وَزَادَ النَّسَائِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ لَا يُقَوِّمُهَا عَلَى أَهْلِ الْقُرَى، أَرْبَعَ مِائَةَ دِينَارٍ، أَوْ عِدُلَهَا مِنَ الْوَرِقِ، وَيُقَوِّمُهَا عَلَى أَهْلِ الْإِبِلِ إِذَا غَلَتْ رُفِعَ فِي قِيمَتِهَا، وَإِذَا هَانَتْ نُقِصَ مِنْ قِيمَتِهَا عَلَى نَحْوِ الزَّمَانِ مَا كَانَ، فَبَلَغَ قِيمَتُهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ لَا مَا بَيْنَ الْأَرْبَعِ مِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِ مِائَةِ دِينَارٍ، أَوْ عِدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ قَالَ: وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ عَلَى أَنَّ مَنْ كَانَ لَهُ عَقْلُهُ فِي الْبَقَرِ عَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ، وَأَنَّ مَنْ كَانَ لَهُ) عَقْلُهُ فِي الشَّاةِ الْفَى شَاةٍ (وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ عَلَى اللَّهِ أَنَّ الْعَقْلَ مِيرَاتٌ بَيْنَ وَرَثَةِ الْقَتِيلِ عَلَى فَرَائِضِهِمْ فَمَا فَضْلَ فَلِلْعَصَبَةِ) وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ مَن أَن تَعْقِلَ الْمَرْأَةُ عَصَبَتَهَا (مَنْ) كَانُوا، وَلَا يَرِثُونَ مِنْهَا شَيْئًا) إِلَّا مَا فَضْلَ مِنْ وَرَبَّتِهَا، وَإِنْ قُتِلَتْ فَعَقْلُهَا بَيْنَ وَرَبَّتِهَا، وَهُمْ يَقْتُلُونَ قَاتِلَهَا وَسَيَأْتِي فِي حَدِيثِ فِي الْقَسَامَةِ فَدَاهَ بِمَائَةٍ مِنَ الْإِبِلِ الصَّدَقَةِ
نسائی نے اضافہ کیا اس حدیث میں کہا ہے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بستی والوں پر ان کی قیمت لگاتے چار سو دینار یا اس کے برابر چاندی اور اونٹ والوں ان کی قیمت لگاتے جب مہنگائی ہوتی تو ان کی قیمت زیادہ کر دیتے اور جب بازار سستا ہوتا تو ان کی قیمت میں کمی کر دیتے وقت کے تقاضے کے مطابق جیسے بھی ہوتا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان کی قیمت چار سو دینار سے لے کر آٹھ سو دینار تک ہوتی یا اس کے برابر چاندی۔ راوی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ گائیوں والے سو گائیں دیت میں دیں اور جس نے بکریوں سے دیت دینا ہو تو وہ دو ہزار بکریاں دیت میں دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ دیت مقتول کے وارثوں کی میراث ہوگی اپنے اپنے حصے کے مطابق اور جو باقی بچے گا وہ عصبہ کے لیے ہوگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ عورت کی دیت اس کے عصبہ دیں گے جو بھی ہوں وہ اس کے کسی چیز کے وارث نہیں ہوں گے مگر جو ان کے وارثوں سے زائد بچ جائے اگر اسے قتل کر دیا جائے تو اس کی دیت ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگی اور وہ ہی اس کے قاتل کو قصاص میں قتل کر سکتے
ہیں حدیث قسامہ میں دیت کے بارے میں ذکر آئے گا کہ آپ نے سو اونٹ بطور دیت صدقہ کے اونٹوں سے دیے تھے۔
تحقيق وتخریج:
حدیث حسن ہے۔
[نسائي: 23/8، ابن ماجة: 2630]
فوائد:
➊ دیت میں ریٹ کے اتار چڑھاؤ کو مد نظر رکھا جائے گا دور نبوی والا ریٹ ہی نہیں چلتا جائے گا۔
➋ اونٹوں کی عدم موجودگی میں گائے سونا چاندی بھیٹر بکریوں سے بھی دیت قبول کی جائے گی۔
➌ دیت کے وارث مقتول کے ورثاء بنتے ہیں۔ تقسیم میں وہ سب برابر ہیں پہلے اصحاب فروض پھر عصبہ کو دیت کا حصہ ملے گا۔
➍ مقتول کا قصاص لینے والے قصاص لینے کا مطالبہ کرنے والے بھی اس کے ورثاء ہی ہوتے ہیں۔ ایسے ہی دیت وصول کرنے والے بھی وہی ہوتے ہیں۔
➎ عورت کے وارث بھی اصحاب فروض کے بعد عصبہ ہوں گے۔
نسائی نے اضافہ کیا اس حدیث میں کہا ہے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بستی والوں پر ان کی قیمت لگاتے چار سو دینار یا اس کے برابر چاندی اور اونٹ والوں ان کی قیمت لگاتے جب مہنگائی ہوتی تو ان کی قیمت زیادہ کر دیتے اور جب بازار سستا ہوتا تو ان کی قیمت میں کمی کر دیتے وقت کے تقاضے کے مطابق جیسے بھی ہوتا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان کی قیمت چار سو دینار سے لے کر آٹھ سو دینار تک ہوتی یا اس کے برابر چاندی۔ راوی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ گائیوں والے سو گائیں دیت میں دیں اور جس نے بکریوں سے دیت دینا ہو تو وہ دو ہزار بکریاں دیت میں دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ دیت مقتول کے وارثوں کی میراث ہوگی اپنے اپنے حصے کے مطابق اور جو باقی بچے گا وہ عصبہ کے لیے ہوگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ عورت کی دیت اس کے عصبہ دیں گے جو بھی ہوں وہ اس کے کسی چیز کے وارث نہیں ہوں گے مگر جو ان کے وارثوں سے زائد بچ جائے اگر اسے قتل کر دیا جائے تو اس کی دیت ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگی اور وہ ہی اس کے قاتل کو قصاص میں قتل کر سکتے
ہیں حدیث قسامہ میں دیت کے بارے میں ذکر آئے گا کہ آپ نے سو اونٹ بطور دیت صدقہ کے اونٹوں سے دیے تھے۔
تحقيق وتخریج:
حدیث حسن ہے۔
[نسائي: 23/8، ابن ماجة: 2630]
فوائد:
➊ دیت میں ریٹ کے اتار چڑھاؤ کو مد نظر رکھا جائے گا دور نبوی والا ریٹ ہی نہیں چلتا جائے گا۔
➋ اونٹوں کی عدم موجودگی میں گائے سونا چاندی بھیٹر بکریوں سے بھی دیت قبول کی جائے گی۔
➌ دیت کے وارث مقتول کے ورثاء بنتے ہیں۔ تقسیم میں وہ سب برابر ہیں پہلے اصحاب فروض پھر عصبہ کو دیت کا حصہ ملے گا۔
➍ مقتول کا قصاص لینے والے قصاص لینے کا مطالبہ کرنے والے بھی اس کے ورثاء ہی ہوتے ہیں۔ ایسے ہی دیت وصول کرنے والے بھی وہی ہوتے ہیں۔
➎ عورت کے وارث بھی اصحاب فروض کے بعد عصبہ ہوں گے۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]