر سے پردہ اٹھایا۔ ہم میں بہتیرے جامعہ ازہر میں بارہ بارہ اور پندرہ پندرہ برس رہتے ہیں ۔ اور مذاہب اربعہ میں کسی ایک مذہب کی اکثر و بیشتر کتابیں پڑھ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ فضیلت کی سند بھی مل جاتی ہے۔ لیکن جب آخر میں غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اتنی کتابیں رٹ جانے کے خود اس مذہب کی بھی تحقیق حاصل نہیں ہو پائی۔ دوسرے مذاہب کی تحقیق اور تفسیر وحدیث کا علم تو بہت دور رہا۔ چنانچہ ہم ہمیشہ حیرت واضطراب میں پڑے رہتے ہیں کہ اختلافی مسائل میں طریق ترجیح تک نہیں جانتے ۔ “
مقدمه هدى الرسول، ص: 4.

تقلید شرک کا سبب ہے:

مولانا سرفراز خان صاحب صفدر (دیوبندی حنفی) فرماتے ہیں: کسی ایک خاص مجتہد کی ایسی تقلید کہ اس کے قول کو حق وصواب سمجھا جائے اور اس سے خطاء اور غلطی کو ناممکن تصور کیا جائے، ایسی تقلید مفضی الی الشرک ہے۔
الكلام المفيد، ص: 310.
قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے (آل عمران آیت نمبر 46) کے تحت تقلید کو شرک کہا ہے۔
الظفر المبين.

مذہب کی خاطر حیلہ سازی:

مقلدین اپنے ائمہ کے اقوال کو تقویت دینے اور اپنے مذہب کا دفاع کرنے کے لیے عموماً حیلہ سازی سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ:
1 : «وإذا نقب اللص البيت فدخل وأخذ ألمال ونا وله أحر خارج البيت فلا قطع عليهما»
هدایه اولین ص: 525 ۔
”کوئی چور نقب لگا کر گھر میں داخل ہو کر مال چوری کرے گھر سے باہر موجود شخص وہ مال لے لے تو دونوں کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے۔“
2 : اور دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ :
«وكذلك إن حمله على حمار فساقه وأخرجه»
هدایه اولین، ص: 526 ۔
”اگر چور مال سمیٹ کر گدھے پر لاد کر ہانک کر لے جائے تو ہاتھ نہیں کٹیں گے۔“

دوسرے مسلمان کو حقیر جاننا حتی کہ خارج از اسلام سمجھنا:

مقلدین دوسرے مسلمانوں کو مسلمان تصور ہی نہیں کرتے ، اور ان سے نکاح و شادی کو بھی حرام سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ محمد بن موسیٰ البلا ساغونی حنفی کا کہنا تھا کہ
محمد بن موسی البلا ساغونی حنفی سے مروی ہے کہ اس نے کہا:
«لو كان لي أمر لاخذت الجزية من الشافعية»
میزان الاعتدال للذهبي: 52/4.
”اگر میرے پاس اختیار ہوتا تو میں شافعیوں سے جزیہ لیتا ۔ “
عیسی بن ابی بکر بن ایوب الحنفی سے جب پوچھا گیا کہ تم حنفی کیوں ہو گئے ہو جبکہ تمہارے خاندان والے سارے شافعی ہیں؟ تو اس نے جواب دیا : کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ گھر میں ایک مسلمان ہو!
الفوائد البهيه، ص: 152 153.
حنفیوں کے ایک امام اسفکر دری نے کہا ہے:
«لا ينبغي للحنفي أن يزوج بنته من شافعي المذهب ولكن يتزوج منهم»
فتاوی بزازيه على هامش فتاوی عالمگیریه 112/4.
”حنفی کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح کسی شافعی مذہب والے سے کرے لیکن وہ اس (شافعی) کی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے۔ “

تقلید کا ثمر قتل وغارت کی صورت میں :

