خواتین بھی قبروں کی زیارت کر سکتی ہیں بشرطیکہ
کثرت کے ساتھ نہ کریں۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ رخصت کے الفاظ میں خواتین بھی شامل ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فزوروها ”اب تم قبروں کی زیارت کرو۔“
➋ جس سبب کی وجہ سے قبروں کی زیارت جائز ہے اس میں عورتیں بھی مردوں کی شریک ہیں یعنی تذكر الآخرة ”قبریں آخرت یاد دلاتی ہیں۔“
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک روز حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کر کے واپس آئیں تو حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت سے منع نہیں کیا؟ انہوں نے جواب دیا: نعم ثم أمر بزيارتها ”ہاں ، لیکن پھر ان کی زیارت کی اجازت دے دی ۔“
[صحيح: حاكم: 3761 ، بيهقي: 78/4 ، التمهيد لابن عبدالبر: 233/3 ، امام ذهبيؒ اور حافظ بوصيريؒ نے اسے صحيح كها هے۔ الزوائد: 988/1 ، أحكام الجنائز للألباني: ص/ 230]
➍ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ :
كيف أقول يا رسول الله إذا زرت القبور؟
”اے اللہ کے رسول ! جب میں قبروں کی زیارت کروں تو کیا کہوں؟ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قولي السلام على أهل الديار…..
”تم یہ دعا پڑھا کرو۔“ السلام على أهل الديار ….. .
[مسلم: 974 ، كتاب الجنائز: باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لأهلها ، نسائي: 93/4 ، بيهقي: 78/4 ، شرح السنة: 306/3 ، عبد الرزاق: 2712 ، ابن ماجة: 1546]
➎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہر جمعہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں ۔
[حاكم: 377/1]
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے قریب بیٹھی رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا:
اتقي الله واصبرى
”اللہ تعالیٰ سے ڈر جا اور صبر کر ۔ “
اس حدیث پر امام بخاریؒ نے یہ باب قائم کیا ہے باب زيارة القبور ”قبروں کی زیارت کا بیان ۔ “
[بخاري: 1283 ، كتاب الجنائز]
(ابن حجرؒ ) (اس حدیث میں) محل شاہد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو قبر کے پاس بیٹھنے سے نہیں روکا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو برقرار رکھنا قابل حجت ہے۔
[فتح البارى: 244/4]
(علامہ عینیؒ) اس حدیث میں مطلق قبروں کی زیارت کا جواز ہے خواہ زائر مرد ہو یا عورت۔
[عمدة القارى: 76/3]
لیکن خواتین کے لیے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنا جائز نہیں جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن زوّارات القبور
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ قبروں کی زیارت کرنے والی خواتین پر لعنت فرمائی ہے۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 1281 ، 1280 ، المشكاة: 1770 ، إرواء الغليل: 232 ، ترمذي: 1056 ، كتاب الجنائز: باب ما جاء فى كراهية زيارة القبور للنساء ، ابن ماجة: 1576 ، أحمد: 337/2]
(قرطبیؒ) حدیث میں مذکور لعنت ایسی خواتین کے لیے ہے جو بہت زیادہ زیارت کرتی ہیں کیونکہ مبالغے کا صیغہ اسی کا تقاضا کرتا ہے۔
[التذكرة: 11/1 ، نيل الأوطار: 63/3]
(ملا علی قاریؒ) امید یہی ہے کہ اس سے مراد کثرت سے زیارت کرنے والی خواتین ہیں ۔
[مرقاة: 256/4]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[تحفة الأحوزى: 155/4]
(شوکانیؒ ) انہوں نے اسی کو مناسب قرار دیا ہے۔
[نيل الأوطار: 63/3]
(البانیؒ) (خواتین کے لیے ) کثرت سے زیارت کرنا جائز نہیں ۔
[أحكام الجنائز: ص/235]
(ابن تیمیہؒ) صحیح بات یہ ہے کہ عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت جائز ہی نہیں ۔
[مجموع الفتاوى: 151/24]
جس روایت میں یہ لفظ ہیں: زائرات القبور ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔“ وہ ضعیف ہے۔
[أحكام الجنائز: ص / 236 ، ترمذي: 1056]
اگر یہ روایت کسی طرح قابل حجت ہو جائے تو اس سے مراد ایسی عورتیں ہوں گی جو بناؤ سنگھار کر کے جاتی ہیں یا نوحہ کرتی ہیں۔ ورنہ کبھی کبھار زیارت کے لیے جانا عورتوں کے لیے یقیناً جائز ہے۔