داڑھی کا خلال کرنا کیسا ہے؟
شمارہ السنہ جہلم

جواب: داڑھی کا خلال ضروری سنت ہے ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ أَخَذَ كَفَّا مِّن مَّاءٍ فَأَدْخَلَهُ تَحْتَ حَنَكِهِ فَخَلَّلَ بِهِ لِحْيَتَهُ ، وَقَالَ: هَكَذَا أمرني ربي
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے ، تو پانی کا ایک چلو لیتے ، اسے ٹھوڑی کے نیچے داخل کر کے خلال کرتے اور فرماتے: ایسا کرنے کا حکم مجھے میرے رب نے دیا ہے ۔
[سنن أبى داود: ١٤٥ ، مسند أبى يعلى: ٤٢٦٩ ، الطهور لأبي عبيد: ٣٢٨ ، ]
امام عقیلی رحمہ اللہ (الضعفاء الكبير: ١٥٧/٣) نے اس حدیث کی سند کو ”صالح“ ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (النكت على كتاب ابن الصلاح: ٤٢٣/١) اور حافظ سخاوی ماللہ (فتح المغيب: 99/1) نے ”حسن“ کہا ہے ۔
اس کے راوی زوران کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (تهذيب التهذيب لابن حجر: ١٣٤/١١) ، حافظ بیہقی حمدالله (معرفة السنن والآثار: ١٨٤/٧) اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ
(الكاشف: 207/3) نے ثقه کہا ہے ۔
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضّأ ، فَخَلَّلَ لِحْيَتَهُ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں داڑھی کا خلال بھی کیا ۔ “
[مسند الإمام أحمد: ١٤٩/١ ، سنن أبى داود: ١١٠ ، سنن التر مذي: 31 ، سنن ابن ماجه: ٤٣٠ ، واللفظ له ، وسنده حسن]
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ ، امام ابن الجارود رحمہ اللہ (72) ، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (15) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (1081) نے صحیح کہا ہے ۔
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَهُذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ .
اس کی سند صحیح ہے ۔
عامر بن شقیق کوفی جمہور ائمہ حدیث کے ہاں ”صدوق حسن الحدیث ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!