”تقلید شخصی کی وجہ سے ائمہ اربعہ کی تقلید کرنے والے لوگوں نے آپس میں لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت تک کرنے سے گریز نہ کیا۔ حنفیوں اور شافعیوں نے ایک دوسرے سے خونریز جنگیں لڑیں ایک دوسرے کو قتل کیا دکانیں لوٹیں اور محلے جلائے ۔ “
معجم البلدان: 209/1- اصبهان : 117/3- تاریخ ابن اثیر الکامل: 92/9 – حوادث سنة 541ھ.
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی زبانی سنیے :
”فقہ کے مذاہب اربعہ جب مشخص و مدون ہو گئے اور تقلید شخصی کا التزام ہو گیا تو سوال پیدا ہوا کہ ان چاروں اماموں میں افضل کون ہے حضرت امام ابوحنیفہ یا حضرت امام شافعی؟ اب بحث شروع ہوئی اور بحث نے جنگ و قتال کی شکل اختیار کی ۔ چنا نچہ ہلاکو خان کو اسلامی ممالک پر حملہ کی سب سے پہلی ترغیب خراسانیوں کے اسی جھگڑے سے ملی تھی ۔ حنفیوں نے شافعیوں کی ضد میں آ کر بلاوا بھیجا اور شہر کے پھاٹک کھول دیئے ۔ جب تاتاریوں کی تلوار چل گئی تو اس نے نہ شافعیوں کو چھوڑا نہ حنفیوں کو۔“
«فجاسوا خلال الديار وكان وعدا مفعولا»
ملخص ترجمان القرآن: 394/2.

حق کو قبول کرنے سے اعراض:

مقلدین قبول حق سے اعراض برتتے ہیں ۔ چنانچہ امام فخر الدین الرازی لکھتے ہیں:
”ہمارے استاد جو خاتم المحققین والمجتہدین ہیں: فرماتے ہیں کہ میں نے فقہائے مقلدین کے ایک گروہ کا مشاہدہ کیا ہے کہ میں نے انہیں کتاب اللہ کی بہت سی آیتیں سنائیں جو ان کے تقلیدی مذہب کے خلاف تھیں تو انہوں نے (نہ) صرف ان کے قبول کرنے سے اعراض کیا بلکہ ان کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی ۔ “
تفسیر کبیر سورة التوبه آیت : 13، ج : 16، ص:37۔ اصلی اهل سنت، ص: 135، 136.

تقلید سے جہالت آتی ہے:

عبید اللہ بن المعتز (متوفی 447ھ) سے مروی ہے:
«لا فرق بين يهيمة تقاد وإنسان يقلد»
جامع بيان العلم وفضله : 114/2 اعلام الموقعين : 196/2 – الرد على من اخلد إلى الأرض، ص: 121.
”یعنی تقلید کرنے والے انسان اور ہنکائے جانے والے جانور میں کوئی فرق نہیں ہے۔ “
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کسی امام یا عالم کی بات بغیر دلیل و تحقیق کے آنکھیں بند کر کے قبول کرنا تقلید کہلاتا ہے قطع نظر اس سے کہ اس نے یہ بات کہاں سے لی اور کس سے لی ہے۔ ایسا اندھا مقلد جاہل اور علم سے کورا ہے۔ پھر آپ نے اس کی دلیل میں قرآن مجید کی یہ آیت پیش کی :
﴿فَاعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ﴾
” یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔“
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو معرفت اور تحقیق کا حکم دیا ہے نہ کہ بطن اور تقلید کا ۔
فقه الأكبر لامام ابو حنيفه طبع مصر ص: 10 .

شریعت سازی:

