خضر علیہ السلام کی وفات سے متعلق سوال و جواب
سوال :
آپ نے خضر علیہ السلام کے فوت ہونے کا فتویٰ دیا تھا، لیکن ایک حدیث میں ذکر ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا اور صحابہ کرامؓ کو غسل کے متعلق تردد ہوا کہ آپ ﷺ کو لباس میں غسل دیں یا بغیر لباس کے، تو مکان کے ایک کونے سے آواز آئی کہ "لباس میں غسل دو”، اور کہا جاتا ہے کہ یہ آواز خضر علیہ السلام کی تھی۔ تو کیا یہ حدیث آپ کے فتوے کو باطل نہیں کرتی؟
✅ الجواب :
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:
ولا حول ولا قوة الا بالله
🔎 خضر علیہ السلام کی وفات کا فتویٰ درست ہے
ہم نے جو خضر علیہ السلام کی وفات کا فتویٰ دیا ہے، وہ بالکل درست ہے۔ ان شاء اللہ مستقبل میں اس بارے میں مکمل دلائل ذکر کیے جائیں گے۔
📖 آپ کی ذکر کردہ حدیث کی وضاحت
جس حدیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے، اسے امام بیہقی نے "دلائل النبوۃ” میں روایت کیا ہے۔
اسی طرح یہ حدیث مشکوٰۃ المصابیح میں بھی موجود ہے:
(مشکوٰۃ المصابیح، جلد 2، صفحہ 549، حدیث نمبر 5972)
حدیث کا خلاصہ یہ ہے:
جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
قریش کا ایک شخص علی بن الحسن کے پاس آیا اور کہا:
"کیا میں آپ کو رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث سناؤں؟”
علی بن الحسن نے فرمایا: "ہاں، سناؤ”
اس نے کہا:
"جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور فرمایا:
"اے محمد ﷺ! اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کی تکریم کے لئے بھیجا ہے…”
جب نبی کریم ﷺ کا وصال ہو گیا اور تعزیت ہونے لگی تو لوگوں نے مکان کے ایک کونے سے ایک آواز سنی:
"اے گھر والو! تم پر سلام ہو، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ اللہ ہی ہر مصیبت میں تسلی دینے والا ہے، وہی ہر فوت ہونے والے کا خلیفہ ہے، اور ہر چیز جس کا فنا ہونا مقدر ہے، اس کا باقی رہنا اسی کے پاس ممکن ہے۔ تو اسی سے ڈرو اور اسی سے امید رکھو، ثواب سے محرومی ہی سب سے بڑی مصیبت ہے۔”
علی بن الحسن نے کہا:
"کیا تم جانتے ہو یہ کون ہیں؟ یہ خضر علیہ السلام ہیں۔”
📉 روایت کی سند پر تبصرہ
یہ روایت ضعیف (کمزور) ہے۔ اس کی سند میں ارسال اور انقطاع پایا جاتا ہے، کیونکہ:
◈ علی بن الحسن نے نبی کریم ﷺ کا زمانہ نہیں پایا
◈ اس وجہ سے یہ روایت مرسل اور منقطع ہے
لہٰذا اس حدیث سے خضر علیہ السلام کی حیات پر استدلال درست نہیں ہے۔
یہ روایت ان دلائل کے بھی خلاف ہے جو آگے بیان کیے جائیں گے۔
📌 نتیجہ
◈ خضر علیہ السلام کی وفات کا فتویٰ درست ہے
◈ مذکورہ روایت سے اس فتوے پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا
◈ روایت کی سند ضعیف ہے، لہٰذا اس سے کوئی شرعی استدلال ممکن نہیں
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب