دفن کرنے کے بعد میت کو تلقین کرنا بدعت سیئہ اور قبیحہ ہے ، قرآن و حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہما و ثقہ تابعین عظام رحمہم اللہ سے یہ فعل قطعاً ثابت نہیں ، یہ کامل و اکمل دین میں اضافہ اور زیادتی ہے ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی ہے:
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَيۡنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَ رَسُوۡلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ﴾
”اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو ، یقیناًً اللہ تعالیٰ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے ۔ “
یاد رہے کہ دفن کے بعد میت کو تلقین کرنا کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں ہے ، اہل بدعت کے دلائل کا علمی و تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر 1:
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لقنوا موتاكم لا اله الا الله .
”اپنے قریب الموت کو لا اله الا الله کی تلقین کرو ۔ “ [مسند الامام احمد: 3/3 ، مسلم: 300/1 ح: 916 ، سنن ابي داود: 3117 ، سنن ترمذي: 976 ، سنن نسائي: 1828 ، سنن ابن ماجه: 1445]
تبصرہ:
➊ اس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ تلقین قریب الموت انسان کو کی جائے گی ، نہ کہ مردہ کو جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے ثابت ہے ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عاد رجلا من الانصار ، فقال: يا خال ! قل: لا اله الا الله ، قال: خال أم عمّ؟ قال ؛ بل خال ، قال: وخير لي أن أقولها؟ قال: نعم .
”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری آدمی کی تیمارداری کی ، فرمایا ، اے ماموں جان ! لا الہ الا اللہ کہہ دیں ، اس نے کہا: ، ماموں یا چچا؟ ، اس نے کہا: ، کیا (لا الہ الا اللہ) کہنا میرے لیے بہتر ہو گا؟ آپ نے فرمایا ، ہاں ۔ “ [مسند الامام احمد 268/3 ، ح: 13862 ، وسنده صحيح]
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رواہ أبو یعلیٰ (3512) و البزار (787) ، ورجالہ رجال الصحیح ۔
”اس حدیث کو امام ابویعلیٰ اور امام بزار نے بیان کیا ہے ، اور اس کے راوی صحیح (بخاری) کے راوی ہیں ۔ “ [مجمع الزوائد: 325/2]
◈ بوصیری کہتے ہیں:
رواہ أبو یعلیٰ و البزار بسند صحیح (اتحاف السعیرۃ: 188/3)
➋ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث پر یوں باب قائم فرماتے ہیں:
باب ماجاء فى تلقين المريض عندالموت والدعاء له عنده .
”مریض کو موت کے وقت (لا الہ الا اللہ کی) تلقین کرنے اور اس کے لئے دعا کرنے کا بیان ۔ “
نیز لکھتے ہیں:
وقد كان يستحب ان تلقن المريض عندالموت قول لا اله الا الله ، وقال بعض أهل العلم: اذا قال ذٰلك فلا ينبغي أن يلقن ، ولا يكثر عليه فى هٰذا .
”موت کے وقت مریض کو لا الہ الا اللہ کہنے کی تلقین کرنا مستحب ہے ، بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ آدمی ایک مرتبہ کہہ دے تو جب تک وہ اس کے بعد کلام نہ کرے ، اسے تلقین نہ کرنی چاہیے ، نہ ہی اسے زیادہ کہنا چاہیے ۔ “ [جامع ترمذي ، تحت حديث: 977]
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
ذكر الأمر بتلقين الشهادة من حضرته المنية .
”قریب المرگ کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنے کے حکم کا بیان ۔ “ [صحيح ابن حبان ، قبل حديث: 3003]
حافظ ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی (656 ۔ 578ھ) لکھتے ہیں:
قوله صلى الله عليه وسلم: لقنوا موتاكم لا اله الا الله ، اي قولوا لهم ذٰلك وذكروهم به عندالموت وسماهم صلى الله عليه وسلم موتي ، لأن الموت قد حضرتهم ، وتلقين الموتي هذه الكلمة سنة مأثورة ، عمل بن المسلمون ، وذلك ليكون آخر كلامه: لا اله الا الله ، فيختم له بالسعادة ، وليدخل فى عموم قوله صلى الله عليه وسلم: من كان آخر كلامه: لا اله الا الله دخل الجنّة .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو ، اسکا یہ مطلب ہے کہ موت کے وقت ان کو یاد دلا ؤ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب الموت لوگوں کو مردہ کہہ دیا ہے ، کیونکہ موت ان کے پاس حاضر ہو چکی ہوتی ہے ، مرنے والوں کو اس کلمہ کی تلقین کرناسنتِ ماثورہ ہے ، مسلمانوں کا اس پر عمل رہا ہے ، اس کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والے کی آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو جائے ، یوں اسی کلمہ پر اس کا خو ش بختی کے ساتھ خاتمہ ہو جائے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی فرمان میں داخل ہو جائے کہ جس کی آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو جائے ، وہ جنت میں داخل ہو جائے گا ۔ “ [المفهم: 569/2 ۔ 570 ، نيز ديكهيں زهر الربي للسيوطي: 514]
حافظ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
معناًه من حضره الموت ، والمراد ذكر وه لا اله الا الله ، لتكون آخر كلامه كما فى الحديث (سنن أبی داود: 3116 ، وسندہ حسن و صححہ الحاکم (351/1) و وافقہ الذھبی ، وقال ابن الملقن (البدر المنیر: 189/5): صحیح): من كان آخر كلامه لا اله الا الله دخل الجنة ، والأمر بهذا التلقين أمر ندب ، وأجمع العلماء على هٰذا التلقين .
”اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قریب المرگ ہواسے لا الہ الا اللہ یاد کروائیں ، تاکہ اس کی آخری کلام یہی ہو جائے ، جیسا کہ حدیث (سنن ابی داود: 3116 ، وسندہ حسن ، اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (351/1) نے صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ، حافظ ابن ملقن (البدر المنیر: 189/5) بھی اسے صحیح قرار دیتے ہیں ) کہ جس کی آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو گئی ، وہ جنت میں داخل ہو گیا ، تلقین کرنے کا یہ حکم استحبابی ہے ، علماء کا اسی (طریقۂ) تلقین پر اجماع ہے ۔ ” [شرح صحيح مسلم: 300/1]
صاحبِ ہدایہ لکھتے ہیں:
المراد الذى قرب من الموت .
”اس سے قریب الموت مراد ہے ۔ “ [الهداية: ص 136 ، كتاب الجنائز]
محشی ہدایہ اس کے تحت لکھتے ہیں:
دفع توهم من يتوهم أن المرادبه قرأة التلقين على قبر .
”اس سے اس انسان کا وہم دور کرنا مقصود ہے جو یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ قبر پر تلقین کرنا چاہیے ۔ “
علامہ سندھی حنفی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
المراد من حضره الموت ، لا من مات ، والتلقين أن يذكر عنده ، لا أن يأمره به ، والتلقين بعد الموت قد جزم كثير أنه حادث ، والمقصود من هٰذا التلقين أن يكون آخر كلامه لا اله الا الله ، ولذٰلك اذا قال مرة فلا يعاد عليه الا أن تكلم بكلام آخر .
”مراد قریب المرگ ہے ، نہ کہ جو فوت ہو چکا ہے ، تلقین کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے پاس کلمہ کا ذکر کیا جائے ، نہ کہ اسے حکم دیا جائے ، موت کے بعد تلقین کو بہت سے علماء نے بدعت قرار دیا ہے ، اس تلقین سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ مرنے والے کی آخری کلام یہی ہو ، اسی لیے جب وہ ایک مرتبہ کہہ دے تو دوبارہ اسے تلقین نہیں کی جائے گی ، الا یہ کہ وہ کوئی اور بات کر لے ۔ “ [حاشية السندي على النسائي: 5/4 ، تحت حديث: 1827]
نیز لکھتے ہیں:
ولا يلقن بعد تلحيده .
”دفن کرنے کے بعد تلقین نہیں کی جائے گی ۔ “ [تنوير الابصار: 119]
شیخی زادہ حنفی (م 1076ھ) لکھتے ہیں:
وقال الأكثر الأئمة المشائخ لايجوز .