مقلدین جب اپنے مذہب کی خاطر اور اپنے اپنے ائمہ کے اقوال کو تقویت پہنچانے کے لیے اصول وضوابط گھڑتے ہیں یا پھر اپنے امام کے قول کو حدیث وسنت پر ترجیح دیتے ہیں تو گویا وہ شریعت سازی کر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا:
«من استحسن فقد شرع»
الإحكام للآمدى: 162/2.
” جس نے کسی عمل کو اپنی طرف سے اچھا جانا اس نے شریعت سازی کی ۔“
احناف کے مشہور ومعروف عالم مسعود بن شیبہ اپنی کتاب التعلیم کے مقدمے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کے بارے میں رقم طراز ہیں:
«إنه يجب على أهل الغرب والشرق بل على كافة الخلق أن تتخذوا آباحنيفة إماما وعقيدته دينا وقوله مذهبا بحيث لا يبغون عنه حولا ولا يريدون به بدلا»
” مشرق و مغرب میں رہنے والوں پر بلکہ تمام مخلوق پر واجب ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ اللہ کو اپنا امام، ان کے عقیدے کو اپنا دین اور ان کے اقوال کو اپنا مذ ہب اس طور سے بنائے کہ نہ اس سے آگے بڑھ سکے اور پیچھے پلٹ سکے بلکہ تاحیات حنفی المذہب بن کے رہیں۔ “
محمود الحسن دیوبندی صاحب مزید فرماتے ہیں:
” کیونکہ قول مجتہد بھی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی شمار ہوتا ہے ۔ “
تقاریر حضرت شیخ الهند، ص: 24۔ الورد الشذى، ص:2.
شیخ عبدالرحمن بن حسن آل الشیخ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”یہ برائی عام ہو چکی ہے، خصوصاً ان لوگوں میں جو اہل علم کہلاتے ہیں، انہوں نے کتاب وسنت کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں اور لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے روک رہے ہیں، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ کتاب وسنت سے صرف مجتہد ہی دلیل لے سکتا ہے، اور اب اجتہاد کا دروازہ بند ہے، نیز یہ کہتے ہیں کہ جس کی ہم تقلید کرتے ہیں وہ آپ سے بڑا عالم بالحدیث تھا، تو اس طرح کی باتوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کی جائے جو کہ وحی کے بغیر بولتے ہی نہیں تھے، اور اس شخص کی بات پر مکمل اعتماد کیا جائے جو غلطی بھی کر سکتا ہے۔ سو ہر مکلف پر واجب ہے کہ اسے جب کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی دلیل مل جائے اور اسے اس کا معنی بھی سمجھ میں آجائے تو وہ اس پر عمل کر گزرے، خواہ اس پر کسی عالم یا امام نے عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو، اور اس بات پر ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اجماع نقل کیا ۔“
فتح المجيد صفحه نمبر: 240 – 339.

مذہب کی خاطر تاویلات:

مقلدین اپنے ائمہ کے اقوال کی خاطر قرآنی آیات اور احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی تاویلات کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ چنانچہ ابو الحسن کرخی حنفی نے لکھا ہے:
«أن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها تحمل على النسخ أو على الترجيح ، والأولى أن تحمل على التاويل من جهة التوفيق»
اصول کرخی 12 .
”ہر وہ آیت قرآنیہ جو ہمارے فقہاء کے اقوال کے خلاف ہے اسے یا تو نسخ پرمحمول کیا جائے گا یا ترجیح پر۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ اسے تاویل پر محمول کیا جائے تاکہ موافقت پیدا ہو جائے ۔ “
مزید لکھتے ہیں :
«أن كل خبر يجنى بخلاف قول أصحابنا فإنه يحمل على النسخ أو على أنه معارض بمثله»
اصول الکرخی، ص: 373.
”ہر وہ حدیث جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہو اسے منسوخ سمجھا جائے گا یا اس کے مثل حدیث کے معارض سمجھا جائے گا۔“

مقلد، مبتدع جماعت اہل سنت سے خارج ہے:

علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والذي يجب أن تقال: كل من انتسب إلى إمام غير رسول الله يوالى على ذلك ويعادي عليه فهو مبتدع خارج عن السنة والجماعة، سواء كان فى الأصول أو الفروع»
الكنز المدفون والفلك المشحون، ص: 149 .
” یہ کہنا واجب (فرض) ہے کہ ہر وہ شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے امام سے منسوب ہو جائے ، اس انتساب پر وہ دوستی رکھے اور دشمنی رکھے تو یہ شخص بدعتی ہے، اہل سنت والجماعت سے خارج ہے، چاہے ( انتساب) اصول میں ہو یا فروع میں۔“

تقلید کی وجہ سے ہر گروہ اپنے مذہب کی دعوت دیتا ہے:

تقلید کی وجہ سے ہر گروہ اپنے مذہب اور امام کی طرف بلاتا ہے، نہ کہ اسلام کی طرف نتیجتاً حیرانی ہی حیرانی ہوتی ہے۔
شیخ محمد سلطان معصومی نے اپنی كتاب هل اعلم ملتزم باتباع مذهبمعین، (ص: 3) پر ذکر کیا ہے، کہ : ” جاپان کے شہر ٹوکیو سے انہیں ایک خط موصول ہوا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ”جاپان کے چند روشن دماغ آدمی اسلام کی طرف مائل ہوئے تو انہوں نے اپنا ارادہ جمعیت المسلمین ٹوکیو کے سامنے ظاہر کیا، تو وہاں پر جو ہندوستان کے حنفی علماء تھے، وہ کہنے لگے: تم ابوحنیفہ کے مذہب کو قبول کرو۔ کیونکہ وہ سراج امت ہیں۔ لیکن جاوا ( انڈونیشیا) کے شافعی علماء نے ان کو مشورہ دیا کہ تم شافعی مذہب قبول کرو تو وہ لوگ دونوں گروہوں کی کھینچا تانی کی وجہ سے سخت متحیر ہوئے اور اسلام قبول نہ کر سکے ۔“
شیخ محمد حیات سندھی حنفی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
”ہمارے اہل زمانہ نے جو خاص مذہب کے التزام کی بدعت ایجاد کی ہے کہ ہر ایک کی ایک مذہب سے منتقل ہو کر دوسرے مذہب میں جانے کو نا جائز کہتا ہے۔ تو یہ جہالت بدعت اور ظلم ہے۔ ہم نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو صحیح غیر منسوخ احادیث کو چھوڑ کر جن مذاہب کی کوئی سند نہیں انہیں سے تمسک کرتے ہیں۔ “
إنا لله وإنا إليه راجعون.
إيقاظهم اولی الابصار، ص : 70.
بین المذاہب رسہ کشی کی مثالوں سے کتب بھری پڑی ہیں، اسی تعصب اور اپنے مذہب کی طرف دعوت دینے کے نتیجے میں مسجد الحرام میں چار مصلے، بلکہ کچھ عرصہ شیعہ زیدیہ کا پانچواں مصلی اس کی بین دلیل ہے، جیسا کہ ابن جیرا اندلسی نے (578ھ) کے سفر نامہ حج میں ذکر کیا ہے۔ اختلاف کا کس قدر بدنما منظر ہو گا کہ جسے دیکھ کر اعداء اسلام کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچے ۔ العیاذ باللہ علامہ صنعانی لکھتے ہیں کہ :
”اللہ تعالیٰ کے اس حرم کہ جس کے سب مقامات سے افضل ترین مقام ہونے پر علماء امت کا اجماع ہے، میں بھی پھر کسی جاہل، گمراہ اور برے ملوک نے ان مصلوں کو ایجاد کیا۔ جس کی وجہ سے عباد اللہ کی عبادت کو بھی متفرق کر کے کتنے مفاسد پیدا کیے، یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ “
”اہل اسلام کی عبادت کو متفرق کرنا، ایسی بدعت ہے کہ جس سے ابلیس لعین کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ، اور پھر مسلمانوں کو شیطان کے لیے مسخرہ بنا دیا ۔ “
تطهير الاعتقاد عن ادران الالحادي ص: 34.
علامہ شوکانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
مکہ مکرمہ میں مختلف مصلوں کی ایجاد کے بدعت ہونے پر اجماع ہے۔ جسے چر کسی ملوک میں سے فرج بن برقوق نے نویں صدی ہجری کے اوائل میں ایجاد کیا۔ اس زمانے کے اہل علم نے اس پر نکیر کیا۔ اور اس کی مخالفت میں کتابیں بھی لکھیں ۔ الله اكبر
مقام تعجب ہے کہ زمین پر سب سے افضل مقام میں مسلمانوں کے برے بادشاہ نے اس بدعت کو ایجاد کیا، جسے بعد کے اہل خیر ملوک نے برا جانا، کیونکہ ان مصلوں نے مسلمانوں کو با جماعت نماز کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ حالانکہ صادق و مصدوق پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف اور تفرقہ سے منع فرمایا اور اتحاد و اتفاق کا درس دیا۔ بلکہ آپ نے بیک وقت مختلف جماعتیں کرانے سے منع فرمایا ہے۔
سب سے خطر ناک اور اسلام اور اہل اسلام پر گراں بات یہ کہ حرم مکی میں ہر امام اپنی الگ الگ جماعت کھڑی کرتا۔ ہر امام کے مقلد ومتبع اپنے ہی مصلی پر اس کے پیچھے کھڑے ہوتے ، ایسا معلوم ہوتا کہ یہ لوگ مختلف شریعتوں اور ادیان کے جانتے مانتے ہیں۔
انا لله وانا اليه راجعون
إرشاد السائل إلى دلائل المسائل، ص: 95.
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر وصی اللہ محمد عباس مدرس و مفتی مسجد الحرام و پروفیسر جامعه ام القری مکته المکرمہ نے اپنی کتاب المسجد الحرام تاريخه واحكامه میں اس مسئلے کو تاریخی طور پر ذکر کیا ہے۔ اس میں لکھتے ہیں کہ : ” مجھے تنبیع کے بعد ائمہ اربعہ کے مصلوں اور محاریب کا پہلا ذکر (488 ھ )میں ملا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ مصلے نویں صدی سے بہت پہلے ہی ایجاد ہو چکے تھے۔
المسجد الحرام تاريخه و احکامه، ص: 163، 169.
مزید برآں اپنی کتاب تقلید کا حکم (ص: 112) پر رقمطراز ہیں : ” اللہ کے فضل و کرم سے یہ بدعت حرم پاک سے ختم ہو گئی۔ جب اسلام کے عبقری ، اللہ کے دین کے مجددشاہ عبدالعزیز بن عبد الرحمن آل فیصل رحمہ اللہ جزیرہ عرب پر حاکم ہوئے اور اپنی حکومت کی بنیاد کتاب وسنت پر رکھی ، جس نے دین حنیف کی خدمت کا حتی الامکان حق ادا کیا، کتاب وسنت کی تعلیم کو عام کیا۔ عقیدہ سلف کی ایسی خدمت کی جس کی مثال بہت صدیوں کے پہلے قرونِ خیر ہی میں مل سکتی ہے۔ اللہ ان کو اپنی رحمت میں رکھے، آمین !
البتہ اموی مسجد دمشق میں جیسا کہ وہاں کے لوگوں نے بتایا ہے کہ چار محراب اب بھی باقی ہیں۔ اللہ انہیں بھی زائل کر کے مسلمانوں کو ایک امام پر اکٹھا کر دے۔

مقلدین ائمہ کی کتب کا سرسری جائزہ :

مقلدین ائمہ میں سے ہم صرف امام ابو حنیفہ کے مقلدین کی کتب اصول فقہ کا سرسری جائزہ پیش کیے دیتے ہیں تا کہ عوام مقلدین پر اس حقیقت کا پتا چل جائے کہ جن کتب پر ان کا اعتماد ہے، اُن کی حیثیت علمی وفقہی کیا ہے؟
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجدت أكثرهم يزعمون أن بناء الخلاف بين أبى حنيفة والشافعي على هذه الأصول المذكورة فى كتاب البزدوي ونحوه، وإنما الحق أن أكثرها أصول مخرجة على قولهم وإنها لا تصح بها رواية عن أبى حنيفة وصاحبيه»
الانصاف ص: 88 حجة البالغة: 120/1.
”اکثر مقلدین کا خیال ہے کہ اصول امام ابوحنیفہ اور صاحبین سے منقول ہیں لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ اصول ان کے فروعی مسائل اور اقوال سے بنائے گئے ہیں ۔ لہذا اصول کو ان کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے۔“
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ : جس شخص کی سنت مطہرہ پر نظر ہے اور وہ سنت کی تحقیق اور اشاعت میں مشغول رہتا ہے۔ اسے خوب معلوم ہے کہ کتب فقہ ایسے اقوال سے بھری پڑی ہیں۔ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بھی جائز نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جید حنفی عالم عبد الحی حنفی لکھوی تسلیم کرتے ہیں کہ :
” کتنی کتابیں ایسی ہیں جو جلیل القدر فقہاء کے ہاں قابل اعتماد ہیں لیکن ضعیف احادیث سے بھری پڑی ہیں ۔ پس ہم غور وفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اگر چہ ان کتابوں کے مؤلفین نیک تھے لیکن وہ احادیث کے نقل کرنے میں سہل افکار تھے . “
النافع الكبرى لمن يطالع الجامع الصغير ص: 122.
امام ابوحنیفہ کی وفات (150ھ) میں ہوئی ، اور فقہ حنفی کی کتب امام ابوحنیفہ کی وفات کے صدیوں بعد لکھی گئیں جس طرح یہود نصاری اپنی کتب سیدنا موسیٰ اور سید نا عیسی علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں، بالکل اسی طرح حنفی حضرات بھی اپنی کتب فقہیہ امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کرتے ہیں جن کا تعلق امام ابوحنیفہ کے ساتھ ہر گز ثابت نہیں۔
یہ لوگ حدیث میں بہت کمزور تھے۔ چنانچہ مولانا عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں:
«إن الكتب الفقهية وإن كانت معتبرة فى نفسها بحسب المسائل الفرعية وكان مصنفوها أيضا من المعتبرين والفقهاء الكاملين لا يعتمد على الاحاديث المنقولة فيها اعتمادا كليا ولا يجزم بورودها وثبوتها قطعا بمجرد وقوعها فيها فكم من احاديث ذكرت فى الكتب المعتبرة وهى موضوعة ومختلقة»
مقدمه عمدة الرعايه صفحه : 12، مطبوعه یوسفی.
”مصنف بھی ایسے ہی معتبر فقہاء ہوں کہ ان کی فقاہت پر اعتماد کیا جاتا ہولیکن ان احادیث پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے جو ان لوگوں نے اپنی کتب فقہ میں لکھی ہیں اور نہ ہی ان کا حدیث نام دے کر اپنی کتب میں کوئی عبارت لکھ دینے سے یقین کر لینا چاہیے کہ یہ ضرور حدیث ہی ہوگی۔ کیونکہ ان کتب فقہ میں بہت سی ایسی احادیث ہیں جو موضوع یعنی من گھڑت اور بناوٹی ہیں اور بہت سی مختلف فیہ ہیں یعنی جن کی صحت کا اعتبار نہیں ہے۔ “
