دعائے تعزیت میں ہاتھ اٹھانے کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، ج1 ص71

سوال:

کیا دعائے تعزیت میں ہاتھ اٹھانا جائز ہے؟

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تعزیت کی فضیلت
سنت نبویہ میں تعزیت کی بڑی فضیلت ہے اور اس موقع پر دعا کرنا بھی ثابت ہے۔

حدیثِ مبارکہ:
سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، نبی کریم ﷺ نے انہیں بند کیا اور فرمایا:

📖 "جب روح قبض کر لی جاتی ہے تو آنکھیں اسے دیکھتی ہیں۔”

اس پر گھر والوں نے بلند آواز سے رونا شروع کر دیا، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

📖 "اپنے لیے بھلائی کی دعا کرو، کیونکہ فرشتے تمہاری دعاؤں پر آمین کہتے ہیں۔”

پھر نبی کریم ﷺ نے یہ دعا فرمائی:

📖 اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِي سَلَمَةَ، وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ، وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِينَ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ، وَافْسَحْ لَهُ فِي قَبْرِهِ، وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ

📖 (صحیح مسلم 1/311، مشکوٰة 1/141)

یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ تعزیت کے وقت دعا کرنا مسنون ہے، لیکن اس میں ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں آیا۔

دعائے تعزیت میں ہاتھ اٹھانے کی بدعت

ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا، اس کے لیے اکٹھا ہونا اور اس کا التزام کرنا بدعت ہے، کیونکہ:

◄ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
◄ ہر دور میں بہت زیادہ اموات ہوتی رہیں، لیکن صحابہ کرام نے ایسا عمل نہیں کیا۔
◄ جب کوئی عمل بار بار ہونے والا ہو، لیکن نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام نے اسے عبادت کے طور پر اختیار نہ کیا ہو، تو اسے عبادت بنا لینا بدعت کہلاتا ہے۔

📖 (فتاویٰ البرکانیہ، ص 346)

لہٰذا، تعزیت کے وقت دعا مسنون ہے، لیکن اس میں ہاتھ اٹھانا سنت سے ثابت نہیں۔

ہاتھ اٹھانے کے استدلال کا رد

بعض لوگ ہاتھ اٹھانے کے جواز کے لیے یہ حدیث پیش کرتے ہیں:

📖 "ابو عامر نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو وصیت کی کہ نبی کریم ﷺ سے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو۔ جب نبی کریم ﷺ کو ابو عامر کی بات بتائی گئی، تو آپ نے پانی منگوایا، وضو کیا، اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی: اے اللہ! اپنے بندے ابو عامر کی مغفرت فرما۔ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر فرمایا: اے اللہ! اسے اپنی مخلوق میں سے بہت سارے لوگوں پر فائق کر دے۔ پھر میں نے کہا: میرے لیے بھی استغفار فرما دیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! عبد اللہ بن قیس کا گناہ معاف فرما دے اور اسے قیامت میں عزت والی جگہ میں داخلہ نصیب فرما!”

📖 (صحیح بخاری 4068، صحیح مسلم)

اس حدیث سے ہاتھ اٹھانے پر استدلال کرنا درست نہیں، کیونکہ:
➊ یہ دعا تعزیت کے موقع پر نہیں، بلکہ وصیت پوری کرنے کے لیے کی جا رہی تھی۔
➋ یہ عمومی دعا تھی، تعزیت کی مخصوص دعا نہیں تھی۔
➌ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ بعض اوقات عمومی دعا میں ہاتھ اٹھاتے، لیکن تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

لہٰذا، اس حدیث کو دعائے تعزیت میں ہاتھ اٹھانے کے جواز کے لیے پیش کرنا غلط استدلال ہے۔

خلاصہ

تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بدعت ہے، کیونکہ:

◄ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا نہیں کیا۔
◄ ہر دور میں اموات ہوتی رہیں، لیکن کسی صحیح حدیث میں ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں آیا۔
◄ تعزیت میں دعا کرنا مسنون ہے، لیکن اس میں ہاتھ اٹھانا سنت سے ثابت نہیں۔
◄ جو حدیث ہاتھ اٹھانے پر پیش کی جاتی ہے، وہ تعزیت کی دعا کے متعلق نہیں ہے۔

لہٰذا، تعزیت میں دعا کی جائے، لیکن بغیر ہاتھ اٹھائے۔

📖 "ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب”

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1