”اکثر ائمہ و مشائخ کا کہنا ہے کہ یہ (قبر پر تلقین) جائز نہیں ۔ “ [مجمع الانهر: 264]
علمائے کرام کی تصریحات سے معلوم ہو گیا ہے کہ لا الہ الا اللہ کی تلقین قریب الموت آدمی کو کی جائے گی ، نہ کہ میت کو دفنانے کے بعد ، اس باوجود ”اہل بدعت“ مصر ہیں کہ یہ تلقین میت کو دفنانے کے بعد قبر پر کی جائے گی ، اہل عقل کے لئے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی کہ بدعات کے شیدائی کس طرح سینہ زوری سے کام لیتے ہیں اور بے دریغ جھوٹ بولتے ہیں؟
أما عند أهل السنة فالحديث لقنوا موتاكم محمول على حقيقة ، وقدروي عنه عليه السلام أنه أمر باتلقين بعد الدفن ، فيقول: يافلان ابن فلان ! اذكر دينك الذى كنت عليها .
”اہل سنت کے نزدیک یہ حدیث لقنوا موتاكم اپنے حقیقی معنیٰ پر محمول ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے دفن کے بعد تلقین کرنے کا حکم دیا ہے ، پس قبر پر کہے کہ اے فلان کے بیٹے فلان ! تو اس دین کو یاد کر جس پر قائم تھا ۔ “ [شامي باب الدفن ، بحث تلقين بعد الموت: 628/1 ، الجوهرة النيرة: 252/1]
ابن عابدین شامی حنفی صاحب نے ایک سانس میں بڑی بے باکی سے کئی جھوٹ بول دئیے ہیں ، ان کا یہ کہنا کہ اہل سنت نے اس حدیث کو حقیقی معنیٰ پر محمول کیا ہے ، یہ اہل سنت پر کذب و افترا اور جھوٹ ہے ، اگر ان کی مراد حنفی ”فقہاء“ ہوں تب بھی صحیح نہیں ، گویا ان کے نزدیک صاحبِ ہدایہ اہل سنت سے خارج ہیں ، دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے دفن کے بعد تلقین کا حکم قطعی طور پر ثابت نہیں ہے ، مدعی پر دلیل لازم ہے ، دفن کے بعد قبر پر تلقین شرعی مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ بہت بعد کی ایجاد ہے ، دراصل یہ لوگ دین کے حوالے سے حزم و احتیاط سے عاری ہیں ، انہوں نے اپنی خواہشات کو دین بنا رکھا ہے ، اس لیے ان کے مذہب کی بنیاد قیاس و باطل پر ہے ، یہ پہلے مسئلے گھڑتے ہیں ، بعد میں شرعی دلائل کو تروڑ مروڑ کر اس پر فٹ کرتے ہیں ، یہی وہ فعلِ شنیع ہے ، جس نے ان کو محدثین کرام سے کوسوں دور کر دیا ہے اور یہ شرعی نصوص میں لفظی ومعنوی تحریفات کے مرتکب ہوتے ہیں ، سنت دشمنی ان کا مقدر ٹھہرا ہے ، اس کے باوجود یہ اپنے تئیں اہل سنت کہنے سے نہیں تھکتے ، یہ حیران و پشیمان پھرتے ہیں ، سلف صالحین میں ان کا کوئی ہم خیال نہیں ، ان کے علم سے جہالت بہتر ہے ۔
احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
”اس حدیث کے دو معنیٰ ہو سکتے ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ جو مر رہا ہے ، اس کو کلمہ سکھاؤ ، دوسرے یہ کہ جو مر چکا ہو ، اس کو سکھاؤ ، پہلے معنیٰ مجازی ہیں اور دوسرے حقیقی اور بلا ضرورت معنیٰ مجازی لینا ٹھیک نہیں ، لہٰذا حدیث کا یہ ہی ترجہ ہوا کہ اپنے مردوں کو کلمہ سکھاؤ اور یہ وقت دفن کا ہے ۔“ [جاء الحق: 311/1]
تبصرہ:
تعذر نہ ہو تو حقیقی معنیٰ ہی لیا جاتا ہے ، جب کوئی امر مانع موجود ہو تو حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کی طرف جایا جاتا ہے ، یہ بھی اسی قبیل سے ہے ، یہاں حقیقی معنیٰ متعذر ہے ، کیونکہ مردے میں تعلم و اخذ کی صلاحیت نہیں ہوتی ، لہٰذا یہاں بھی مجازی معنیٰ مراد ہے ۔
نعیمی صاحب مزید لکھتے ہیں:
”اس حدیث اور ان عبارات سے معلوم ہوا کہ دفنِ میت کے بعد اس کو کلمہ طیبہ کی تلقین مستحب ہے ۔ “ [جاء الحق: 312/1]
افسوس مسلمان بالاتفاق جس حدیث کو انسان کی قربِ موت والی حالت پر ہی محمول کریں ، اس کو ”مفتی“ صاحب بغیر دلیل کے دفنِ میت کے بعد کی حالت پر محمول کر کے ایک بدعت کی سند دے رہے ہیں ۔
جب وہ شامی وغیرہ کی عبارات صریح جھوٹ ہیں تو ان کی بنیاد پر استوار ہونے والا عمل کیسے حق ہو گا؟
دلیل نمبر 2:
وعن ضمرة بن حبيب أحد التابعين ، قال: كانوا يستحبّون اذاسوّي على الميت قبره و انصرف الناس عنه ، أن يقال عند قبره: يا فلان ! قل: لا اله الا الله ، ثلاث مرات ، يا فلان ! قل: ربي الله و ديني الاسلام و نبيي محمد صلى الله عليه وسلم .