فقہ حنفی میں ہدایہ کو كا لقرآن بھی کہا گیا ہے، اس کی روایات کے متعلق ملاعلی قاری حنفی قضائے عمری کے بارے میں ایک بے بنیا د روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
«لا عبرة بنقل النهاية ولا ببقية شراح الهداية، فإنهم ليسوا من المحدثين، ولا أسندوا الحديث إلى أحد من المخرجين»
الأسرار المرفوعة : 356 بیروت۔ موضوعات کہیں ص: 74، مطبوعه مجتماعی، دهلی.
نہایۃ شرح ہدایہ اور دیگر شارحین ہدایہ کی نقل کردہ روایات حدیث کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ ایک تو وہ محدث نہیں دوسرے وہ روایات کا ماخذ (source) بھی بیان نہیں کرتے کہ کس محدث نے اس روایت کی تخریج کی ہے۔
مولانا عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں:
«من كتاب معتمد اعتمد عليه أجله الفقهاء معلو ۚ من الأحاديث الموضوعة، ولاسيما الفتاوى»
مقدمه النافع الكبير : 31/1.
”کتنی معتبر کتب ایسی ہیں جن پر جلیل القدر فقہاء نے اعتماد کیا ہے اور وہ موضوع احادیث سے بھری پڑی ہیں، خصوصاً فتاوے۔ “
علامہ عبدالحی لکھنوی حنفی ببانگ دہل حق بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«ألا ترى إلى صاحب الهداية من أجلة الحنفية والرافعي شارح من أجلة الشافعية مع كونهما ممن يشار إليهما بالانا مل ويعتمد عليه الأماجد والآمائل قد ذكروا فى تصنيفيهما ما لم يوجد له أثر عند خبير بالحديث»
اجوبه فاضله.
”یعنی کیا تم صاحب ہدایہ کی طرف نہیں دیکھتے جو سرتاج حنفیہ اور رافعی شارح جو چوٹی کے فقہاء شافعیہ میں شمار کیے جاتے ہیں باوجود اس کے کہ یہ وہ جلیل القدر ہستیاں ہیں کہ ان کی عظمت اور جلالت کی طرف انگلیوں سے اشارے کیے جاتے ہیں اور بڑے بڑے نامور علماء و فقہاء ان کے مسائل حلال و حرام پر اعتماد کرتے چلے آئے ہیں، مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں نے بہت زیادہ ایسی احادیث اپنی کتابوں میں لکھی ہیں جو اس درجہ من گھڑت اور بناوٹی ہیں کہ اصل کتب حدیث سے ان کا ہر گز کچھ سر و کار اور واسطہ ہی نہیں ہے۔ “
الشيخ عبد الحق حنفی ، مصنف ہدایہ کا علم حدیث کے ساتھ تعلق کو آشکارا کرتے ہوئے شرح (سفر السعادت ،ص 23) طبع لکھنو میں رقمطراز ہیں :
حديثے آورده نز د محدثين خالي از ضعفے نه غالباً اشتغال وقت آن آستاز در علم حديث كمتر بوده
” یعنی معلوم ہوتا ہے مصنف ہدایہ کو علم حدیث سے کچھ زیادہ تعلق اور واسطہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایسی احادیث نقل کرتا ہے جو کہ محدثین رحمہ اللہ کے نزدیک نا قابل اعتبار و ضعیف ہیں ۔“
ان جلیل القدر ہستیوں اور فقہاء کا یہ حال ہے، کہ احادیث کے ذکر کرنے میں تساہل برتتے ہیں اور احادیث کی اسانید کے بارے میں چھان بین سے کام نہیں لیتے ۔ یعنی یہ ہے بڑی بڑی اور معتبر کتب فقہ کا حال کہ ان میں موضوع اور بے اصل روایات پائی جاتی ہیں ۔ان کی چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔

ہدایہ کی موضوع اور بے اصل روایات:

● پہلی حدیث :

صاحب ہدایہ لکھتے ہیں :
«روي أنه عليه السلام قاء فلم يتوضأ »
فتح القدير: 39/1.
”روایت کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قے کی لیکن وضو نہیں کیا۔“
تحقیق : حافظ زیلعی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
”غریب جداً، بہت غریب ہے۔“
نصب الراية : 184، 37/1.
نوٹ : ان کی غریب سے مراد یہاں یہ ہے کہ یہ حدیث ان کو نہیں ملی ۔
اور ابن ہمام رقمطراز ہیں:
«أما حديث أنه قاء فلم يتوضأ فلم يعرف»
39/1۔
” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قے کی لیکن وضو نہیں کیا، تو یہ معروف نہیں ہے۔ “
علامہ عینی نے کہا ہے:
«هذا الحديث غريب لا ذكر له فى كتب الحديث»
البناية : 198/1.
” یہ حدیث غریب ہے، اس کا کتب حدیث میں کوئی وجود نہیں۔ “

● دوسری حدیث :

صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
«وقال عليه الصلاة والسلام لا تزال أمتي بخير ما عجلوا المغرب وأخروا العشاء»
228/1۔
”اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت خیر پر رہے گی جب تک وہ مغرب کو جلد اور عشاء کو تاخیر سے ادا کرتی رہے گی۔
تحقیق : حافظ زیلعی اس کے متعلق لکھتے ہیں:
«قلت غريب»
246/1۔
” میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث غریب ہے۔ “
ابن ابی العز الحھی لکھتے ہیں:
«هذا الحديث منكل لا يعرف فى كتب الحديث»
التنبيه على مشكلات الهداية : 468/10
”یہ حدیث منکر ہے، کتب حدیث میں پہچانی نہیں جاتی۔“
علامہ بدرالدین عینی فرماتے ہیں:
«هذا الحديث له أصل ولكن بغير هذه البصارة»
البناية : ۔ 49/2 ۔
”اس حدیث کی اصل ہے لیکن دوسرے الفاظ سے۔ “

● تیسری حدیث :

صاحب ہدایہ لکھتے ہیں :
«لقوله عليه الصلاة والسلام من قلد بدنة فقد أحرم»
514/۔
”یعنی جس شخص نے حج کے موقع پر مکہ میں قربانی ہونے والی اونٹنی کے گلے میں بطور علامت جوتا یا پٹا ڈال دیا ہو اس نے یقینا احرام باندھ لیا یعنی ایسا کرنے سے اس پر احرام کی پابندیاں لاگو ہوجائیں گی، اگر چہ اس نے ابھی تک احرام نہ بھی باندھا ہو۔ “
حافظ زبیعی اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
«قلت: غريب مرفوعا»
98/3۔
”میں یہ کہتا ہوں کہ یہ حدیث مرفوعاً غریب ہے۔ “
اس کے بعد انھوں نے ذکر کیا ہے کہ یہ ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
اور یہی بات ابن ہمام نے فتح القدير (514/2) میں اور علامہ عینی نے البناية (174/4) میں کہی ہے۔
اور حافظ ابن حجر نے کہا ہے:
«لم أجده مرفوعا»
الدراية: 32/2.
”یہ حدیث مرفوعاً مجھے نہیں ملی۔ “
اور ابن ابی العز نے کہا ہے:
«هذا الحديث غير معروف»
التنبيه على مشكلات الهداية : 1062/3 .
”یہ حدیث غیر معروف ہے۔ “
پس انہی تین روایات کی حقیقت عیاں کرنے کے لیے چند باتوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ ور نہ اس کتاب میں بہت سی احادیث ہیں جو بے اصل ہیں، اگر کسی کو اس بات میں شک و شبہ ہوتو وہ نصب الراية، الدراية اور التنبيه على مشكلات الهداية لابن ابي العز کا مطالعہ کر کے دیکھ لے۔ فانه يرى العجب العجاب در مختار بھی فقہ حنفی کی چوٹی کی کتاب ہے۔ اس کے صفحہ (183) پر جامع المسانيد وغیرہ کے حوالے سے امام ابو حنیفہ کی فضیلت سے متعلق ابو حنيفة سراج أمتي روایت موجود ہے۔ اس کی اسنادی حیثیت بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری حنفی رقمطراز ہیں :
«موضوع باتفاق المحدثين»
موضوعات کبیں رقم: 4.
”محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے۔ “
حنفی فتاوی میں بھی موضوع اور من گھڑت روایات پائی جاتی ہیں۔ قاضی خان اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں:
«روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل متكا»
فتاوی قاضی خان : 781/4، مطبوع نور لکشور دهلی منقول از الطوام المرعشة لبديع الدين الراشدی ، ص : 83 ۔
”روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹیک لگا کر کھانا کھایا۔“
یہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے اور صحیح احادیث کے مخالف ہے کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إني لا أكل متك»
صحيح بخاري، كتاب الأطعمة، رقم: 5398، 5399.
”میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا۔ “
اور یہی حال کتب اصول فقہ حنفی کا ہے۔ ملا جیون نے نور الانوار میں ایک حدیث میں اسی طرح ذکر کیا ہے:
«إذا انسلخ شعبان فلاصوم إلا عن رمضان»
نور الأنوار، ص: 211، بتحقيق حافظ ثناء الله زاهدی.
”جب شعبان ختم ہو جائے تو پھر رمضان ہی کا روزہ رکھو۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے