خیر الامور اوسطھا: کیا یہ حدیث ہے یا پھر محض ایک مقولہ؟
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص ،ج1ص، 203

"خیر الامور اوسطھا” کے متعلق شرعی حکم

سوال:

"لوگوں کا یہ کہنا کہ ‘کاموں میں بہتر کام ان کے درمیانے ہیں’ کہاں تک درست ہے؟ کیا یہ حدیث ہے یا صرف ایک مقولہ؟”
(سائل: اخوکم جمیل)

جواب:

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

"خیر الامور اوسطھا” کی حقیقت

یہ جملہ "خیر الامور اوسطھا” ایک ضعیف حدیث ہے، اور اس کی مکمل تفصیل درج ذیل ہے:

حدیث کی روایت:

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب
(السنن الکبریٰ 3/273)
میں کنانہ سے روایت کیا ہے:

"نبی اکرم ﷺ نے دو قسم کی شہرت سے منع فرمایا:
ایک یہ کہ آدمی عمدہ لباس پہنے تاکہ لوگ اس کی طرف دیکھیں،
اور دوسری یہ کہ گھٹیا اور بوسیدہ لباس پہنے تاکہ لوگ اس کی طرف دیکھیں۔
عمرو (راوی) کہتے ہیں:
مجھے رسول ﷺ سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
‘دونوں امور میں درمیانہ اختیار کرو، اور امور میں بہتر امر درمیانہ ہے۔’

امام بیہقیؒ فرماتے ہیں:
"یہ روایت منقطع ہے۔”

دیگر کتب میں تخریج:

امام قرطبی نے اس کو مندرجہ ذیل مقامات پر نقل کیا:
(2/154)
(5/343)
(6/271)

عجلونی نے
کشف الخفاء (1/391) رقم (1247)
میں لکھا ہے:
"یہ حدیث ضعیف ہے۔”

الاتحاف (8/13)، (7/336)
میں آیا ہے:
"کہا گیا ہے کہ یہ مرسل روایت ہے۔”

سند کا ضعف:

ایک اور سند میں ایک راوی مجہول ہے۔
دیلمی میں یہ روایت بلا سند بیان کی گئی ہے۔

حدیث پر محدثین کی جرح:

المقاصد الحسنہ (ص: 205 اور 455) پر موجود ہے:
"یہ حدیث ضعیف ہے۔”

نتیجہ:

"خیر الامور اوسطھا” ایک ضعیف حدیث ہے، اور اس کو عقیدہ یا شریعت کے اصول کے طور پر لینا درست نہیں ہے، کیونکہ اس کی سند میں انقطاع اور مجہول راوی موجود ہیں۔
البتہ بطور حکمت کی بات یا مقولہ اسے برتا جا سکتا ہے، لیکن اس کو نبی ﷺ کی حدیث کہنا شرعی طور پر درست نہیں۔

ھٰذا ما عندی، واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1