”ایک تابعی ضمرہ بن حبیب کہتے ہیں ، جب میت پر قبر کو برابر کر دیتے تھے اور لوگ واپس چلے جاتے تھے تو وہ اس قبر کے پاس یہ کہنا مستحب سمجھتے تھے ، اے فلاں ! تو لا اله الا الله کہہ ، (تین مرتبہ) ، اے فلاں ! تو کہہ کر میرا رب اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ “ [سنن سعيد بن منصور ، بحواله بلوغ المرام: 471]
تبصرہ:
اس کی سند ”ضعیف“ ہے ،
اس میں ”اشیاخ من اہل حمص“ مجہول و نامعلوم ہیں ،
لہٰذا یہ ناقابلِ حجت اور ناقابلِ عمل ہے ۔
تنبیہ: ”مفتی“ احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں:
”نکیرین میت سے تین سوال کرتے ہیں ، اول تو یہ کہ تیرا رب کون ہے؟ پھر یہ کہ تیرا دین کیا ہے؟ پھر یہ کہ اس سنہری جالی والے سرسبز گنبد والے آقا کو تو کیا کہتا ہے؟ پہلے سوال کا جواب ہوا أشهد أن لا اله الا الله ، دوسرے کا جواب ہوا حيّ على الصّلاة یعنی میرا دین وہ ہے جس میں پانچ نمازیں فرض ہیں ، تیسرے کا جوا ب ہوا أشهد أن محمدا عبده و رسوله . “ (جاء الحق: 312/1)
یہ واضح طور پر دین اسلام میں تحریف ہے ، یہ کسی آیتِ کریمہ یا حدیثِ مبارکہ کا مفہوم نہیں ، بلکہ صریح نصوص کی خلاف ورزی ہے ، یہ غلو کا نتیجہ ہے ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ اطہر پر سبز گنبد نہیں بنایا گیا تھا ، اس وقت یہ سوال پوچھا جاتا تھا؟ دراصل عقل و انصاف کو ان سے شکوہ ہے کہ وہ ان کاساتھ نہیں دیتے ۔
دلیل نمبر 3:
قال الامام الطبراني: حدثنا أبو عقيل أنس بن سلم الخولاني ، ثنا محمد بن ابراهيم بن العلاء الحمصي ، ثنا اسماعيل بن عياش ، ثنا عبدالله بن محمد القرشي عن يحيي بن أبى كثير عن سعيد بن عبدالله الأودي ، قال: شهدت أبا أمامة ، وهو فى النزع ، فقال: اذا أنامت فاصنعوابي كما أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نصنع بموتانا ، أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال: اذا مات أحد من اخوانكم فسويتم التراب على قبره ، فليقم أحدكم على رأس قبره ، ثم ليقل: يا فلان بن فلانة ! فانه يقول: يا فلان بن فلانة ، فانه يستوي قاعدا ، ثم يقول: يا فلان بن فلانة ، فانه يقول: أرشدنا رحمك الله ، ولكن لا تشعرون ، فليقل: اذكر ما خرجت عليه من الدنيا ، شهادة أن لا اله الا الله و أن محمدا عبده ورسوله ، وانك رضيت بالله ربا و بالاسلام دينا و بمحمد نبيا و بالقرآن اماما ، فان منكرا و نكيرا يأخذ و احد منهما بيد صاحبه ، ويقول: انطلق بنا مانقصد عند من قد لقن حجته ، فيكون الله حجيجه دونهما ، فقال رجل: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ! فان لم يعرف أمه قال: فينسبه الي حواء يا فلان بن حواء .
”سعید بن عبداللہ الاودی بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہواجب کہ وہ حالت نزع میں تھے ، کہنے لگے ، جب میں فوت ہو جاؤں تو میرے ساتھ اسی طرح کرنا جس طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے ، آپ نے ہمیں حکم فرمایا تھا ، جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے اور تم اس کی قبر پر مٹی برابر کر چکو تو تم میں سے ایک اس کی قبر کے سر کی جانب کھڑا ہو کر کہے ، اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں ! جب وہ یہ کہے گا تو مردہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا ، پھر وہ کہے گا کہ اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں ! وہ کہے گا ، اللہ تجھ پر رحم کرے ، ہماری رہنمائی کر ، لیکن تم یہ باتیں سمجھ نہیں سکتے ، پھر کہے کہ تو اس بات کو یاد کر جس پر دنیاسے رخصت ہوا ہے ، اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ، تو اللہ کے رب ہونے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا ، منکر اور نکیر میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے ، چلو جس آدمی کو اس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے ، اس کے پاس ہم نہیں بیٹھتے ، چنانچہ دونوں کے سامنے اللہ تعالیٰ اس کا حامی بن جائے گا ، ایک آدمی نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول ! اگر وہ (تلقین کرنے والا ) اس (مرنے والے ) کی ماں کو نہ جانتا ، ہو تو (کیا کرے )؟ فرمایا ، وہ اسے حواء کی طرف منسو ب کر کے کہے ، اے حواء کے فلاں بیٹے ! “ [المعجم الكبير للطبراني : 250/8 ، ح : 7979]
تبصرہ:
یہ روایت سخت ترین” ضعیف “ ہے ، کیونکہ:
➊ اس کی سند محمد بن ابراہیم بن العلاء الحمصی ہے ،
جس کے بارے میں محمد بن عوف کہتے ہیں:
كان يسرق الحديث .
” یہ حدیثیں چوری کرتا تھا ۔ “ [الكامل لابن عدي: 288/6]
امام عدی رحمہ اللہ نے بھی اس پر کلام کی ہے ،
اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں ۔
➋ امام طبرانی رحمہ اللہ کے استاذ انس بن مسلم ابوعقیل کے حالات نہیں مل سکے ۔
➌ اس روایت کا ایک راوی عبداللہ بن محمد القرشی غیر معروف راوی ہے ۔
➍ سعید بن عبداللہ الاودی کی توثیق نہیں مل سکی ، اسی لیے حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفي اسناده جماعة لم أعرافهم .
” اس کی سند میں کئی راویوں کو میں نہیں جان پایا ۔ “ [مجمع الزوائد: 45/3]
➎ اسماعیل بن عیاش کی روایت (جمہور کے نزدیک) حجازیوں سے” ضعیف “ ہوتی ہے ۔ [نتائج الافكار لابن حجر: 112 ، النكث على كتاب ابن الصلاح لابن حجر: 722/2]
یہ روایت بھی حجازیوں سے ہے ، لہٰذا“ ضعیف ” ہے ۔
➏ یحییٰ بن ابی کثیر” مدلس “ ہیں جو کہ” عن “ سے بیان کر رہے ہیں ، سماع کی تصریح ثابت نہیں ۔
لہٰذا حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ اسناده صالح ، وقد قواه الضياء فى أحكامه . (اس کی سند صالح ، یعنی حسن ہے ، امام الضیاء نے اسے اپنی کتاب احکام میں قوی کہا ہے ۔ ) [التلخيص الحبير: 135/2 ۔ 136 ، ح: 796]
صحیح نہیں ہے ۔
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
واسناده ضعيف ، وقال ابن الصلاح: ليس اسنادل بالقائم .
” اس کی سند ضعیف ہے اور ابن الصلاح نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح نہیں ۔ “ [شرح المهذب: 304/5]
حافظ عراقی رحمہ اللہ نے بھی اسے” ضعیف “کہا ہے ۔ [تخريج الاحياء: 420/4]
علامہ صنعانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ويتحصل من كلام أئمة التحقيق أنه حديث ضعيف ، والعمل به بدعة ، ولا يغتر بكثرة من يفعله .
” محققین ائمہ کرام کی کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس پر عمل کرنا بدعت ہے ، اس بدعت کواختیار کرنے والوں کی کثرت دیکھ کر دھوکانہیں کھانا چاہیے ۔ “ [سبل السلام: 161/2]
اس کا ایک شاہد قاضی الخلعی کی کتاب” الفوائد (2/55) ، بحوالہ الضعیفۃ للالبانی “میں ہے ، اس کی سند موضوع (من گھڑت) ہے ،
محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث ضعيف جدا ، لم اعرف احدا منهم غير عتبةبن السكن ، قال الدارقطني: متروك الحديث ، وقال البيهقي: واه ، منسو ب الي الوضع .
” یہ حدیث سخت ضعیف ہے ، میں ان (راویوں) میں سے عتبہ بن السکن کے علاوہ کسی کو بھی نہیں جانتا اور اس کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ متروک الحدیث ہے اور امام بیہقی نے اسے سخت ضعیف اور احادیث گھڑنے کی طرف منسو ب قرار دیا ہے ۔ “ [سلسلة الاحاديث الضعيفة الموضوعة للالباني: ح 599]
خوب یاد رہے کہ دفن کے بعد میت کو تلقین کرنے والی بدعت میں دیو بندی اور بریلوی دونوں متفق ہیں ، اس بدعت کے دفاع میں جناب محمد سرفراز خان صفدر دیو بندی لکھتے ہیں:
” البتہ دفن کے بعد تلقین کرنا عندالقبر (قبر کے پاس) ہے ، مگر وہ تو والدعاء عندھا قائما کی مد میں ہے ، جو سنت سے ثابت ہے ۔ “ [راهِ سنت: 228]
دیو بندیوں نے قبر پر تلقین کو دعا پر قیاس کیا اور بریلویوں نے قبر پر اذان کو اس تلقین پر قیاس کر لیا ، حالانکہ عرفاً و شرفاً نہ تلقین دعا ہے اور نہ اذان تلقین ہے ، شریعتِ اسلامیہ میں نہ قبر پر اذان ثابت ہے اور نہ ہی دفن کے بعد قبر پر تلقین ہی ثابت ہے ، لہٰذا ایک بے اصل چیز کو دوسری بے اصل چیز پر قیاس کرنا اہل بدعت کا ہی شیوہ ہو سکتا ہے ۔
تلقین اور ائمہ محدثین
أبو جعفر التستري يقول: حضرنا أبا زرعة ، وهو فى السياق ، وعنده أبو حاتم و محمد بن مسلم ور اة والمنذر بن شاذان و جماعة من العلماء ، فذكروا حديث التلقين وقوله صلى الله عليه وسلم: لقنواموتاكم: لا اله الا الله ، فاستحيوا من أبى زرعة ، وهابوا أن يلقنوه ، فقالوا: تعالوانذكر الحديث ، فقال: محمد بن مسلم: ناضحاك بن مخلد عن عبدالحميد بن جعفرعن صالح ، ولم يجاوز ، وقال المنذر: نابندارنا أبو عاصم عن عبدالحميد عن صالح ، ولم يجاوز ، والباقون سكتوا ، فقال أبو زرعة ، وهو فى السوق: نابندار ، نا أبو عاصم ، ناعبدالحميد بن جعفر عن صالح بن أبى عريب عن كثير بن مرة عن معاذ بن جبل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان آخر كلامه لا اله الا الله دخل الجنة ، وتوفي .
” ابوجعفر تستری بیان کرتے ہیں کہ ہم امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کے پاس آئے ، وہ حالتِ نزع میں تھے ، ان کے پاس امام ابوحاتم رحمہ اللہ ، محمد بن مسلم (وارہ) ، منذر بن شاذان اور کئی دوسرے علمائے کرام تشریف فرماتھے ، انہیں تلقین والی حدیث یاد آئی لیکن وہ امام ابوزرعہ (کی جلالتِ علمی کی وجہ سے ان) کو تلقین کرنے سے شر ما گئے ، لہٰذا انہوں نے کہا: ، آؤ حدیث کا مذاکر ہ کریں ، چنانچہ محمد بن مسلم نے یوں سند بیان کرنا شروع کی ، ہمیں ضحاک بن مخلد نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں ، ہمیں ابوعاصم نے عبدالحمید بن جعفر عن صالح کی سند سے بیان کیا ، یہاں پہنچ کر محمد بن مسلم رک گئے ، آگے بیان نہ کر سکے ، منذر بن شاذان کہنے لگے ، ہمیں بندار نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابوعاصم نے عبدالحمید سے اور ان کو صالح نے بیان کیا ، وہ بھی اس سے آگے نہ بیان کر سکے ، باقی سب خامو ش ہو گئے تو امام ابوزرعہ رحمہ اللہ فرمانے لگے ، ہمیں بندار نے حدیث بیان کی ، ان کو ابوعاصم نے ، ان کو عبدالحمید بن جعفر نے ، ان کو صالح بن ابی عریب نے حدیث بیان کی ، وہ کثیر بن مرہ سے اور وہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من كان آخر كلامه لا اله الا الله دخل الجنة . جس کی آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو گئی ، و ہ جنت میں داخل ہو گیا ۔ اس کے ساتھ ہی وہ فوت ہو گئے ۔ “ [معرفة علوم الحديث للحاكم: ص 76 ، تاريخ بغداد: 325/10 ، تقدمة الجرح و التعديل: 345 ۔ 346 باسانيد صحيحة]
امام ابراہیم نخعی کہتے ہیں:
لما ثقل علقمة قال: أقعدوا عندي من يذكرني لا اله الا الله .
” جب علقمہ تابعی رحمہ اللہ سخت بیمار ہو گئے تو فرمایا ، میرے پاس ایک آدمی بٹھاؤ جو مجھے لا الہ الا اللہ یا کرواتا رہے ۔ “ [مصنف ابن ابي شيبه: 236/3 ، وسنده صحيح]
عن ابراهيم: فى الرجل اذا مرض ، فثقل ، قال: كانوا يحبون أن لا يخلوه ، ويعتقبونه اذا قام ناس ، جاء آخرون ويلقونه: لا اله الا الله .
” امام ابراہیم اس آدمی کے بارے میں جو بیمار ہو کر قریب الموت ہو جائے ، فرماتے ہیں کہ وہ (گھر والے ) اس کو اکیلانہ چھوڑیں ، باری باری اس کے پاس آتے رہیں ، جب کچھ لوگ عیادت کر کے چلے جائیں تو دوسرے آ جائیں اور اس کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کریں ۔ “ [مصنف ابن ابي شيبه: 237/3 ، وسنده صحيح]
وقال الحسين الجعفي: دخلت على الأعمش أنا وزائدة فى اليوم الذى مات فيه ، والبيت ممتلي من الرجال ، اذ دخل شيخ ، فقال: سبحان الله ! ترون الرجل ، وما هوفيه ، وليس منكم أحد يلقنه؟ فقال الأعمش هٰكذا . فأشار بالسبابة و حرك شفتيه .
” حسین جعفی نے بیان کیا کہ میں اور زائدہ دونوں امام اعمش کی وفات والے دن ان کے پاس حاضر ہوئے ، ان کا گھر مردوں سے بھرا ہوا تھا ، اچانک ایک شیخ داخل ہوئے اور فرمایا ، سبحان اللہ ! تم سب اس شخص کو دیکھ رہے اور ان کی حالتِ (نزع) بھی ملاحظہ کر رہے ہو ، تم میں سے کوئی انہیں تلقین نہیں کررہا ! پھر امام اعمش یوں کیا ، انہوں (حسین الجعفی رحمہ اللہ) نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور ہونٹوں کو حرکت دی (یعنی انہوں نے فوت ہونے سے پہلے لا الہ الا اللہ پڑھ لیا تھا) ۔ “ [العلل و معرفة الرجال برواية عبدالله بن احمد بن حنبل: ح 3627 وسنده صحيح].